افروز عالم ساحل
’مثالی ہونا ایک اچھی چیز ہے، ہونا بھی چاہیے لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جب کسی ملک کے اسٹریٹجک مفاد کی بات آتی ہے تو پھر اس کے لیے نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی ہونا بھی ضروری ہے، اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں طالبان سے بات کرنی چاہیے اور پوری سمجھداری سے بات کرنی چاہیے۔ جب تک ہم بات نہیں کرتے، ہم اس وقت تک وہ زمین کہاں تلاش کر سکیں گے جو سفارت کاری کے لیے ضروری ہے۔ ہم لوگوں نے اپنی پوری زندگی اسی زمین کی تلاش میں گزاری ہے۔‘
ان خیالات کا اظہار سابق سفارتکار جناب وویک کاٹجو نے بیس اگست کو نئی دلی میں پریس کلب آف انڈیا کے زیر اہتمام ’’افغانستان اور آئندہ کے چیلنجز‘‘کے موضوع پر مذاکرے کے دوران کیا۔ مسٹر کاٹجو مارچ ۲۰۰۲ تا جنوری ۲۰۰۵ تک ہندوستان کی جانب سے کابل میں سفیر رہ چکے ہیں۔
انہوں نے افغانستان کے موجودہ حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو افغانستان میں ہونے والی ہر پیش رفت پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور اس پڑوسی ملک کے ساتھ مستقبل کی مصروفیات کے لیے پالیسی بنانی چاہیے۔
وہیں سابق سفارت کار گوتم مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سفارتی راستے کھلے رکھنے چاہئیں، لیکن اسے تسلیم کرنے میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام لوگ جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اس لیے القاعدہ ان پر حملہ نہیں کرے گی یا یہ طالبان انہیں آئی ایس آئی ایس سے بچائیں گے وہ ایک سنگین غلطی کر رہے ہیں۔
مکھوپادھیائے بھی افغانستان میں ہندوستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے نومبر 2001 میں افغانستان میں نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل میں ہندوستانی سفارت خانہ دوبارہ کھلوایا تھا۔
وہیں سینئر جرنلسٹ اور مصنف وید پرتاپ ویدک نے ان سے مختلف موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہندوستان کو اچانک طالبان مخالف موقف اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ہم ان سے براہ راست بات چیت شروع کریں۔ دو سال ہوگئے ہم نے ان سے کوئی بات چیت نہیں کی۔ اگرچہ ہمارے کچھ ڈپلومیٹ دوحہ گئے تھے لیکن حکومت کو براہ راست ان سے بات کرنی چاہیے خفیہ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں۔ اگر چین، امریکہ اور روس ان سے بات کررہے ہیں، جن کے ہزاروں فوجیوں کو طالبان یا مجاہدین نے ہلاک کر دیا تو پھر ہم یہ کام کیوں نہیں کر رہے ہیں؟‘
ویدک نے دعویٰ کیا کہ وہ افغانستان پر گزشتہ پچپن سال سے کام کر رہے ہیں۔ اب تک وہاں جتنے بھی صدر ہوئے ہیں ان سب کے ساتھ ان کے بہتر تعلقات رہے ہیں۔ سب کے گھر وہ جاتے رہے ہیں اور ان میں کئی ان کے گھر آچکے ہیں۔ پوری دنیا میں پھیلے افغانستان کے عام شہریوں سے بھی ان کے بہتر روابط ہیں اور مسلسل ان سے ان کی بات چیت ہو رہی ہے۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان پر میری سوچ ملک کی سوچ سے کچھ مختلف ہے اور اس لیے الگ ہے کیونکہ میں ایک بطور ریسرچ اسکالر وہاں کے لوگوں سے، یہاں تک طالبان سے بھی شروع سے ہی رابطے میں رہا ہوں۔ ان سے ابھی بھی میری بات چیت ہو رہی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پچیس سال پہلے طالبان کی جو شکل تھی اب اس کے بدلنے کے بہت آثار ہیں۔ پہلے طالبان ایسے تھے جو فارسی زبان تک میں بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے بلکہ پشتو میں بات کرتے تھے، لیکن آج طالبان فارسی، اردو، ہندی، انگریزی ہی کیا، فرنچ اور جرمن میں بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ ایک نئی نسل طالبان میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس نئی نسل کے طالبانوں نے پٹھانوں کے علاوہ بھی نئے لوگوں کو دیکھا ہے، غیر ملکی لوگوں کو دیکھا ہے۔ ان سے بات چیت کی ہے۔
