اعجاز قرآن اور اردو زبان

قرآن کریم کے مختلف اعجازی پہلوؤں پر اردو قارئین کےلئےمزید مواددرکار

ابو سعد

‘قرآن کریم تاریخ ِانسانیت کا سب سے بڑا معجزہ’ قابل مطالعہ کتاب
قرآن کریم کے اعجازی پہلو کے حوالے سے  اہل علم نے اب تک بہت ساری کتابیں رقم کی ہیں۔ خطابیؒ، رمانیؒ، باقلانیؒ، جرجانیؒ، سیوطیؒ اور رازیؒ وابن قیمؒ وغیرہ نے اعجاز قرآن کی مختلف جہات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم کے بلاغی پہلوؤں کی وضاحت پر زور صرف کیا، اس کے تاثیری اعجاز پر روشنی ڈالی اور غیب سے متعلق امور کے تذکرہ کو اس کا اعجاز قرار دیا۔ باقلانیؒ نے نبی کریم (ﷺ) کے خطبات، خطباتِ خلفائے راشدین، جاہلی اور عباسی دور کے عمدہ اشعار پیش کرکے قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت کی دلیل پیش کی۔ ساتھ ہی مسیلمہ کذاب کے شیطانی نمونوں کا ذکر کرکے اس کے بودے پن اور پستی کو بھی واضح کیا۔ جرجانی نے بیان ومعانی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرکے دلائل الاعجاز اور اسرار البلاغۃ میں خوبصورت گفتگو کی اور الرسالۃ الشافیۃ میں اعجاز قرآن کی اس بحث کو بہت حد تک واضح کردیا کہ اصل اعجاز قرآن کریم کے معانی  کیا ہیں۔ یعنی قرآن کے الفاظ بھی فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں۔ عصر حاضر میں مصطفیٰ صادق رافعیؒ، سید قطب شہیدؒ اور عائشہ بنت عبدالرحمن الشاطیؒ نے بھی اپنی کتابوں میں اعجاز قرآن سے متعلق عمدہ گفتگو کی ہے۔
اعجاز قرآن کے موضوع پر عربی زبان میں جتنا گراں قدر سرمایہ ہے اردو کا دامن اتنا ہی خالی نظر آتا ہے۔ اس سے متعلق اردو ادبیات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر میں عربی ادبیات کی بازگشت صاف نظر آتی ہے۔ اعجاز قرآن پر تین مختلف فنون کے علماء، علماء مفسرین نے، علماء متکلمین نے اور ادباء نے خوب بحث کی ہے۔ چنانچہ اگر اردو مفسرین کو دیکھا جائے تو ان میں سے بعض نے مقدمہ تفسیر میں یا پھر تفسیر قرآن کے دوران آیات تحدی پر رک کر اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ، عبد الحق حقانیؒ، علامہ شبلیؒ، سید سلیمان ندویؒ، عبدالسلام ندویؒ، عبداللہ عباس ندویؒ، حنیف احمد ندویؒ، سعید احمد اکبرآبادیؒ، تقی عثمانی، عبدالعلیمؒ، فاروق خاںؒ، عبد المغنیؒ، عبید اللہ فہد فلاحی، حبیب الرحمن، سعود عالم قاسمی اور  ایاز احمد اصلاحی وغیرہ نے اعجاز قرآن کے تعلق سے مقالات یا علوم القرآن کے ضمن میں ضروری گفتگو کی ہے اور بعض نئے پہلووں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ مثلاً علامہ شبلیؒ، سلیمانؒ ندوی اور مولانا مودودیؒ نے قرآن کی تعلیمات کو اس کا اعجاز قرار دیا۔ فاروق خاںؒ نے صوتی اعجاز کو واضح کیا اور پروفیسر عبدالمغنی نے ادبی ولسانی اعجاز کی وضاحت کی  ہے۔ پروفیسر سعود عالم قاسمی کی کتاب ’’اعجاز قرآن‘‘ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اسی طرح پروفیسر ایاز اصلاحی نے ’’نظم قرآن سے اعجاز قرآن تک‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی۔ان ساری کتابوں کے درمیان ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ  نے بھی ایک کتاب ’’ قرآن کریم تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا معجزہ‘‘ تحریر کی جو واقعی قابل مطالعہ ہے ۔
