تبدیلیِ مذہب کا الزام لگاتے ہوئے ہندوتوا ہجوم نے چھتیس گڑھ میں عیسائیوں کی دعائیہ تقریب میں خلل ڈالا، توڑ پھوڑ کی
نئی دہلی، مئی 2: چھتیس گڑھ کے درگ ضلع میں اتوار کو ہندوتوا گروپ کے تقریباً 30 سے 40 ارکان نے مبینہ طور پر عیسائیوں کی عبادت میں خلل ڈالا اور پنڈال میں توڑ پھوڑ کی۔
یہ واقعہ وزیر اعلی بھوپیش بگھیل کے پٹن کے اسمبلی حلقہ کے ایک گاؤں املیشور میں پیش آیا، جہاں بھیڑ نے عیسائیوں پر مذہب کی تبدیلی کا الزام لگایا۔ چھتیس گڑھ کرسچن فورم کے صدر ارون پنالال نے الزام لگایا کہ عبادت میں خلل ڈالنے والے بجرنگ دل کے ارکان تھے۔
جماعت کے ایک رکن لال چند ساہو نے دی اسکرول کو بتایا کہ ہندوتوا گروپ کے ارکان نے اس گھر کی طرف مارچ کیا جہاں تقریب چل رہی تھی اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس کے بعد ہم نے ہجوم کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے دروازہ بند کر دیا۔
ساہو نے بتایا کہ اس کے بعد ہجوم نے لاٹھیوں سے دروازوں پر مارنا شروع کر دیا اور نلکے کے پانی سے جڑی ہوئی نلی کو گھر میں گھمایا۔ ہجوم نے گھر میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کو بھی تباہ کر دیا اور گھر کی بجلی کاٹ دی۔
ساہو نے دی اسکرول کو بتایا کہ پولیس آدھے گھنٹے میں مقام پر پہنچی۔
انھوں نے کہا کہ پولیس کے بڑی تعداد میں آنے کے بعد ہم نے [گھر کا] گیٹ کھولا۔ ’’جب پولیس اندر آئی تو انھوں نے ہم سے ہی پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے اور رجسٹریشن کے کاغذات مانگے… انھوں نے ہجوم کے خلاف کچھ نہیں کیا۔‘‘
ساہو نے کہا کہ پولیس نے عیسائی رہنماؤں کو حراست میں لیا اور تھانے لے گئی۔
ونے ساہو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تقریباً پانچ عیسائیوں پر حملہ کیا گیا اور انہیں چوٹیں لگیں۔
انھوں نے کہا ’’ہم حیران تھے کہ بجرنگ دل کے اراکین نے پولیس کے سامنے ہمارے اراکین پر حملہ کیا، جو خاموش تماشائی بنے رہے۔‘‘
تاہم پولیس نے حملہ اور توڑ پھوڑ کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
چھتیس گڑھ میں عیسائیوں پر یہ پہلا حملہ نہیں ہوا ہے۔ اپریل میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوتوا گروپ وشو ہندو پریشد کے ارکان نے چھتیس گڑھ کے جگدل پور میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے معاشی بائیکاٹ کا عہد کیا تھا۔ جنوری میں نارائن پور ضلع میں ایک ہجوم نے چرچ میں توڑ پھوڑ کی تھی اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔
دسمبر میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے دکھایا تھا کہ ہجومی حملوں اور عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ کے 305 واقعات میں سے 57 واقعات جنوری 2021 سے نومبر 2021 کے درمیان صرف چھتیس گڑھ سے رپورٹ ہوئے۔