امریکہ کی عدالت عظمیٰ

بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

مسعود ابدالی

ملک کی سب سے بڑی عدالت کا اخلاقی معیارسب سے کم؟
سپریم کورٹ کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کی کوشش
دنیا بھر کے عدالتی نظام کی درجہ بندی کرنے والے ادارے عالمی پروجیکٹ برائے انصاف (WJP)نے شفافیت کے اعتبار سے امریکہ کے عدالتی نظام کو دنیا بھر میں 26واں نمبر دیا ہے۔ بھارت 77 اور پاکستان 129 ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں اس ادارے اور درجہ بندی پر اعتبار نہیں کہ WJP کے مطابق ڈنمارک اور ناروے فراہمی انصاف اور تحفظِ انسانی حقوق کے معاملے میں بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے احترام کا یہ عالم کہ ان دونوں ملکوں میں خواتین اور طالبات کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت تک نہیں اور پبلک مقامات پر حجاب قابل سزا جرم ہے۔ ڈنمارک کے ایک سیاستدان Rasmus Paludan نے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کیا۔ یہ قدم سفارتی آداب و رکھ رکھاو کی صریح خلاف ورزی تھی کہ سفیروں کو ہراساں کرنا عالمی قانون کے تحت سنگین جرم ہے لیکن پولیس نے راسمس پلوڈن کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والے نوجوان کو عدالت کی توثیق سے ملک بدر کر دیا گیا۔ بھارت میں اقلیتوں اور مقامی دلتوں (اچھوتوں) کو جس فراوانی سے انصاف مل رہا ہے اس پر تبصرہ غیر ضروری ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، ریاست منی پور میں بدترین فسادات جاری ہیں جہاں دو یہودی عبادت گاہیں اور توریت کے ایک قدیم نسخے کو آگ لگادی گئی۔
ایک غیر ضروری بات سے گفتگو کے آغاز پر معذرت لیکن ’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی کیا کیجیے‘۔
آج کی نشست میں ہم امریکی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کا کچھ ذکر کریں گے کہ بی بی عظمیٰ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔
امریکہ کی عدالت عظمیٰ 9 ججوں پر مشتمل ہے جن کا تقرر تاحیات بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بیماری و معمولی معذوری کی صورت میں بھی انہیں ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگر کوئی کسی اخلاقی جرم میں ملوث ہوجائے تو اور بات ہے۔ سنیٹ کی بالادستی امریکی جمہوریت کا سب سے خوبصورت پہلو ہے کہ اس ادارے میں وفاق کی تمام اکائیاں برابر کی حصہ دارہیں۔ اٹارنی جنرل، کابینہ کے ارکان، فوج کے سربراہ، امریکی سفیروں، انٹلیجنس اداروں کے سربراہ، وفاقی اور سپریم کورٹ کے جج، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں سمیت تمام اہم تقرریوں کے لیے سنیٹ کی توثیق ضروری ہے۔ ان مناصب کے لیےفرد کا انتخاب صدر کی ذمہ داری ہے۔ سنیٹ تقرری کو مسترد کر سکتی ہے لیکن یہ ادارہ نیا نام تجویز نہیں کرسکتا۔ نامزدگی کا اختیار صدر کو ہے۔مختلف اداروں کی طرح امریکی سپریم کورٹ پر سیاست اور نظریاتی چھاپ بڑی واضح ہے۔ انتخابی تقریروں اور نعروں میں صدارتی امیدوار سپریم کورٹ کو آئین اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنانے کا عزم تو ظاہر کرتے ہیں۔
