الجواھر فی تفسیر القرآن الکریم کااولین اردوترجمہ
مولانا عبیدالرحمن عاقل رحمانیؒ کو کلام مجید کی ایک منفرد تفسیر اردو داں طبقہ تک پہنچانے کا اعزاز
ڈاکٹر ابوبکر ابراہیم عمری
صاحب تفسیر شیخ طنطاوی جوہری اور ان کا تفسیری کارنامہ بیک نظر
انسانی تاریخ میں ترجمہ کی اہمیت مسلم ہے۔خصوصا مذہبی تراجم کی تاریخ سب سے قدیم معلوم ہوتی ہے۔ابتداء ہی سے تمام مذاہب کے پیروکاروں میں یہ خیال یکساں طور پر کام کر رہا تھا کہ اپنی مذہب کی تبلیغ کی جائے اور اس خیال نے انہیں اس کے تراجم پر ابھارا ہے۔
جب سرزمین مکہ میں نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی اور آپ کو سارے عالم کی جانب رسول بنا کر بھیجا گیا تو ضروری تھا کہ مذہب کی تعلیمات جو عربی زبان میں ہیں انہیں دنیا کے دیگر زبانوں میں منتقل کیا جائے۔ غرض مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ مذہب اسلام کی اصل بنیادیں یعنی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے تراجم کے علاوہ تفاسیر، احادیث کی شروحات اور فقہ و آداب سے متعلق مواد بھی دیگر زبانوں میں منتقل ہونے لگے۔ اردو زبان نے اس سلسلے میں نمایاں کردار نبھایا ہے اور ایک بڑے ذخیرے کو اپنی زبان میں منتقل کر چکی ہے۔ اس کے شواہد اہل علم کے سامنے روزر وشن کی واضح ہیں۔
صاحب تفسیر کا تعارف: آپ کا نام طنطاوی جوہری ہے۔ آپ کی ولادت 1870ء میں مصر کے مشرقی علاقے میں ہوئی۔ سن صغری میں قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ کا شمار نمائندہ علمائے ازہر میں ہوتاہے۔ آپ کو عربی زبان کے علاوہ انگریزی زبان بھی دسترس حاصل تھی۔ آپ نے کائنات میں تفکر کا مزاج پایا تھا جس کا تذکرہ اپنے تفسیر کے مقدمہ میں کیا ہے۔ مصطفی کامل نے آپ کو’’حکیم الاسلام‘‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ آپ زبان وقلم کے شہسوار تھے۔الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم کے علاوہ آپ کی تصانیف میں جواہر العلوم، النظام والاسلام، نھضۃ الامتہ وحیاتہا، این الانسان، میزان الجواہر فی عجائب ھذا الکون الباھر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 1939ء میں آپ کی دو کتابیں نوبل انعام کے لیے نامزد کی گئیں۔ آپ کی وفات12 نومبر 1940ء کو ملک مصر میں ہوئی۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ۔(طنطاوی جوہری، وکی پیڈیا)
تفسیر کا تعارف: تفسیر کا مکمل نام اس طرح ہے’’الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم، المشتمل علی عجائب بدائع المکونات وغرائب الآیات الباھرات‘‘ علمی حلقوں میں تفسیر جوہری کے نام سے معروف ومقبول ہے۔ شیخ طنطاویؒ نے ابتداء میں منتخب آیتوں کی تفسیر رسائل وجرائد میں شائع کروائی لیکن 1922ء میں تدریس سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد مستقل طور پر اپنے آپ کو اس کے لیے مختص کر لیا اور ابتداء سے انتہاء تک 26 اجزاء میں 1935ء تک یہ تفسیر مکمل کی۔ (حوالہ ایضاً) اس تفسیر کا خیال کیسے پیدا ہوا اس کی تفصیل خود مفسر نے تفسیر کے مقدمہ میں بتائی ہے کہ انہیں بچپن سے ہی عجائبات عالم اور عجائبات فطرت سے قلبی لگاؤ تھا۔ مزید یہ کہ علمائے اسلام اور مسلم دانشوروں کی بے رغبتی نے انہیں اس طرح کی تفسیر لکھنے پرابھارا۔ (مقدمہ تفسیر،تفسیر جواہر اردو)