وید پرتاپ ویدک کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت کسی سے بھی صلاح ومشورہ کرتی ہی نہیں ۔ اس قدر خود پسندی کسی بھی ملک کے لیے صحیح نہیں ہے۔ جب میں نوجوان تھا، پی ایچ ڈی کر رہا تھا تب اندرا گاندھی جی مجھے بلاتی تھیں، میں ان کے بیٹے کی طرح تھا۔ جبکہ ان کو معلوم تھا کہ میرا خاندان کانگریس مخالف خاندان ہے اس کے باجود وہ مجھے عزت دیتی تھیں لیکن آج کی حکومت کسی کو بھی نہیں سنتی۔ ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک قابل لوگ موجود ہیں لیکن حکومت ان سے کوئی صلاح ومشورہ نہیں کرتی۔ ہمارے پاس کئی ایسے صحافی ہیں جو افغانستان میں رہ چکے ہیں وہاں کے حالات سے واقف ہیں ان سے حکومت کو مدد لینی چاہیے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ طالبان نے کسی ہندوستانی پر حملہ نہیں کیا ہے ہر ہندوستانی افغانستان میں محفوظ ہے ہمیں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے لیکن حکومت غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ وید پرتاپ ویدک کا کہنا ہے کہ ابھی بھی حکومت کے پاس وقت ہے ان کو بات چیت کی پہل کرنی چاہیے اپنے لوگوں کو افغانستان بھیجنا چاہیے۔
اٹل بہاری واجپائی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریسرچ اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے اعزازی ڈائریکٹر شکتی سنہا نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں میں کافی خوف پایا جاتا ہے پھر بھی وہاں کوئی تشدد نہیں ہوا جیسا کہ 1996 میں انہی کے دور میں ہوا تھا۔ ہمارے لیے مثبت بات یہ ہے کہ وہاں افغانیوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو بھارت کے ساتھ دوستی چاہتی ہے اس لیے ہمیں بہت زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ شکتی سنہا سال ۲۰۰۹ میں افغانستان میں پالیسی تجزیہ اور ترقی، یو این ڈی پی کے سینئر مشیر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے تحت کابل میں بطور گورننس آفیسر کام کرچکے ہیں۔
اس مذاکرے کی نظامت سینئر جرنلسٹ ستیش جیکب نے کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس میں فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ چین اب بڑے آرام سے کابل پہنچ سکتا ہے۔ اور وہ کابل کیوں پہونچنا چاہتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں ٹیکنالوجی بدل رہی ہے۔ اب تیل کی ضرورت نہیں ہے، اب ہر چیز بیٹری سے چلے گی۔ جس چیز سے بیٹری بنتی ہے اس چیز کا نام ہے لیتھیم اور افغانستان میں لیتھیم کا خزانہ ہے۔ اگر چین کو یہ حاصل ہوگیا کہ تو وہ مزید بڑی طاقت بن جائے گا، ہمیں اس پہلو سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔
***
افغانستان پر میری سوچ ملک کی سوچ سے کچھ مختلف ہے اور اس لیے الگ ہے کیونکہ میں ایک بطور ریسرچ اسکالر وہاں کے لوگوں سے، یہاں تک طالبان سے بھی شروع سے ہی رابطے میں رہا ہوں۔ ان سے ابھی بھی میری بات چیت ہو رہی ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021