دہلی ہائی کورٹ نے کارکن شرجیل امام سے علی گڑھ میں اپنے خلاف درج ایف آئی آر اور چارج شیٹ کی کاپی داخل کرنے کو کہا

نئی دہلی، مئی 6: دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو کارکن شرجیل امام کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں ان کے مؤکل کے خلاف داخل کی گئی پہلی معلوماتی رپورٹ اور چارج شیٹ کو ریکارڈ پر رکھیں۔

جسٹس سدھارتھ مردل اور رجنیش بھٹناگر کی بنچ امام کی طرف سے دائر کی گئی ایک اپیل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں سیشن عدالت کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس نے دہلی فسادات کے بڑے سازشی کیس میں انھیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

امام پر اپریل 2020 میں ان کی مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کے لیے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ تین ماہ بعد پولیس نے ان پر بغاوت کا الزام لگایا۔ ان کے خلاف چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 کے دہلی فسادات ان کی تقریروں کا نتیجہ تھے۔

شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مظاہرین کے علاحدگی پسندانہ مقاصد تھے اور وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’’سول نافرمانی‘‘ کا استعمال کر رہے تھے۔

امام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ تنویر احمد میر نے جمعہ کو کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے امام کی دو تقریروں میں سے ایک کو سنا ہے جنھیں دہلی پولیس کی طرف سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کی بنیاد بنایا گیا تھا۔

امام کو علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریر کے لیے نومبر میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی، لیکن وہ تہاڑ جیل سے آزاد نہیں ہوئے کیوں کہ ان پر دہلی فسادات کی بڑی سازش کیس میں بھی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

میر نے عدالت میں امام کے لیے دلائل دیتے ہوئے کہا ’’مجھ سے دو تقریریں منسوب ہیں، ایک 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور دوسری 16 جنوری 2020 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں۔ زیر بحث ایف آئی آر 25 جنوری 2020 کو درج کی گئی تھی اور میں 28 جنوری 2020 سے حراست میں ہوں۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔‘‘

میر نے کہا کہ اسی تقریر کے لیے ان کے مؤکل کے خلاف تقریباً پانچ سے چھ مزید ایف آئی آرز درج کی گئیں۔

میر نے کہا ’’الہ آباد ہائی کورٹ نے انھیں اسی کیس میں ضمانت دی ہے۔ ہائی کورٹ کا دلچسپ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی تشدد نہیں ہوا۔‘‘

بار اینڈ بنچ نے اطلاع دی کہ دہلی فسادات کی سازش کے کیس میں امام کے کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی اور 26 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ عدالت اسی دن UAPA کے تحت الزامات کے تعین کو چیلنج کرنے والی امام کی درخواست پر بھی سماعت کرے گی۔

 

عمر خالد کی درخواست بھی ملتوی کر دی گئی

دریں اثنا امام کی عرضی کے ساتھ دہلی ہائی کورٹ کو جمعہ کو کارکن عمر خالد کی طرف سے دائر ضمانت کی درخواست پر بھی سماعت کرنی تھی۔

اسی بنچ نے جس نے جمعہ کو قبل ازیں امام کی درخواست کی سماعت کی کہا کہ جسٹس مردل نے تقریباً چھ خصوصی بنچ کے معاملات نمٹانے کے لیے ہیں اور اسی لیے انھیں خالد کی سماعت ملتوی کرنی پڑی۔

اب سماعت 19 مئی کو ہوگی۔

بنچ نے خالد کو مؤثر فیصلے کے لیے تمام متعلقہ دستاویزات ریکارڈ پر رکھنے کی بھی اجازت دی۔

بنچ نے کہا ’’اس دوران فریقین کو تمام دستاویزات ریکارڈ پر رکھنے کی آزادی ہے جو کہ اپیل کے فیصلے کے لیے آج سے ایک ہفتے کے اندر دوسری طرف پیشگی کاپی کے ساتھ متعلقہ ہوں۔‘‘

دہلی کی ایک سیشن عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد خالد نے اس حکم کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