تفسیر جواہر ’’علمی تفسیر‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ یعنی آیات قرآنی کی تفسیر سائنس کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد عبد التواب حامد کا عربی مضمون جس کا ترجمہ وتلخیص ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے ’’قرآن کریم کاسائنسی اعجاز، غوروفکر کے چند پہلو‘‘ سے کیا ہے۔ اس کے چند اقتباسات قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوں گے۔ سائنسی اعجاز قرآن اور سائنسی تفسیر میں فرق بتاتے ہوئے اول الذکر کی تعریف شیخ زندانی کے حوالے سے رقمطراز ہیں ’’اس سے مراد قرآن کا کسی ایسی حقیقت کی خبر دینا ہے جس کا اثبات تجرباتی علم (سائنس) سے ہوا ہو اور جس کا ادراک عہد رسالت یا زمانۂ نزول وحی میں انسانی علمی وسائل کے ذریعے ممکن نہ رہا ہو‘‘۔(المعجزۃ العلمیۃ فی القرآن،الشیخ زندانی) جب کہ سائنسی تفسیر میں شیخ اہدل کی تعریف کو مناسب سمجھا ہے۔ نقل کرتے ہیں’’سائنسی تفسیر سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی آیاتِ کائنات کی تفسیر سائنسی معلومات کی روشنی میں کی جائے،خواہ وہ صحیح ہو یاغلط۔اس طرح اس تعریف میں صحیح اور غلط دونوں تفسیریں آجاتی ہیں‘‘۔(الاتجاہ العلمی للتفسیر فی القرن العشرین،احمد عطاء محمدعمر)
تفسیر جواہر القرآن کے متعلق علمائے اسلام کے مابین دو مختلف نظریے پائے جاتے ہیں۔ طاہرابن عاشور وغیرہ نے اس کی خوب مدح وسرائی کی ہے تو مناع القطان وغیرہ نے کہا کہ’’ شیخ طنطاوی نے یہ تفسیر لکھ کر بہت برا کیاہے ۔۔۔اسی لیے اس تفسیرکے بارے میں کہا گیا ہے کہااس میں ہر چیز ہے سوائے تفسیر کے ‘‘(سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علیگڑھ،اپریل تا جون2010)
مترجم کا تعارف:آپ کا نام عبیدالرحمن ہے۔آپ کا تعلق صوبہ بہار کے پیغمبر پور سے ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا ابراہیم صاحب سے دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ سے حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ رحمانیہ دہلی کا قصد کیا1929ء میں سند فراغت حاصل کی۔ذمہ داران جامعہ دار السلام عمرآباد کی طلب پر مدرسہ رحمانیہ کے ارباب حل وعقد نے آپ کو عمرآباد تدریس کے لیے نامزد کیا تھا۔آپ نے 1930ء تا1947ء جامعہ میں خدمات انجام دیں،بعد ازاں ملکی صورت حال کے پیش نظر آپ نے جنوب ہند کا سفر نہیں کیا۔مدرسہ حمدیہ سلفیہ میں دس برس تک صدر مدرس رہے۔1982ء میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا نے تدریس کے ساتھ جامعہ میں تحریر کے میدان سے بھی وابستہ تھے۔آپ کی قلمی نگارشات ماہنامہ مصحف عمرآباد کی زینت بنتی تھی۔علاوہ ازیں آپ نے کئی ایک کتابوں کے اردو ترجمہ بھی کئے۔جن میں’’زہریلا بوسہ‘‘ اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس تفسیر کا اردو ترجمہ ذمہ داران جامعہ دارالسلام عمرآباد کی تحریک پر استاد جامعہ مولانا عبیدالرحمن عاقل رحمانیؒ نے شروع کیا اور پہلی جلد مکمل کی،جس کی اشاعت ونظر ثانی علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زیر نگرانی ہوئی۔علامہ نے اس ترجمہ پر ایک تفصیلی مقدمہ تحریر کیا جس میں اس تفسیر کے اسلوب اور اہمیت کو واضح کیا ہے،علاوہ ازیں ذمہ داران جامعہ کاشکریہ اداکرتے ہوئے مترجم کے کام کوسراہا ہے۔
علامہ سلیمان ندوی علیہ الرحمۃ نے شیخ طنطاوی کی تفسیر کے اصل مقصد کو ان الفاظ میں بیان کیا۔
’’شیخ طنطاوی جوہری کی تفسیرکی اصل غایت مسلمانوں کو نئے علوم و فنون کی طرف متوجہ کرنا اور مسلمانوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ان کا یہ تنزل اس وقت تک دور نہ ہوگا جب تک وہ جدید سائنس اوردوسرے نئے علوم اور یورپ کے جدید آلات اور علمی و مادی قوتوں سے مسلح نہ ہوں گے۔‘‘(ص ۵)
