تمل ناڈو کے بعد کیرالہ حکومت نے بھی بلوں کی منظوری میں گورنر کی جانب سے تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا
نئی دہلی، نومبر 2: کیرالہ حکومت نے گورنر عارف محمد خان کی طرف سے منظوری کے منتظر بلوں پر غور کرنے میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
اپنی درخواست میں ریاستی حکومت نے دلیل دی ہے کہ خان مقننہ کی طرف سے منظور کیے گئے آٹھ بلوں پر غور کرنے میں غیر معقول تاخیر کرکے اپنے آئینی فرائض میں ناکام رہے ہیں۔
مقننہ سے منظور شدہ بل گورنر کے دستخط کے بعد ہی قانون بن پاتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 200 گورنرز کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ یا تو کسی بل کی منظوری دے سکتے ہیں یا اسے مسترد کر سکتے ہیں یا بعض صورتوں میں اسے صدر کے پاس غور کے لیے بھیجنے کے لیے محفوظ کر سکتے ہیں۔
بل کو مسترد کرتے ہوئے گورنرز اس میں ترامیم تجویز کر سکتے ہیں۔ تاہم مقننہ ان تجاویز کو قبول کرنے کی پابند نہیں ہے اور گورنر کی منظوری کے لیے بل کو اس کی اصل شکل میں دوبارہ پاس کر سکتی ہے۔ اس موقع پر گورنر کو یا تو منظوری دینا ہوگی یا اسے صدر کے غور کے لیے محفوظ رکھنا ہوگا۔
کیرالہ نے اپنی درخواست میں کہا ہے ’’گورنر کا طرز عمل ریاست کے لوگوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کے علاوہ ہمارے آئین کی بنیادی اور اہم بنیادوں، بشمول قانون کی حکمرانی اور جمہوری گڈ گورننس کو بھی پس پشت ڈالنے اور ان کو تباہ کرنے کا خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ ہم نے فلاحی اقدامات کو ان بلز کے ذریعے لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
ریاستی حکومت نے کہا کہ آٹھ میں سے تین بل دو سال سے زیادہ عرصے سے گورنر کے پاس زیر التوا ہیں اور تین دیگر بل ایک سال سے زیادہ عرصے سے زیر التواء ہیں۔
بائیں بازو کی ڈیموکریٹک فرنٹ کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ آئین کے مطابق گورنر کو اپنے سامنے رکھے بلوں پر فوری طور پر فیصلہ کرنا چاہیے، عام طور پر چند ہفتوں میں۔
اس ہفتے کے شروع میں تمل ناڈو حکومت نے بھی اپنے گورنر آر این روی پر قانون ساز اسمبلی کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
اپنی درخواست میں تمل ناڈو حکومت نے الزام لگایا کہ روی نے نہ صرف متعدد بلوں کو زیر التواء رکھا ہے بلکہ کئی بدعنوانی کے معاملات میں تحقیقات اور استغاثہ کی منظوری بھی نہیں دی ہے۔
تمل ناڈو حکومت نے دلیل دی کہ گورنر کی بے عملی آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتی ہے۔