’’بی جے پی کی توسیع‘‘: سیاسی جماعتوں نے جموں و کشمیر حد بندی کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کردیا
سرینگر، مئی 6: حد بندی کمیشن کی طرف سے ہندو اکثریتی جموں کے لیے 43 اسمبلی نشستوں اور مسلم اکثریتی کشمیر کے علاقے کے لیے 47 نشستوں کی سفارش کے بعد یونین ٹیریٹری میں سیاسی طوفان آ گیا ہے۔
پہلی بار نو اسمبلی حلقے درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں، جن میں سے چھ جموں کے علاقے میں ہیں اور تین کشمیر میں ہیں۔
سابقہ جموں و کشمیر ریاست کے آئین میں قانون ساز اسمبلی میں درج فہرست قبائل کے لیے نشستوں کی ریزرویشن کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ کمیشن نے کشمیری پنڈت تارکین وطن اور پاک مقبوضہ کشمیر کے پناہ گزینوں کے لیے اضافی نشستوں کی سفارش کی ہے۔
کمیشن نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ حد بندی ایکٹ 2002 کی دفعہ 9(1)(a) اور جموں اور کشمیر تنظیمِ نو ایکٹ 2019 کے سیکشن 60(2) کی دفعات کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کے 90 اسمبلی حلقوں میں سے 43 جموں اور 47 کشمیر کے علاقے کا حصہ ہوں گے۔
جموں خطہ میں چھ نئے اسمبلی حلقے راجوری، ڈوڈا، ادھم پور، کشتواڑ، کٹھوا اور سانبہ اضلاع سے بنائے جانے کی امید ہے۔ وادی کشمیر کے لیے ایک نئی نشست مبینہ طور پر کپواڑہ ضلع سے بنائی جائے گی۔
ابھی تک کشمیر کے علاقے میں 46 سیٹیں ہیں اور جموں ڈویژن میں 37 سیٹیں ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے ’’خطے میں پانچ پارلیمانی حلقے ہیں۔ حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر خطے کو ایک واحد مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے طور پر دیکھا ہے۔ لہذا وادی میں اننت ناگ خطہ اور جموں خطہ کے راجوری اور پونچھ کو ملا کر ایک پارلیمانی حلقہ بنایا گیا ہے۔ اس تنظیم نو کے ذریعے ہر پارلیمانی حلقے میں 18 اسمبلی حلقوں کی مساوی تعداد ہوگی۔‘‘
بی جے پی کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس رپورٹ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ’’کیسی حد بندی؟ وہ جو جو بی جے پی کی توسیع بن گئی ہے؟ جس نے آبادی کی بنیاد کو نظر انداز کیا اور اپنی مرضی کے مطابق کام کیا۔ ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ہمیں اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس کی سفارشات دفعہ 370 کی منسوخی کی ایک کڑی ہیں کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو کیسے بے اختیار کیا جائے۔‘‘
بعد میں پی ڈی پی نے ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا جس میں حد بندی کی مشق کو 5 اگست 2019 کو شروع ہونے والے عمل کی توسیع قرار دیا گیا تاکہ ایک مخصوص کمیونٹی اور ایک علاقے کے لوگوں کو بے اختیار کیا جا سکے۔
پی ڈی پی نے کہا ’’حتمی مسودے نے ہمارے خوف کو ایک بار پھر درست ثابت کر دیا ہے۔ حکومتِ ہند نے انتخابی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے آزاد اداروں کا استعمال کیا ہے یا غلط استعمال کیا ہے۔۔۔۔ ملک کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو گا کہ پہلا ووٹ ڈالنے سے بہت پہلے ہی انتخابات میں دھاندلی کی جا رہی ہے۔ یہ تاریخ کا ایک اور افسوس ناک باب ہے جو نئی دہلی میں بیٹھے حکمرانوں نے لکھا ہے۔‘‘
نیشنل کانفرنس نے کہا کہ وہ جموں و کشمیر میں انفرادی اسمبلی حلقوں پر حد بندی کمیشن کی رپورٹ کے اثرات کا مطالعہ کر رہی ہے۔ ایک بیان میں نیشنل کانفرنس نے کہا ’’ہم نے حد بندی کمیشن کی حتمی سفارشات دیکھی ہیں۔ ہم انفرادی اسمبلی حلقوں کے لیے ان سفارشات کے مضمرات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔‘‘
وہیں کانگریس نے اس رپورٹ کو ’’متعصب، انتہائی ناقص، سیاسی طور پر حوصلہ افزا اور حد بندی کے بنیادی اصولوں کے خلاف‘‘ قرار دیا۔
سجاد لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس نے کہا کہ حد بندی کی رپورٹ ماضی کا اعادہ ہے۔ پارٹی نے ٹویٹ کیا کہ ’’کشمیر کے ساتھ ماضی کی طرح امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں۔‘‘