مزید کہتے ہیں ’’شیخ طنطاوی کی تفسیر کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کی آیت کی تشریح میں سائنس ، اقتصادیات اور موجودہ زمانہ کے دوسرے علوم و فنون و تحقیقات سے پوری طرح فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے ناظرین کے دل و دماغ کو ادھر متوجہ کیا ہے۔ اور مسلمانوں کو اپنی حالت پر غور کرنے اور ترقی کے اصول سمجھنے کی دعوت دی ہے۔ پھر بھی وہ پچھلے مفسروں کی تحقیقات کی تحقیر نہیں کرتے ، مسلمان عالموں کا دل نہیں دکھاتے اور نہ مذہب کے نام سے لوگوں کو مادیت اور بے دینی کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔(ص۶)
شیخ طنطاوی نے خود اپنی تفسیر کا مقصد مقدمہ میں یوں بیان کیا ہے ’’آج خدا کے بھروسے پر تفسیر کا سلسلہ پھر شروع کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ وہ اس تفسیر سے کچھ دلوں کو کھول دے گا اور کچھ قوموں کو راہ دکھا ئے گا اور عام مسلمانوں کے آنکھوں سے پردہ ہٹا دے گا تو وہ علومِ کونیہ (سائنس) کو سمجھیں گے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی امت کے ذریعے اس دین کی مدد فرمائے گا ۔۔۔۔اس امت میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو یورپ والوں سے زراعت ، طب ، معدنیات، حساب، انجینئیرنگ اور دیگر علوم و فنون اور صنعت و حرفت میں ترقی کرجائیں گے۔ اور کیونکر ایسا نہ ہوکہ قرآن ِپاک میں وہ آیتیں جن میں علوم کا ذکر یا ان کی طرف اشارے ہیں ساڑھے سات سو سے زیادہ ہیں اور خالص احکامِ فقہی کی آیتیں ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں ہے اور میں نے اس تفسیر میں وہ تمام باتیں بیان کی ہیں جن کی ضرورت مسلمانوں کو ہے یعنی احکام اور اخلاق اور سائنس کے عجائبات اور میں نے اس میں جدید علوم کی نادر تحقیقات اور فطرت کے وہ قوانین بیان کردیے ہیں جو مسلمان مردوں اورعورتوں میں حیوانات و نباتات اور زمین و آسمان کی تحقیقات کا شوق پیدا کردیں گے ۔ اور تمہیں معلوم ہوجائے گا یہ تفسیر ربانی لطف و کرم کا نتیجہ ہے اور اس میں اس بشارت کا رمز چھپا ہے کہ یہ تفسیر آئندہ ان لوگو ں کی ترقی کا سبب بنے گی جو آج زمین میں کمزور سمجھے جاتے ہیں ‘‘۔(ص۷)
علامہ سید سلیمان ندوی نے شیخ طنطاوی کی تفسیر کو چودھویں صدی کی تفسیر کبیر کہا ہے ۔رقم طراز ہیں ’’اس تفسیر کی تالیف سے انہوں نے زمانہ جدید کے علوم اصلیہ کے مقابلے میں وہی خدمت انجام دی ہے جو آج سے ساڑھے سات سو برس پیش ترامام فخرالدین رازی نے قدیم یونانی علوم کے مقابلے میں انجام دی تھی، اور اسی لیے یہ کہنا غیر موزوں نہ ہوگا کہ شیخ طنطاوی کی یہ تفسیر چودھویں صدی کی تفسیر کبیر ہے ۔ اس تفسیر کو پڑھ کر جدید تعلیم کے نوجوانوں کو معلوم ہوگا کہ قرآنِ پاک فطرت کے اثرات اور سائنس کے عجائبات کے استدلال سے پُر ہے اور یہ بجائے خود رسولِ اُمی محمد ﷺکی رسالت اور قرآن کے اعجازِ معنوی پر ناقابلِ تردید شہادت ہے‘‘۔(ص۷)
مولانا سلیمان ندوی نے علامہ سید انور شاہ کشمیری کے حوالے سے لکھا ہے۔’’ مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیری بھی اس تفسیر کی اس افادی حیثیت کے مداح تھے کہ اس نے آیت ِ کریمہ کے متعلق جدید علوم و مسائل پوری تفصیل سے بیان کردی ہے ۔(نفحۃ العنبر من ہدی الشیخ الانور ص۹۱ بحوالہ تفسیر جواہر ص۷)