مذکورہ کتاب کی فہرست کا سرسری جائزہ لیتے ہی احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کئی بیش قیمتی معلومات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار مولانا محمد رضوان القاسمی کے زیر اہتمام دارالعلوم سبیل السلام سے ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی تھی اور عرصہ ہوا اس کے ایڈیشن ختم ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر طارق ایوبی کی ذاتی دلچسپی سے یہ کتاب مرکز ثقافت وتحقیق علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ اس کے شروع میں ڈاکٹر طارق ایوبی کے قلم سے ’’عرض ناشر‘‘ کے علاوہ ’’ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی کی قرآنی خدمات‘‘ کے عنوان سے گراں قدر تحریر بھی شامل ہے۔ اس میں عبداللہ عباس ندوی کی شخصیت کے نمایاں خدوخال، ان کی علمی وقرآنی خدمات، زبان وبیان پر ان کی گرفت اور ان کی تحریر کی سلاست وبرجستگی کا سلیقے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ نگاہ اولین مولانا محمد رضوان القاسمی کے قلم سے ہے اور مقدمہ کتاب پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے تحریر کیا ہے اور انہوں نے موضوع کا تعارف، اردو زبان میں اس موضوع پر کسی جامع کتاب کی عدم موجودگی اور اس راہ میں حائل دشواریوں کا علامہ ابوالحسن علی ندوی کے حوالہ سے تذکرہ کیا۔ پھر اعجاز قرآن کی تاریخ کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے عہد حاضر میں اس موضوع پر تحریر کردہ بعض اہم عربی کتابوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ یہ تذکرہ کتاب کے صفحات (۳۷-۳۹) تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن کریم کے ادبی جمال کا احساس کس قدر مشکل ہے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآن کے جمالِ ادب کے جلوؤں سے ذوق آشنا کرنا بہت مشکل کام ہے اور اگر عربی زبان کی خوبیوں اور باریکیوں پر گہری نظر نہ ہو تو ان کو سمجھ لینا بھی بہت دشوارہے۔ ادب کا تعلق، ذوق سے ہے، یہ ایک ملکہ ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت کیا جاتا ہے‘‘ (ص:۴۰) ’’ادبی عبارت میں ہر لفظ اپنے صحیح محل پر ہوتا ہے اور ہر عبارت ایک زندہ جسم کے مانند ہوتی ہے جس میں سے ایک لفظ بھی اگر ادھر سے ادھر کر دیا جائے تو پھر اس سے خون بہنے لگے گا‘‘ (ص۴۱)
اس کے بعد مصنف کی تمہیدی گفتگو ہے جس میں اس بات کی ضمنی صراحت ہے کہ قرآن کریم کیوں معجزہ ہے۔ پھر قرآن کریم کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے معجزہ کی تعریف اور اس کی مختلف شکلوں سے قاری کو آشنا کرایا گیا ہے۔ اس ضمن میں معجزہ اور سحر کے فرق کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے نیز معجزہ کی عمر اور اس کے دائرہ کار پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ تمہید میں قرآن کریم کے تاثیری پہلو پر بھی روشنی ہے اور صفحہ ۸۶ تا ۱۰۴ میں نفسیات انسانی کی تصویر کشی کا قرآنی اعجاز بھی بہت خوبصورتی اور سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے جو بار بار مطالعہ کے لائق ہے۔ زندگی سے انسان کا تعلق، انسانی خواہشات میں تدریجی ارتقا اور انجام کار کی باریک بینی کی تصویر سورہ حدید آیت ۲۰ میں جس مختصر اور دلکش  اسلوب میں پیش کی گئی ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۔۔ ۔ایک پورے انسان کی زندگی کو اس خوبصورتی کے ساتھ اور اس سے زیادہ حسین پیرائے میں اور کم سے کم الفاظ میں کوئی دنیا کی زبان میں ادا کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ لہلہاتے ہوئے پودں کی طرح بچپن، پھول بن کر شگفتہ ہونے والی جوانی اور ڈنٹھل کی شکل میں نمایاں ہونے والا بڑھاپا، اور انجام کار بھی وہی جو ایک کسان کا ہوسکتا ہے یا تو ناکامی اور حسرت، محنتوں کا برباد ہو جانا اور مستقبل کا خوف کہ کل کیا کھائیں گے، اسی طرح آخرت کا عذاب ہے، اور دوسرا رخ یہ ہے کہ کھیتی کامیاب ہوگئی، پھل پھول سے دامن بھر گئے اور نگاہوں کے سامنے ہریالی دلوں کو لبھانے لگی یہ ہے مثال آخرت کی نعمتوں کی‘‘۔ (ص۹۱)
