’’وقف بورڈ کے صحیح استعمال سے امتِ مسلمہ کی حالت بدل سکتی ہے‘‘
’’مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وقف بورڈ کی مسلمہ حیثیت سے ناواقف‘‘
ملک کے زیادہ تر سرکاری افسران ریٹائرمنٹ کے بعد گھروں میں سکون سے رہنے یا سیاست میں جانے یا پھر کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں اپنی خدمات انجام دینے کی سوچتے ہیں، لیکن ریٹائرڈ چیف کمشنر (انکم ٹیکس) اکرم الجبار خان نے کچھ الگ سوچا اور طئے کیا کہ وہ اپنی بقیہ زندگی وقف جائیدادیں بچانے میں وقف کریں گے۔ ان کے دن رات وقف جائیدادوں کے تحفظ بارے میں سماجی کارکنان کی رہنمائی کرنے اور انہیں وقف کی خاطر جدوجہد کرنے کے لیے تیار کرنے میں گزرتا ہے۔
پونے میں مقیم اکرم الجبار خان گزشتہ پانچ سالوں سے وقف معاملوں پر ملک کے عوام کو بیدار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بقول ان کے وہ وقف معاملات کی مذہبی اور انسانی ذمہ داری کے چھوٹے موٹے علم بردار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے ملک میں صرف بچی ہوئی وقف جائیدادوں کا صحیح استمعال کرلیا تو ان کے ’اچھے دن‘ آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اکرم الجبار خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگلش ادب میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ سال 1974 میں یوپی ایس سی کے آنڈین پولیس سروس کے لیے منتخب ہوئے لیکن اپنے کلر وژن کے پرابلم کی وجہ سے جوائن نہیں کرسکے۔ جب انہیں سروس جوائن کرنے کا آفر ملا، تب تک وہ یو پی پی ایس سی میں بطور ڈپٹی کلکٹر منتخب ہوچکے تھے۔ سوا سال تک کے لیے اتر پردیش کے فرخ آباد کے ڈپٹی کلکٹر رہے۔ لیکن سال 1996 میں پھر سے یو پی ایس سی کا امتحان دیا اور اس بار انڈین ریونیو سروس کے لیے منتخب ہوئے۔ انہوں نے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ چھوڑ کر اسے جوائن کا فیصلہ کیا۔ اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے مہاراشٹر پہنچے جہاں پونے میں بطور چیف انکم ٹیکس کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان دنوں مہاراشٹر وقف لبریشن اینڈ پروٹیکشن ٹاسک فورس کے مشیر ہیں۔
ان کا تعلق اتر پردیش کے ضلع فتح پور سے ہے۔ اس ضلع کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں وقف کی کافی ساری جائیدادیں موجود ہیں۔ اکرم الجبار خان کے مطابق فتح پور میں سنی وقف بورڈ کی 5137 اوقاف اور شیعہ وقف بورڈ کی 237 اوقاف جائیدادیں ہیں۔ ان کے بچپن میں وقف بورڈ لکھنو کے ٹیکس آڈیٹر ہر ماہ انکے گھر ٹھہرا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ بچپن سے ہی وقف جائیدادوں کے خرد برد سے واقف تھے۔ حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے فتح پور کا وہ قبرستان تلاش کر رہے ہیں، جس کی اراضی 1500 ایکڑ ہے اور غائب ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ وہ قبرستان کہاں چلا گیا۔ وہ اس بارے یہ اتر پردیش سنی وقف بورڈ کو خط لکھ چکے ہیں لیکن بورڈ نے ان کے خط کا جواب دینا شاید مناسب نہیں سمجھا۔ انہیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ مہاراشٹر وقف بورڈ میں ٹیکس آڈیٹر کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ جبکہ یہ عہدہ کافی ضروری تھا اور یہ بھی ضروری ہے کہ وقف کے انکم کی ہر سال آڈٹ ہو۔
ملک میں وقف کے دگرگوں حالات پر ہفت روزہ دعوت کے لیے صحافی افروز عالم ساحل نے اکرم الجبار خان علیگ سے خاص بات چیت کی۔ پیش ہے اس اہم گفتگو کے کچھ خاص اقتباسات۔