مولانا سلیمان ندوی تفسیرِ جواہر کی ترجمے کی ضرورت واہمیت پر لکھتے ہیں ’’ضرورت تھی کہ اس تفسیر کا ترجمہ کوئی فاضل ہندوستانی عالم اپنی زبان میں کرتا، تاکہ دنیا اسلام کا وہ بر اعظم جہاں قرآن کے مؤمن سب سے زیادہ بستے ہیں اس سے فائدے کا فیض پاسکتا ۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد کے لائق مدرس مولوی عبید الرحمٰن صاحب ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بڑی محنت سے اس کا ترجمہ کیا اور کا محمد اسماعیل صاحب اور ان کے بھائی کاکا محمد ابراہیم صاحب (عمرآباد، مدراس) بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس تفسیر کو اپنے سرمایہ سے چھپوا کر اپنی دولت کو صحیح مصرف میں صرف کر کے ثوابِ دارین حاصل کیا جزاھم اللہ خیرا الجزاء۔ ابھی تو صرف یہ پہلی جلد کا ترجمہ ہے امید کے باقی جلدیں بھی ہماری زبان میں منتقل ہوکر ہمارے نوجوانوں کے لیے شمعِ ہدایت کا کام دیں گی‘‘۔(ص۸)
علامہ کے مقدمہ کے بعد عرض مترجم میں مولانا عاقل رحمانیؒ نے اس تفسیر کے ترجمہ کی ضرورت کیوں؟ اور کیسے؟ محسوس کی اور اس دوران ان کا طریقہ کار کیا رہا ہے اور اس پر درجِ ذیل الفاظ کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔’’ آج تک اس سے بہتر تفسیر نہیں لکھی گئی۔میرا خیال ہوا کہ اگر اس کو اردو داں پبلک کے سامنے پیش کیا جائے تو یہ مذہب اور قوم کی بڑی خدمت ہوگی ،لہٰذا میں نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کا ترجمہ شروع کردیا ، یہ پہلی جلد آپ حضرات کے پیشِ نظر ہے ۔
ترجمہ میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ترجمہ بالکل صاف اور سلیس ہوں کہ ایک معمولی قابلیت کا آدمی بھی سمجھ سکے ، اس لیے عبارت میں رنگینی اور عربی الفاظ کے استعمال سے حتی الوسع احتراز کیا گیا ہے۔اور میں نے ترجمہ میں بے معنی لفّاظی و ادبیت کی نمائش اور اصل کو بالکل مسخ کر کے پیش کرنا صحیح نہیں سمجھا، بلکہ یہ کوشش کی کہ سلجھے ہوئے انداز اور سلیس پیرایہ میں نقل بمطابق اصل پیش کردی جائے، باقی ترجمہ جو حیثیت اور مضامین کی جو اہمیت ہے وہ پیشِ نظر ہے ، مجھے اس کے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں ۔
عربی تفسیر کے اندر قرآنی آیت کے نقل کے بعد آسان عربی میں اس کی وضاحت کی گئی ہے،جب کی ترجمہ میں اس پورے حصے کو نکال دیا ہے۔کیوں کہ مولانا عاقل رحمانیؒ نے آیات کا اپنے سے بامحاورہ اور سلیس ترجمہ کیا ہے جوکہ اپنے وقت کا معیاری ترجمہ ہے۔آیات کے ترجمہ میں انداز یہ اختیار کیا گیا ہے کہ ایک طرف مکمل آیت اور دوسری طرف با المقابل ترجمہ ہے۔
ذیل میں سورۃ الفاتحہ کا مکمل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
’’ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام جہاں کا پروردگارہے، نہایت رحم والا مہربان ، روزِ جزاء کا حاکم، اے خدا ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ، ہم کو دین کا سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنا فضل کیا، نہ ان کا جن پر تیرا غضب‘‘۔(الفاتحہ)(ص:۱)
شیخ طنطاویؒ نے اپنی تفسیر کے جابجا اشعار کا بھی استعمال کیا ہے،مترجم نے اس کا بھی بہترین اور سلیس انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ذیل میں چند اشعار اور ان کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں۔
کانک شمس والملوک کواکب اذا طلعت لم یبدا منھن کوکب
اے بادشاہ! تو گویا آفتاب ہے اور دوسرے سلاطین ستارے ہیں ، کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو ایک ستارہ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔(ص:۶)
الم تران اللہ اعطاک سورۃ تری کل ملک دونھا یتذبذب
اے بادشاہ! اللہ نے تجھ کو ایسا دبدبہ دیا ہے کہ سارے بادشاہ اس کے سامنے تھراجاتے ہیں۔(ص:۶)
وللموت خیر من حیات دنیئۃ وللموت خیر من مقام علی الذل
ذلیل زندگی سے موت بہتر ہے ، اور ذلت کی جگہ پر قیام کرنے سے موت بہتر ہے۔(ص:۱۴۶)