لیکن تقرریوں میں نظریاتی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعیناتی تاعمر ہوتی ہے اس لیے ان نامزدگیوں کے اثرات کئی دہائیوں تک قائم رہتے ہیں۔صدر اوباما کے اقتدار کے خاتمے کے وقت سپریم کورٹ 4 لبرل، 3 قدامت پسند اور ایک دائیں بازو کی طرف مائل متوازن جج پر مشتمل تھا جبکہ قدامت پسند جج جسٹس اینٹوئن اسکیلیا Antonin Scalia کے انتقال کی وجہ سے ایک نشست خالی تھی۔ فروری 2016 میں جب جسٹس اسکیلیا کا انتقال ہوا تو سابق صدر اوباما نے میرک گارلینڈ Merrick Garland کو ان کی جگہ نامزد کیا لیکن سنیٹ کے قائد ایوان مچ میکونل نے موقف اختیار کیا کہ 7 ماہ بعد صدر اوباما کی آٹھ سالہ مدت صدارت پوری ہونے کو ہے لہٰذا نامزدگی نئے صدر کے انتخابات تک ملتوی کردی جائے۔ سنیٹ میں برتری کے زور پر ریپبلکن پارٹی نے مسٹر گارلینڈ کی نامزدگی پر ایوان کی مجلس قائمہ برائےانصاف کے سامنے معاملہ پیش ہی نہ ہونے دیا۔ اس وقت دونوں جماعتیں انتخابی مہم میں الجھی ہوئی تھیں لہٰذا معاملہ ٹل گیا اور صدر ٹرمپ ملک کے صدر بن گئے۔ حلف اٹھاتے ہی انہوں نے قدامت پسند جسٹس نیل گورسچ Neil Gorsuch کو سپریم کورٹ کاجج نامزد کردیا۔ مسٹر گورسچ کے انتہا پسندانہ قدامت پسند رویہ کی بنا پر ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کی نامزدگی کی شدید مخالفت کی۔
ضابطے کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی توثیق کے لیے60 ووٹ درکار تھے جبکہ سنیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے پاس صرف 52 نشستیں تھیں۔ ریپبلکن پارٹی نے ایک قرارداد کے ذریعے انتخابی ضابطہ تبدیل کرکے جج کی توثیق کے لیےسادہ اکثریت کو کافی ٹھہرادیا۔ اکثریت کے بل پر ضابطہ تبدیل کردینے کا عمل امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں Nuclear optionکہلاتا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی پر جوہری بم گرانے کے بعد جسٹس گورسچ کی 45کےمقابلے میں 54 ووٹوں سے توثیق کرالی گئی۔ جسٹس گورسچ کے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ میں قدامت پسنداور لبرل 4:4سے برابر ہوگئے جبکہ جسٹس انتھونی کینیڈی دائیں بازو کی طرف مائل معتدل سمجھے جاتے تھے یعنی لبرل اور قدامت پسند معرکے میں جسٹس کینیڈی کے پاس فیصلہ کن یا Swing ووٹ تھا۔
اکتوبر 2018 میں جسٹس کینیڈی مستعفی ہوگئے، صدر ٹرمپ نے ان کی جگہ ایک انتہائی قدامت پسند جج بریٹ کیونا Brett Kavanaugh کو نامزد کردیا اور ان کی توثیق کے بعد بنچ کا جھکاو 4 کے مقابلے میں 5 سے قدامت پسندوں کی جانب ہوگیا۔ ستمبر 2020 میں لبرل جج محترمہ رتھ بدر گنزبرگ کے انتقال پر صدر ٹرمپ نے لوزیانہ سے ایک قدامت پسند جج محترمہ ایمی بیرٹ کا تقرر کرکے بنچ پر قدامت پسندوں کی گرفت چھ 3 سے فیصلہ کن کر دی۔ جہاں ججوں کا تقرر سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر ہوتا ہو ہو وہاں انصاف کی کیا توقع؟ ادھر کچھ دنوں سے امریکی عدالت عظمیٰ کے قاضیوں کے بارے میں سنسنی خیز ا نکشافات ہو رہے ہیں۔ ایک انتہائی شرمناک انکشاف تو جسٹس بریٹ کیونا کی توثیق کے لیے سنیٹ کے اجلاس کے دوران ہوا جب جامعہ پالوالٹو PaloAlto کیلیفورنیا میں نفسیات کی پروفیسر کرسٹین بلیسی فورڈ Christine Blasey Ford نے الزام لگایا کہ ہائی اسکول کی ایک پارٹی کے دوران نشے میں دھت جسٹس کیوانا نے ان پر مجرمانہ حملے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحبہ کی عمر 17 سال تھی جبکہ جسٹس کیوانا 19 برس کے تھے۔ 