مہاراشٹر میں پہلے وقف بورڈ کا احاطہ عمل صرف مراٹھواڑہ کے علاقوں تک ہی محدود تھا تو پھر پورے مہاراشٹر میں وقف جائیداد کی دیکھ بھال کیسے ہورہی تھی؟ اور اب جب کہ پورے مہاراشٹر میں وقف بورڈ ہے تو اس سے فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟
میں نے پہلے اور اب میں کوئی موازنہ نہیں کیا ہے۔ لیکن جب یہاں کی وقف جائیدادیں چیریٹی کمشنری کے تحت تھیں، یہ بات ضرور تھی کہ چیریٹی کمشنر وقف جائیداد کو فروخت کرنے کی اجازت دے سکتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ ابھی بھی 5 سے 10 فیصد وقف جائیدادیں چیریٹی کمشنری کے پاس ہی ہیں۔ ان وقف جائیدادوں کے مالکان نے یہ لکھ کر دیا ہے کہ ہم وقف بورڈ میں نہیں جائیں گے۔ کچھ لوگ تو کورٹ میں بھی گئے اور اپنی جائیدادوں کو روک کر رکھا۔ باقی جائیدادیں وقف بورڈ کے تحت ہیں۔ جہاں تک یہ سوال کہ پہلے اور اب میں کیا فرق ہے تو آپ نے ہی اس ’وقف سیریز‘ میں لکھا تھا کہ عدالتوں میں وقف کے مقدمے بڑھے ہیں۔ وقف ٹریبیونل بنائی گئی ہے۔ ان میں ججوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ اب مہاراشٹر وقف ٹریبیونل میں ایک کے بجائے تین جج کردیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بات الگ ہے کہ مقدمے کم نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ججوں کے جلدی جلدی تبادلے ہو رہے ہیں۔ اورنگ آباد میں گزشتہ چھ سات مہینے میں تین جج بدل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا فرق نہیں آیا ہے جو نوٹس میں آئے
مطلب یہ ہے کہ آپ اس میں کوئی فائدہ نہیں دیکھتے؟
فائدہ صرف یہی ہے کہ وقف بورڈ کو اجازت نہیں ہے کہ وہ وقف جائیدادوں کی فروخت کی اجازت دے سکے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ چیریٹی کمشنری میں اسٹاف قدرے زیادہ ہے، وقف بورڈ میں بہت کم ہیں۔ جس کی وجہ سے رجسٹریشن میں وقت کافی لگ رہا ہے۔ رجسٹریشن، جانچ اور رپورٹنگ میں جو فزیکل ورک ہے، وہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا (wamsi) کے انچارج نعیم صاحب نے سال 2016 میں اپنے ایک مضمون میں بے شمار فائدے گنائے تھے، لیکن سال 2020 میں بھی وہ فائدے نظر نہیں آتے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ڈیجیٹائزیشن سے کوئی خاطرخواہ فائدہ ہوا ہے
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وقف بورڈ کے پاس بہت زیادہ پاور نہیں ہے۔ اس کی پاور کو بڑھانے کی ضرورت ہے؟
نہیں! ایسا نہیں ہے۔ وقف بورڈ کو یہ پاور ہے کہ وہ اسٹاف بڑھا سکتا ہے اور اپنی آمدنی بھی بڑھا سکتا ہے غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کو نوٹس دے سکتا ہے۔ لیکن وقف بورڈ اپنے پاور کا استعمال نہیں کر رہا ہے۔ وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس کے ذریعہ نوٹسیں دی جارہی ہیں۔ لیکن میری نظر میں ایسا ایک بھی معاملہ نہیں ہے جس میں انہوں نے کسی کو بھی نوٹس دیا ہو۔ وقف کا قانون یہ کہتا ہے کہ اگر کسی متولی نے اکاؤنٹس نہ رکھے ہوں، ریٹرن نہ دیے ہوں تو اسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا وقف بورڈ نے ایک بھی شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے؟ اگر وقف بورڈ نے پانچ سات متولیوں کو بھی نوٹس دے کر اسے وہاں کے مقامی اخبارات میں شائع کرا دیا ہوتا کہ کس بات پر متولی کو نوٹس دیا گیا ہے، ان کی غلطی کیا ہے۔ تو کافی کچھ ہوسکتا تھا۔ لیکن وقف بورڈ نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ وقف ایکٹ یہ کہتا ہے کہ وقف بورڈ میں فل ٹائم سی ای او ہوگا لیکن یہاں ہمیشہ پارٹ ٹائم سی ای او سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔ ابھی ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے کہ اس پارٹ ٹائم سی ای او پر مزید ایک پارٹ ٹائم سی ای او دے دیا گیا ہے تاکہ اگر ایک سی ای او موجود نہ ہو تو دوسرا دیکھ لے