فلیبک من ضاع عمرہ ولیس لہ منھا نصیب ولا سھم
جس نے اپنی عمر ضائع کردی اس کو رونا چاہیے کہ اس عمر سے نہ تو اس کو کوئی حصہ ملا اور نہ تو نصیبہ۔(ص:۳۲۹)
قلیل الا لا یا حافظ لیمینہ وان سبقت منہ الالیۃ برت
وہ بہت کم قسم کھانے والا اور اپنے قسموں کا حافظ ہے، اور اگر اتفاقاََ قسم نکل جاتی ہے تو اس کو پورا کرتا ہے۔(ص:۴۴۷)
مولاناعاقل رحمانی نے اپنا اصل جوہر تفسیر کے ترجمہ میں دکھایا ہے۔بعض مقامات پرخالص سائنسی پیرائے کو بھی آسان اور سلیس انداز میں پیش کیا ہے۔ ذیل میں چند تفسیر کے نمونوں کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’رب العالمین‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
’’ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک دماغ پیدا کیا ہے ، اور اس کو فکر، خیال، تذکر، حسِ مشترک اور حافظہ وغیرہ کا مرکز بنایا ہے، دماغی مادہ خارج میں گندم گوں اور اندر سفید ، ادنی دماغ کا وزن ۱۶ اوقیہ اور اعلیٰ دماغ کا وزن ۶۴ اوقیہ تک پہنچتا ہے، گذشتہ تحریر سے تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارے اجسام بے شمار خلیوں سے مرکب ہے ، اسی طرح ہمارا دماغ بھی ہزاروں خلیوں سے مرکب ہے، اور یہ خلیے بالکل چھوٹے چھوٹے گول گول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عجیب صنعت یہ ہے کہ اس نے ان خلیوں کو دماغ کے اندر ہر اس چیز کے لیے جو ہم کو حواس سے معلوم ہوتے ہیں ایک لوحِ محفوظ بنایا ہے ، پس بعض خلیے کان کے لیے ، بعض آنکھ کے لیے ، اور بعض شامہ کے لیے ہیں ، اور بعض غور و فکر اور بعض یاد رکھنے کے لیے ہیں، اور بعض قوتِ ناطقہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ، اگر ان میں سے بعض خلیے مختل ہو جائے تو وہ قوتیں باطل ہوجائیں گیں جو ان خلیوں کے اندر پوشیدہ ہوتی ہیں‘‘۔(ص:۱۷،۱۸)
سود کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’ہم نے جنگِ عظیم سے تین سال پہلے ربا والی آیت کی تفسیر لکھی تھی اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کی وجہ سے سلطنتوں کے درمیان ضرور جنگ ہوگی ، چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ میں نے لکھا تھا ، مختصراََ میں یہ کہتا ہوں کہ سود کا ضرر اس زمانے میں بہت اچھی طرح واضح ہوچکا ہے ، روس میں سود کو مطلقاََ ممنوع کردیا ، حالانکہ تمام زمانے کے مسلمان استیصال پر قادر نہ ہوسکے بلکہ اکثر مصری علماء تویہ سمجھتے تھے کہ قرآن کا سود کو حرام قرار دینا ہی مسلمانوں کی تنزل کا باعث ہوا ، (نعوذ باللہ)لیکن جب ان لوگوں نے انقلابِ دولتِ روس اور تحریم ِ سود کو سنا تو سبھوں کے منہ میں خاک پڑک گئی‘‘ (ص:۱۳۷)
وما انزل اللہ من السماء من ماء کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب پانی عناصرِ ارضی کے ساتھ متحد ہوتا ہے تو اس سے مختلف شکلیں ، رنگ، کلیاں ، پھول اور مختلف رنگ کے نباتات پیدا ہوتے ہیں۔ ۔۔۔نباتات میں اختلاف ان مادوں کے اختلاف سے ہوتا ہے جو اس کی خلقی ترکیب میں داخل ہوتے ہیں مثلاً: روئی ، گہیوں اور برسیم یہ تینوں پوٹاشیم ، سوڈا، چونا، مگنیشیا،ہمز فاسفورک،ہمز کبرتیک، سلکا اور کلور سے مرکب ہوتے ہیں ۔ لیکن پہلا یعنی روئی وہ ہے جس کا کپڑا بنتاہے اور ہم پہنتے ہیں ۔ دوسرا یعنی گہیوں ہے جس کو ہم کھاتے ہیں حالانکہ دونوں کے مادے ایک ہی ہیں ۔ یہ اختلافِ صفات درحقیقت مذکورہ بالا مادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔ روئی میں اون کی مقدار وہ نہیں جو گہیوں میں ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’وما انزل اللہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض ‘‘ کا مطلب اچھی طرح وہی علماء سمجھ سکتے ہیں جو ان مباحث اور سائینٹفک دقائق سے واقف ہوں‘‘۔(ص:۳۱۴، ۳۱۵)