34 برس پہلے ہونے والے اس واقعے کا پروفیسر صاحبہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں بلکہ انہیں مقام اور تاریخ بھی یاد نہیں۔ اس حساس معاملے پر بحث و مباحثے کے دوران کچھ دلچسپ اعداد وشمار سامنے آئے ہیں جس کے مطابق امریکہ میں ایک تہائی خواتین یعنی ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں مجرمانہ حملے یا جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنتی ہے۔ مجرمانہ حملوں کے 90 فیصد واقعات شرم اور خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
ڈاکٹر فورڈ کے بعد جامعہ ییل Yale University میں ان کی ایک اور ہم جماعت محترمہ ڈیبرا رامیریز DeborahRamirez نے الزام لگایا کہ جج کیونا زمانہ طالب علمی میں بلانوشی کا شکار تھے اور نشے میں آپے بلکہ بسا اوقات جامے سے بھی باہر ہو جاتے تھے۔ ایسا ہی انکشاف دورِ طالب علمی میں ان کی ایک اور واقف کار محترمہ جولی سویٹنک Julie Swetnick نے کیا۔ جولی نے اپنے وکیل کی معرفت اخبارات کو ایک خط میں بتایا کہ نشے میں دھت ہوکر جسٹس صاحب لڑکیوں سے دست درازی اور نازیبا حرکات کیا کرتے تھے۔ تاہم سنیٹ کی کمیٹی نے ان خواتین کو سماعت کے لیےطلب نہیں کیا۔ اپنی عددی برتری کو فائدہ اٹھاتے ہوئے مجلس قائمہ نے 10 کے مقابلے میں11 ووٹوں سے اور ایک ہفتے بعد 48:50سے سنیٹ نے تقرری کی توثیق کردی۔
اس سال اپریل کے آغاز میں انکشاف ہوا کہ کہ قدامت پسند سیاہ فام جسٹس کلیرنس ٹامس (ClarenceThomas) گزشتہ بیس سال سے بہت ہی شاہانہ طریقے پر تعطیلات منا رہے ہیں۔ ان کا سفر نجی طیارے پر ہوتا ہے، وہ پرتعیش بجرے (Yacht) استعمال کرتے ہیں۔ عالیشان ہوٹلوں کے وسیع و عریض Suites میں قیام کرتے ہیں، شاپنگ وخریدرای فراخدلی سے ہوتی ہے اور خورد ونوش کا اہتمام بھی انتہائی رئیسانہ نوعیت کا ہے۔ چار سال پہلے جب وہ تفریح وتعطیل کے لیے انڈونیشیا گئے تو سفر و رہائش و خورد ونوش کا خرچ پانچ لاکھ ڈالر آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ مزے سرکاری تنخواہ سے تو ممکن نہیں۔ بات بڑھی تو پتہ چلا کہ ٹیکسس Texas کے ایک ارب پتی ہارلن کرو (HarlanCrow) یہ خرچ اٹھا رہے ہیں۔ 74 سالہ ہارلن ریپبلکن پارٹی کے کرم فرماوں میں سے ہیں اور پارٹی کو اوسطاً ہر سال پچاس لاکھ ڈالر عطیہ دیتے ہیں۔اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ہارلن کرو نے کہا کہ جسٹس ٹامس میرے بہت عزیز دوست پیں اور دنیا کو معلوم ہے کہ میں دوستوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔ مجھے اپنے یاروں کی میزبانی نہ صرف پسند پے بلکہ میں اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔ تاہم دوستی بس دوستی ہے، میں نے جج صاحب سے کبھی مقدمات یا عدالتی امور کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
اپریل ہی کے مہینے میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس گورسچ نے 40 ایکڑ زمین قانونی خدمات فراہم کرنے والے ایک ادارے یا Law Firm کو فروخت کی۔ جج صاحب وارڈن گروپ کے شراکت دار ہیں، اس ادارے نے Greenberg Traurig & Duffy(GTD) کو 18 لاکھ ڈالر کے عوض یہ زمین بیچی جس پر 5 لاکھ ڈالر کا منافع ہوا۔ کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ زمین کی قیمت بازار سے کافی زیادہ تھی اور یہ سودا جسٹس صاحب کی تقری کے ایک ماہ بعد اکتوبر 2017 میں ہوا۔ GTD کے وکلا گورسچ صاحب کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنو ں ایک اور سنسنی خیر انکشاف ہوا کہ قاضی القضاۃ جسٹس جان رابرٹس کی اہلیہ محترمہ جین رابرٹس (Jane Roberts) نے وکلا اور قانونی خدمات فراہم کرنے والے مشہور ادارے Major, Lindsey & Africa سے ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر کمیشن وصول کیا۔ یہ ادارہ مقدمات کے لیے وکلا کی تلاش میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جین صاحبہ کی فرم Macrae اور امریکی سپریم کورٹ کے ترجمان نے ایک اندرونی جانکار یا Whistle Blower کے اس انکشاف پر تبصرے سے انکار کردیا لیکن قاضی القضاۃ کی خاموشی سے لگتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔’ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے‘۔( چینی کہاوت)۔
اسقاط حمل، ہم جنس پرستی یا LGBT، اسلحہ رکھنے کے شہری حقوق (gun control) اور ریاستی معاملات میں مذہبی عمل دخل کے حوالے سے شدید اختلاف کے باوجود خود کو احتساب سے بالاتر رکھنے پر سارا بنچ یک جان ومتحد ہے۔ جسٹس تامس کی پرتعیش تعطیلات کی خبر آنے پر جب قاضی القضاۃ کو کانگریس میں طلب کیا گیا تو موصوف نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کردی کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ ریاست سے تین آزاد و خود مختار ستون ہیں اور کسی بھی فریق کو دوسرے کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے۔ نظریاتی خلیج کے باوجود تینوں میں سے کسی بھی لبرل جج نے قدامت پسند چیف جسٹس کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔
لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کے قانون ساز عدلیہ کو شتر بے مہار چھوڑ دینے پر تیار نہیں ہے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ریپبلکن سنیٹر محترمہ لیسا مرکوسکی اور ڈیموکریٹک پارلیمانی پارٹی (Caucus) سے وابستہ آزاد سنیٹر انگس کنگ نے ایک ضابطہ قانون ترتیب دینے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کو اخلاقی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ہدایت کے ساتھ ان سفارشات پر عمل درآمد، مفادات کے ٹکراو اور عوامی شکایات کی سماعت کے لیے ایک اہلکار تعینات کیا جائے گا۔
صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سنیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ سینیٹر ڈک ڈربن نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا اخلاقی معیار سب سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اسے مسئلہ ہی نہیں سمجھتی۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 جہاں ججوں کا تقرر سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر ہوتا ہو وہاں انصاف کی کیا توقع؟ ادھر کچھ دنوں سے امریکی عدالت عظمیٰ کے قاضیوں کے بارے میں سنسنی خیز ا نکشافات ہو رہے ہیں۔ ایک انتہائی شرمناک انکشاف تو جسٹس بریٹ کیونا کی توثیق کے لیے سنیٹ کے اجلاس کے دوران ہوا جب جامعہ پالوالٹو PaloAlto کیلیفورنیا میں نفسیات کی پروفیسر کرسٹین بلیسی فورڈ Christine Blasey Ford نے الزام لگایا کہ ہائی اسکول کی ایک پارٹی کے دوران نشے میں دھت جسٹس کیوانا نے ان پر مجرمانہ حملے کی کوشش کی تھی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023