باب دوم میں قرآن کریم کے علوم ومعارف کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں غیر عربی الفاظ سے متعلق علماء کی آراء کا محاکمہ کیا گیا ہے اور تکرار کی حکمت واضح کرتے ہوئے اس موضوع پر عرب اسکالروں کی اہم کتابوں کی نشان دہی بھی کردی گئی ہے جن کے مطالعہ سے تکرار کی حکمت اور اس کی ضرورت کے پہلوؤں سے آگاہی ہوتی ہے۔ بطور نظریہ صرف کی تردید میں علماء نے جو دلائل دیے ہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس نظریہ کے ضعف کو واضح کیا گیا ہے اور اس کے بطلان کے نقلی وعقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں۔
باب سوم جو درحقیقت اس کتاب کی اصل روح اور مصنف کے وسعت مطالعہ، ذوقِ نظر اور موضوع پر گرفت کا آئینہ دار ہے اس کا تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر طارق ایوبی نے بجا لکھا ہے کہ: ’’تیسرا باب دراصل اس کتاب کی روح ہے، جس میں مصنف نے قرآن کے مکالماتی اسلوب پر روشنی ڈالی ہے، تقدیم وتاخیر، استفہام والتفات، مضارع کی جگہ ماضی کے استعمال کی بلاغت، مجاز عقلی، مجاز، استعارہ، کنایہ، حرف زائد اور ایجاز وتشبیہ وغیرہ کو مثالوں کے ذریعہ بڑے بلیغ انداز میں سمجھایا ہے۔ ایک طرف الفاظ وتعبیرات کی بلاغت سے پردہ اٹھایا گیا ہے تو دوسری طرف معنوی نکتہ آفرینی اور معنوی تحسین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ الفاظ کی صوتی ہم آہنگی اور طباق معنوی پر بھی عمدہ  گفتگو ہے‘‘۔ (ص۱۷)
واقعہ یہ ہے کہ اعجاز قرآن سے متعلق عربی کتابیات پر ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ کی گہری نظر تھی اور عقیدۂ اعجاز قرآن کی تاریخ سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ عربی کتابیات کا بھرپور مطالعہ کیا تھا بلکہ عصر حاضر میں اس موضوع پر مولفہ جدید عربی لٹریچر بھی ان کے سامنے تھا۔ مولانا چونکہ ایک عرصہ دراز تک سعودی عرب میں مقیم رہے اس لیے ان کتابوں کا حصول بھی ان کے لیے آسان تھا۔ انہوں نے عربی کتابوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اعجاز قرآن کی ابتدائی تاریخ اوراس کے پس منظر کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ابوعبیدہ، الفراء، جاحظ، ابن قتیبہ، ابن المعتز کے حوالہ سے مشکلات القرآن اور بلاغت کے ارتقا کا بھی استقصاء کیا ہے پھر خطابی، رمانی، باقلانی اور جرجانی وسیوطی کے حوالہ سے اعجاز قرآن کے مختلف تصورات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ جرجانی کا خاطر خواہ مطالعہ کتاب میں نہیں آسکا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے اعجاز قرآن سے متعلق قدیم علماء کے تصورات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ البتہ اعجاز قرآن سے متعلق جدید نظریات بالخصوص عصر حاضر میں جن کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا ذکر اس کتاب میں نہیں آسکا ہے۔ مثلاً قرآن کریم کا سائنسی اعجاز آج امر واقعہ بن چکا ہے اور عربی زبان میں اس موضوع پر متعدد کتابیں دستیاب ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی نے الہیئۃ العلمیۃ للاعجاز العلمی کے نام سے ایک بورڈ ہی قائم کر دیا ہے۔ اسی طرح طبی اعجاز، تشریعی اعجاز اور عددی اعجاز پر بھی جدید عرب اسکالرس نے اہم کتابیں تصنیف کی ہیں اور یہ آج بحث وتحقیق کا موضوع بنے ہوئے ہیں، ان کے ذکر سے یہ کتاب خالی ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اردو زبان میں اب تک جو کتابیں راقم سطور کی نظر سے گزری ہیں وہ ان میں اس پہلو سے ممتاز ومنفرد ہے کہ اس نے اعجاز قرآن کے تصورات جو دور اول کے علماء کے پیش نظر تھے ان کی وضاحت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نیز قرآن کریم کے نفسیاتی وبلاغی اعجاز کی بعض ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کو پڑھ کر عربی زبان کے ذوق کا حامل شخص فوراً چیخ اٹھتا ہے کہ قرآن واقعی خدا کی نازل کردہ کتاب ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023