شراب کی حرمت کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’شراب میں گو بظاہر لذت حاصل ہوتی اور فوری طور شجاعت اور تقویت پیدا ہوجاتی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس میں بے شمار خرابی اور نقصانات ہیں جن کو علماء یورپ نے اچھی طرح ظاہر کردیا ہے اس کی مذمت میں بے شمار رسالہ نکل چکے ہیں اور موجودہ ڈاکٹروں نے اس کے نقصانات کی حقیقت اچھی طرح واضح کردیں۔۔۔۔انگریزی قانون داں بنٹام اپنی کتاب میں لکھتا ہے شریعت اسلامی کے محاسن میں سے ایک شراب کی حرمت بھی ہے ۔۔۔کیلوج نامی ایک امریکن ڈاکٹر نے بھی اپنی کتاب میں شراب سے علاج کرنے کو منع کیا ہے، کیونکہ علاج کے وقت اس سے جو ضرر جسم میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے وقتی شفاء اور نفع سے بہت زیادہ ہے ، معدہ اور آنتوں کے لیے اس کا استعمال سخت مضر ہے ۔۔۔۔ایک کتاب مسمیٰ’’ بکتاب الید فی الطب‘‘ میری نظر سے گزری جس میں شراب کے نقصانات کو تیس صفحوں میں بیان کیا ہے ۔ ۔۔قرآن مجید نے شراب کو مطلقاََ حرام کہا ہے ، کسی حالت میں بھی اس کو جائز نہیں کیا، اور نہ تو ہضمِ طعام کے لیے شراب کے استعمال کی اجازت دی نہ شہوت کی تقویت کے لیے اس کو پسند کیا اور نہ ہی جسم میں خون کی زیادتی کے لیے اس کے پینے کی اجازت دی ، بلکہ عام طور پر اس کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا :’’یاایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر۔۔۔۔۔‘‘شراب سے علاج کرنے کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے ۔ ان میں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ جب کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہ مل سکے تو شراب سے علاج کرنا جائز ہے ، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ کسی حالت میں شراب کو دوا کے طور پر نہیں استعمال کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ خدائے تعالیٰ نے حرام چیزوں کو میری امت کے لیے دوا نہیں بنایا ہے‘‘۔(ص:۴۲۹،۴۳۲)
اتحاد کے موضوع پر لکھتے ہیں۔
’’ لیکن اتحاد تو یہی اصلی راز علم مکنون اور نظامِ بدیع ہیں جو جاہلوں اور غافلوں کی نظر سے بالاتر ہے، یہی اتحاد زمین پر خدا کا راز ہے اور اسی اتحاد کی تحقیق حضرت خلیل اور عزیر اور نبی ﷺ کا مقصد تھا۔ جس نے اس کو معلوم کرلیا اس نے پوشیدہ راز کو پالیا اور گویا کُل دنیا کا مالک ہوگیا، کیونکہ یہی اتحاد اس دنیا کا راز اور اس کے عجائب میں ہیں ، اتحاد کی صورت میں ایک جسم اپنی اصلی خواص ، طبائع اوصاف ، احوال اور رنگوں کو بالکل گم کردیتا ہے، اور ایک دوسری چیز بن جاتا ہے جو پہلے سے بالکل مختلف ہوتا ہے‘‘۔(ص:۵۳۳،۵۳۴)
پانی اور ایکسجن سے متعلق لکھتے ہیں۔
’’ دوستو! حیرت اور تعجب کا مقام ہے کیوں اللہ تعالیٰ نے پانی کے اندر اس ترکیب کو اختیار کیا ،صرف اسی وجہ سے کہ اس ترکیب میں زندگی ہے ، اگر اللہ تعالیٰ پانی کی ترکیب میں آکسیجن کے اندر ایک جز اور بڑھا دیتا تو پھر یہ مرکب زندگی بخشنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا ۔ یہ تمام باتیں اس کا ثبوت نہیں کہ خدائے حکیم ہر چیز کو اپنے احاطہ علم میں لیے ہوئے ہے وھو اللہ فی السموات وفی الارض یعلم سرکم وجھرکم (آسمان اور زمین میں اسی خدا کی حکومت ہے جو تمہاری ہرایک چیز ظاہر اور باطن سے اچھی طرح واقف ہے)ورنہ اگر خدا نہیں ہوتا تو پھر یہ باقاعدہ نظام ، حساب اور نیرنگِ عجائب کس طرح ظاہر ہوتے ‘‘۔(ص:۵۳۶)