سنٹرل وقف کونسل کا کیا رویہ ہے؟
سنٹرل وقف کونسل ابھی تک ایک پوسٹ آفس کی طرح ہی کام کر رہا ہے۔ جو بھی شکایت آپ ان کو لکھ کر بھیجتے ہیں وہ وقف بورڈ کو بھیج دیتے ہیں اور یہ لکھ دیتے ہیں کہ یہ آپ کے پاور میں ہے۔ جبکہ سال 2013 میں وقف ایکٹ میں ترمیم کرکے سنٹرل وقف کونسل کے پاور کو کافی بڑھا دیا گیا ہے۔ اب ان کو وقف بورڈ کے اوپر پورا پاور ہے۔ وہ وقف بورڈ کو ہدایات دے سکتا ہے۔ وہ لکھتے تو ہیں کہ اس طئے شدہ وقت میں جواب دیجیے لیکن وقف بورڈ والے جواب نہیں دیتے ہیں اور سنٹرل وقف کونسل بھی کچھ نہیں کرتی۔ دیکھا جائے تو کسی بھی سطح پر نگرانی نہیں ہے۔ یہاں وزارت برائے اقلیتی امور کے وزیر کے سامنے بھی جو اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں، اس کو کوئی کراس چیک نہیں کرتا۔ جبکہ وزارت کے جوائنٹ سکریٹری کا کام ہی یہی ہے کہ جو انفارمیشن انہیں دی جا رہی ہے اسے کراس چیک کرلیں۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی کے پاس وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کے بارے میں الٹی سیدھی جانکاری ہے۔ وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا اپنی ویب سائٹ wamsi.nic.in میں کھلے عام غلط انفارمیشن بھر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے اسی ویب سائٹ پر دیکھا کہ لکھنؤ میں ایک قبرستان کی اراضی 1091 ایکڑ دکھائی گئی ہے۔ میرے لیے بڑی حیرت کی بات تھی۔ جب میں نے اس کی خود جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ وہ 1 بیگھا 20 بسوا پر مشتمل قبرستان ہے۔ اس طرح کی غلطیاں اس ویب سائٹ پر بے شمار ہیں۔ اگر کوئی اس طرح کی غلطیوں کو نہیں دیکھے گا تو ایسی غلطیاں برابر ہوتی رہیں گی۔ اسی ویب سائٹ پر کئی جائیدادوں کے آگے To be Deleted لکھا ہوا ہے۔ اب ایسا کیوں لکھا ہوا ہے، یہ بات میری سمجھ سے پرے ہے کیونکہ جب وقف جائیداد رجسٹرڈ ہوگئی تو پھر اس کے بعد صرف وقف ٹریبیونل ہی طے کر سکتی ہے کہ وہ وقف جائیداد ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بھی آپ کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا آپشن موجود ہے۔ وقف مینیجمنٹ سسٹم آف انڈیا اور مہاراشٹر وقف بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود جانکاریوں میں بھی کافی فرق ہے۔ اس سے متعلق میں نے کئی خط لکھے، لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا
تو کیا اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا؟
بالکل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے کوئی سوال کھڑا کر دیا تو وقف بورڈ والے اسے اپنے دشمن کی طرح دیکھتے ہیں۔ جب کہ سوال کرنے کا حق ہمارے آئین نے ہمیں دیا ہے۔ یہ لوگ آر ٹی آئی کا جواب دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ جان بوجھ کر ملک کے تمام وقف بورڈس کو رائٹ ٹو سروس (آر ٹی ایس) ایکٹ کے دائرے میں نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ یہاں آر ٹی ایس کا ہونا سب سے ضروری ہے۔ یہاں اسٹاف کی کھلم کھلا من مانی ہے۔ وزارت برائے اقلیتی امور میں بھی یہ آر ٹی ایس قانون نافذ ہے۔ بہت سارے معاملے ہیں جن میں دس دس سال سے رجسٹریشن بند پڑا ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ جو بڑی جائیداد ہیں ان پر توجہ دی جائے۔ جب انکم بڑھے گی تو آپ کام بھی کرسکتے ہیں، اسٹاف بھی بڑھا سکتے ہیں۔ اگر وقف بورڈ صحیح ڈھنگ سے کام کرنے لگے اور وقف کا صحیح استعمال ہونے لگے تو مسلمانوں کے حالات سدھر سکتے ہیں۔ وقف جائیدادیں اللہ کی ملکیت ہے، اللہ کی غریب و نادار مخلوق کی پرورش کے لیے ہے اور ہم سوال اپنے اوقاف کے بہتری کے لیے پوچھ رہے ہیں
وقف کو لے کر کمیونٹی کا کیا رویہ ہے؟
ہم لوگوں نے کافی لوگوں سے بات کی۔ کچھ لوگوں نے اچھا ریسپانس دیا۔ کئی مساجد کے اماموں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ جمعہ کے خطبات میں لوگوں کو وقف اور اس کی مذہبی اہمیت کو بتائیں گے لیکن یہ چند لوگ ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر لوگوں نے اپنے اس کام میں ایمانداری نہیں دکھائی۔ وعدہ کرکے بھول گئے۔ اگر ایمانداری دکھاتے تو وقف کی اہمیت سے عوام میں بیداری لاتے۔ ہمارا مشن ہے کہ تمام ملی تنظیمیں اس کام کے لیے آگے آئیں اور لوگوں کو وقف اور اس کی اہمیت سے واقف کرائیں۔ ہم نے اس سلسلے میں کچھ ملی تنظیموں سے بات بھی کی لیکن زیادہ توجہ نہیں مل سکی
آپ نے کس ملی تنظیم سے بات کی اور ان کا کیا جواب تھا؟
تبلیغی جماعت میں کچھ ذمہ دار لوگوں سے بات کی تھی لیکن ان کا جواب تھا کہ یہ ہم لوگوں کا ایجنڈہ نہیں ہے۔ اب ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ یہ بھی اللہ کا ہی کام ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے گھروں میں بیٹیاں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں۔ نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر وقف کا سسٹم بہتر ہوتا تو شاید حالات ایسے نہ ہوتے۔ وہیں پنجاب کے سکھوں کو دیکھ لیجیے وہ اپنے گرودوارا کمیٹیوں سے باضابطہ طور پر نوجوانوں کو روزگار کے لیے قرض حسنہ دے رہے ہیں۔ دیکھ لیجیے وہ آج کہاں پہنچ گئے ہیں جبکہ یہ ہمارا کام تھا۔ لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ نہ وقف بورڈ کے اندر احساس ذمہ داری ہے نہ عوام کو وقف جائیدادوں کی اہمیت کا اندازہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جس سے ہمارے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ قوم کے روشن خیال، صاحب حیثیت اور کام کرنے کے اہل لوگوں میں کافی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ ’’صاحب اب کچھ نہیں ہوسکتا‘‘۔ حالانکہ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ بس ہمیں تھوڑا سا بیدار ہونے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں وقف معاملے میں ایکٹیوزم بڑھا ہے، اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔
وقف کے معاملے میں وکیلوں کے رول کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
وکیلوں کے معاملے میں ہمارا بڑا افسوسناک تجربہ ہے۔ ان کو تو بس اپنی فیس چاہیے اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ میں یہ نہیں کہتا کہ وکیل مفت میں کام کریں، انہیں اپنی مناسب فیس ضرور لینی چاہیے، لیکن وہ جو اناپ شناپ فیس لیتے ہیں وہ جائز نہیں ہے۔ صرف وقف رجسٹریشن کی درخواست آگے بڑھانے کے لیے 25 ہزار کی فیس لینا کہاں سے جائز ہے؟ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ وکیلوں کو وقف کی زیادہ جانکاری بھی نہیں ہے۔ جبکہ وقف کا ایکٹ کافی چھوٹا ہے اور اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اسے وکیل حضرات پڑھتے بھی نہیں ہیں۔ وقف بورڈ جن وکیلوں کو ہائر کرتی ہے، انہیں پیسے بے حد کم دیے جاتے ہیں جبکہ فریق مخالف کا وکیل لاکھوں روپے اپنی فیس لے رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں زیادہ تر معاملوں میں میرا تجربہ ہے کہ وقف کا وکیل سامنے والے وکیل سے مل جاتا ہے یا اس کیس میں دلچسپی نہی لیتا ہے۔ ممبئی کے لال شاہ باغ وقف معاملے میں ہم نے یہی دیکھا۔ وقف کے وکیل نے ہی لکھ کر دے دیا کہ ہمیں آگے اس پر کچھ نہیں کہنا ہے۔ میرا اپنا تجربہ یہی کہتا ہے کہ وکیل ہی سارا کھیل بگاڑ دیتے ہیں۔ وقف بورڈ اگر انہیں زیادہ محنتانہ دیں تو شاید ایسا نہ ہو۔ وہیں دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ کچھ وکیل ایمانداری سے وقف کو بچانے کا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان وکیلوں کی شکایت رہتی ہے کہ وقف بورڈ سے انہیں کوئی تعاون نہیں ملتا۔ وقف بورڈ کا اسٹاف انہیں ریکارڈ ہی مہیا نہیں کراتا۔
وقف کے مسائل تو بہت ہیں لیکن آپ کی نظر میں اصل مسئلہ کہاں ہے اور اس کا حل کیا ہے؟
اصل مسئلہ تو ہمارا اس کی جانب توجہ نہ دینا ہے۔ وقف پر کام کرنے کی اسپریٹ ندارد ہے۔ تمام وقف بورڈوں کا رویہ ایسا ہی ہے۔ جبکہ اس کا حل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وقف کے معاملے میں کوئی سوال اٹھا رہا ہے تو وقف بورڈ کو اس جانب توجہ دینی چاہیے، لیکن زیادہ تر معاملوں میں وہ ایسا نہیں کرتے۔ کوئی وقف کو لے کر شکایت کرتا ہے تو اسے 10 سے 12 سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں عام مسلمانوں میں بھی یہ خیال بن چکا ہے کہ شکایت کرکے بھی کچھ نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ آپکو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ کافی لوگ اپنے وقف جائیدادوں کا رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں لیکن نہیں کراتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس کے لیے بھی انہیں برسوں محنت کرنی پڑے گی۔ کافی وقت برباد ہوگا
ان تمام مسائل کے باوجود کچھ لوگ وقف پر کام کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن انہیں یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اس کام میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟
سچ پوچھے تو اس ملک میں 90 فیصد مسلمانوں کواس بات کی جانکاری ہی نہیں ہے کہ وقف نام کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ نام نہاد علما بھی اس بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے۔ کئی علما تو ہم سے ہی وقف کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ حالانکہ ایسے کچھ لوگ بھی ہیں جو وقف سے بخوبی واقف ہیں لیکن وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس پر کام کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس پر مجھے یہی کہنا ہے کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا ہم مسلمان کی حیثیت سے یہی جانتے ہیں کہ اس بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے اور جب اللہ کو منظور نہیں ہوگا تو ہم چاہ کر بھی کچھ نتیجہ نہیں نکال سکتے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارا وقف جائیدادوں کے بارے میں سوچنا بھی عبادت ہے کیونکہ یہ در اصل اللہ کی جائیدادیں ہیں اور اس سے اس کی کمزور و نا دار مخلوق کے لیے بہت سے فلاحی کام انجام دیے جا سکتے ہیں۔ کمیونٹی اس کام میں بھلے ہی ہاتھ نہ لگائے بلکہ صرف اپنی ایک انگلی ہی لگا دے، بس مہینے میں ایک بار تھوڑا سا وقت دے دیں۔ وقت نہیں دے سکتے تو جو اس پر کام کر رہے ہیں ان کو کچھ چندہ ہی دے دیں، جس سے کہ یہ لڑائی جیتی جا سکے۔ اگر آپ اتنا بھی کرنے لگیں تو نتائج کافی مثبت برآمد ہوں گے۔ہماری وقف جائیدادوں پر حکومتیں قبضہ کر رہی ہیں، وہ ایسا اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ ہم سو رہے ہیں اور وقف بورڈ کچھ بولتا نہیں ہے اس لیے انہیں آپ کا ڈر نہیں ہے۔ اگر ہم وقف کو لے کر بیدار ہوگئے تو یقین مانیے کمیونٹی کو بہت جلد اور بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ اور اگر اس راہ میں جان بھی چلی جائے تو جائے تو کچھ نقصان نہیں ہوگا بلکہ شہید کا درجہ ملے گا
ملک کے مسلمانوں سے آپ کیا اپیل کرنا چاہیں گے
یہی کہ آپ بس سوال کرنا شروع کر دیں۔ آپ سوال پوچھیں گے تو یقیناً سسٹم میں تبدیلی آئے گی۔ وقف بورڈ کو تو آپ آر ٹی آئی ڈال کر بھی جواب دہ بنا سکتے ہیں۔
میری سمجھ میں وقف بورڈ تو ابھی ایک بند اندھیرا کمرہ ہے، جس میں چوہے اور کیڑے مکوڑے بھرے پڑے ہیں۔ ان کو ان بند کمروں میں پوری آزادی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ آپ بس اس کمرے کے تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو کھول دیجیے ہوا اور روشنی آنے لگے گی تو یہ تمام چوہے اور کیڑے مکوڑے اپنی راہ پکڑ لیں گے۔
ایسا بالکل نہیں ہے کہ صرف اس سے ہی 100 فیصد کیڑے مکوڑے بھاگ جائیں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں مزید کچھ کرنا پڑے گا۔ یاد رکھیے! وقف بورڈ کے تمام افسران و اسٹاف پبلک سرونٹ ہیں۔ آپ کے وقف کی تحفظ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اب مائی باپ بن بیٹھے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ جو چاہیں گے کریں گے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لیکن جس دن اس ملک کے عوام بیدار ہوں گے اور ان سے سوال کرنے لگیں گے ان کی یہ ساری سمجھ خود بخود ٹوٹ جائے گی۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ وقف ایکٹ 1995 کے تحت، وقف بورڈ، بورڈ کا افسر اور یہاں تک کی متولی سب کے سب پبلک سرونٹ ہیں اور ان پر ملک کے تمام اینٹی کرپشن قانون لاگو ہوتے ہیں۔ اس کے تحت ان پر کارروائی کرائی جا سکتی ہے۔وقف بورڈ کے ساتھ ساتھ ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمیں کم از کم اپنے علاقوں کے وقف جائیدادوں کی پوری جانکاری ضرور رکھنی چاہیے۔ عوام صرف متولی حضرات سے ہی سوال کرنا شروع کر دیں کہ ان کے وقف کی انکم کتنی ہو رہی ہے اور وہ پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ وہ بھی ہمارے جیسے ہی انسان ہیں، ان کے دل میں بھی خیال آئے گا کہ آخر یہ کیا چل رہا ہے لوگ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں۔ ان کو یہ بات ضرور معلوم ہوگی کہ کوئی نہ کوئی قانون ضرور ہے جس کی ہم خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ہمارے خلاف بھی ایکشن ہوسکتا ہے۔ ایسے میں متولی حضرات الرٹ ہو جائیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھانے کے بارے میں سوچنے لگیں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ آپ سوال کیجیے جو آپ نے ابھی تک نہیں کیے ہیں۔ اور ہاں! اتحاد میں بہت طاقت ہوتی ہے، جتنے لوگ سوال کریں گے عوام کے لیے اور خود وقف کے لیے اتنا ہی فائدہ مند رہے گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020