مختلف زمینون کے نباتا ت کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے بعض زمینوں کو نباتات کی خاص تعداد کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے ۔مثلاََ: فرانس میں ۸۳۰ جنس کے نباتا ت ہیں ، جرمنی میں ۶۰۱، لا بونیا میں ۳۰۰، مصر میں ۴۳۰، غیانہ میں ۶۰۰، اور جزائرخالداد میں ۲۱۲ جنس کے ہیں ۔۔۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمتِ خداندوی نے مایحتاج الیہ کو بھی مخصوص و محدود فرمادیا ہے۔ مثلاََ :عالم میں سب سے زیادہ ہوا ہے ، اس سے کم پانی ، پانی سے کم غلے اس سے کم جواہرات پھر ان میں بھی اعلیٰ قسم کے جواہرات اور بھی کم ، سب سے کم ریڈیم جو ابھی حال میں دریافت ہوا ہے ۔ عالمِ طبعیات میں عجیب و غریب قوت رکھنے والی دھاتیں ہیں۔ اسی طرح نوعِ انسانی بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عملِ جسمانی کے لیے مخصوص کردیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہیں پھر ان میں طبقات و درجات ہیں ۔ جس طبقے کی قوتِ فکریہ زیادہ دقیق ہوتی ہے اس کی تعداد بہت کم ہے جیسے: دقیق اور باریک صنعت والوں کی تعداد کم ہے ۔ ان کے بعد علماء و حکماء ، پھر انبیاء اکرام ہیں یہ لوگ ریڈیم کے مثل ہیں ۔حکمتِ الٰہی اس کی مقتضیٰ تھیں کہ ہر چیز کے لیے ایک قدر اور مشاہدات کے اختلاف کی طرح عقلیں بھی مختلف ہوں‘‘ ۔(ص۶۰۷،۶۰۸)
جن علوم کا حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے ان کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’ان علوم کی دو قسمیں ہیں فرضِ عین اور فرض کفایہ
فرضِ عین وہ ہے جس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو گناہ گار ہوگا اور حاصل کرے تو مستحقِ ثواب ہوگا۔
فرضِ کفایہ وہ ہے جو مجموعی حیثیت سے ساری امت پر واجب ہوتا ہے ، اس طرح کہ سب اس کو چھوڑ دیں تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے ، لیکن اگر امت کے چند افراد نے بھی اس کوحاصل کرلیا تو سب سے مطالبہ ساقط ہوجائے گا۔
فرضِ عین کی مثال : نماز ، روزہ، حج وغیرہ کے امور عام کا علم ہے،اسی طرح اس کا سلبی پہلو غیبت اور چغل خوری وغیرہ کا ترک ہر فرد امت پر واجب ہے ۔
فرضِ کفایہ میں تمام عقلی علوم مثلاََ: ریاضی ، حساب، انجینیئری، جبرو مقابلہ ، جغرافیہ ، فلکیات اور علو مِ طبیعی، معادن ، نبات ، علم الحیوان ، علم الانسان، علم الضوء ، مقناطیس، حرارت اور الکٹریسٹی وغیرہ داخل ہے ۔ اسی طرح علومِ شرعی میں کتاب ، سنت، اجماع ، قیاس، علم الاصول اور علم الفقہ، علم الاخلاق ،تصوف اور مقدمات میں لغت ، صرف ، نحو ، معانی ، بیان ، بدیع، خط ، املاء وغیرہ متممات میں علم القراءت ، مخارجِ حروف ، تفسیرالقرآن اور مصطلح الحدیث وغیرہ کی تحصیل فرضِ کفایہ ہے‘‘ ۔(ص:۶۱۱)
مولانا عاقل رحمانی نے بعض ضروری مقامات پر قوسین قائم کرکے اپنی بات بھی پیش کی ہے۔مفسر کی بات ’’ہنر اور صلاحیت کے بغیراسناد کی کوئی حیثیت نہیں‘‘کو نقل کرنے بعد قوسین میں اپنی بات پیش کی ہے،ملاحظہ فرمائیں۔
’’اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کالج کی تعلیم کے بعد لڑکے بے دست وپا ہوجاتے ہیں ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتا، اگر کوئی ہتھیار ہوتا ہے تو صرف یہی چھوٹا کاغذ جس کو سند کہتے ہیں ، اس لیے یہ تعلیم کھانے کمانے کی قوت پیدانہیں کرتی بلکہ دوسروں کے سہارے جینے کی تعلیم ہے ، لہٰذا مصر میں نصابِ تعلیم کی تبدیلی ضروری ہے۔ (بعینیہ یہی حالت ہندوستان کی نظامِ تعلیم کی ہے ، آج کالجوں اور مدرسوں کی سندیں لیے ہوئے بے شمار طالبِ علم دربدر مارے پھرتے ہیں ۔۔۔۔ہندوستان میں جس قدر یونیورسٹیاں ہیں سب بے کاری کی مشینیں ہیں جہاں سے لڑکے بالکل بے کار اور بے دست و پا ہو کر نکلتے ہیں ۔۔۔۔۔ہندوستان کے باشندوں کو غور کرناچاہیے کہ یورپ میں اسی تعلیم سے تو بڑے بڑے ماہرینِ فن اور صنعت و حرفت کے استاد پیدا ہوتے ہیں لیکن ہندوستان میں ماہر فن تو بڑی بات ہے اس فن کو سمجھنے والے بھی پیدا نہیں ہوتے‘‘ ۔)(ص:۶۲۳)
جند مقامات پر مترجم نے بین القوسین مفسر کے خیال کی تردید یا توضیح بھی پیش کی ہے۔انہی مقامات میں سے ایک جگہ پرجناب جمال محمدؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے مفسر نے ان کا بیان نقل کیا ہے کہ ہندوستان کے تمام مدارس میں تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم کو حرام قرار دیا گیا ہے۔اس بات پر مترجم نے بین القوسین اس بات کی تردید کی ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
’’ہندوستان کے صوبہ مدراس کے ایک امیر جمال محمد نامی مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تاریخ اور جغرافیہ کے متعلق مجھ سے فتویٰ پوچھا میں نے ان کو جواب دیا کہ تمام علوم کی تعلیم مسلمانوں پر فرض ہے ۔ وہ کہنے لگے میرے ملک کے علماء نے ان تمام علوم کی تعلیم کو حرام کردیا ہے اور ناجائز کہتے ہیں(میرے خیال میں یہ امیر صاحب کا ذاتی خیال ہوگا ورنہ ہندوستان کے تمام مدرسوں میں ان علوم کی کچھ نہ کچھ تعلیم دی جاتی ہے ۔ چونکہ آپ انگریزی میں بے ۔اے پاس ہیں اس لیے آپ کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان تمام انگریزی داں حضرات کا یہ خیال ہے کہ مولویوں کے نزدیک تاریخ اور جغرافیہ وٖغیرہ پڑھنا اور پڑھانا حرام ہے۔ اسی جذبے کے تحت آپ نے ایسا کہہ دیا ورنہ کونسا ایسا مدرسہ ہے جس میں تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں خود عمرآاباد کے مدرسے میں تمام علوم کی تعلیم دی جاتی ہے ، ہندوستان کا مشہور مدرسہ دارالعلوم دیوبند ہے کم ازکم وہاں سے پوچھ لیا جاتا کہ آیا دیوبند میں تاریخ کی تعلیم دی جاتی ہے یا نہیں) ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں میری یہ تفسیرہے وہ اسے پڑھے اور مطالعہ کرے میرا یہی مطالبہ ہے کہ وہ اس موضوع میں غورو فکر کرے اور تمام ضروری علوم کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرے ۔ کیونکہ مذکورہ بالا مباحث سے واضح ہوگیا کہ صرف فقہ کا نام علمِ دین نہیں بلکہ تمام علوم اور صنعتیں ایک ہی درخت کے شاخیں ہیں اور وہ درخت حیاتِ انسانی ہے‘‘ ۔(ص:۶۲۷)
ترجمہ کی پہلی جلد سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ پر مشتمل ہے، جس کی اشاعت ’’معارف پریس ‘‘اعظم گڑھ سے1937ء میں ہوئی۔ ترجمہ سے قبل شیخ طنطاویؒ سے بھی باقاعدہ تحریری اجازت حاصل کی گئی جس کا عکس اور ترجمہ اس ترجمہ میں شامل ہیں۔جامعہ دار السلام کا ترجمان ماہنامہ ’’مصحف‘‘ میں دوسرے جلد کے تیار ہوجانے کا اشتہار بھی شائع ہواتھا،لیکن بدقسمتی سے یہ کام یہیں پر رک گیا۔اور بعد میں کوئی جلد منظر عام پر نہیں آئی۔غالبا آج تک اس تفسیر کامکمل اردو ترجمہ ہوا ہو۔
شیخ طنطاویؒ نے سورۃ بقرہ کی تفسیر جمعہ کی شام ۱۳ اپریل ۱۹۲۳ ء مطابق ۲۶ شعبان ۱۳۴۱ھ شارع زین العابدین میں ختم کی ۔اور مولانا عاقل رحمانیؒ نے ترجمہ سے فراغت جمعرات کی شام ۳۰ آگست ۱۹۳۴ء مطابق جمادی الاول ۱۳۵۳ھ کو جامعہ دارالسلام ، عمرآباد ، مدراس میں پائی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022