عمران خان کی مشکلات میں اضافہ، ایک اور مقدمہ درج

نئی دہلی، اگست 24: پی ٹی آئی کے چیئرمین  اور سابق وزیراعظم عمران خان کو چار مختلف قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے اور ان مقدمات کی وجہ سے ان کے سیاسی کیریئر کو بھی  خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ عمران خان اگر خود کو ان مقدمات سے بچانے میں ناکام ہوئے تو اس کا مطلب ان کیلئے سیاست سے نااہلی ہوگا۔

جس وقت بتایا جارہا ہے کہ وہ مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں، اس وقت قانونی نوعیت کے یہ خطرات (توہین عدالت کی دو کارروائیوں، توشہ خانہ کیس میں اسپیکر قومی اسمبلی کے دو ریفرنسز اور فارن فنڈنگ کیس میں اثاثہ جات کے غلط گوشوارے جمع کرانے کے کیس کی صورت میں) اُن کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف 20 اگست کو وفاقی دارالحکومت میں شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی ریلی نکال کر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر مقدمہ درج کرلیا۔

آبپارہ پولیس اسٹیشن میں 22 اگست کو درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد انور کی جانب سے  درج کی گئی شکایت میں کنٹرول آف لاؤڈ اسپیکر اور ساؤنڈ ایمپلیفائر (لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی)بھی شامل ہے۔

مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بشمول مراد سعید، فیصل جاوید خان، شیخ رشید احمد، اسد عمر، راجا خرم نواز، علی نواز اعوان، فیصل واڈا، شہزاد وسیم، صداقت علی عباسی، شبلی فراز، فواد چودھری، سیف اللہ خان نیازی، شہریار آفریدی، فیاض الحسن چوہان اور فردوس عاشق اعوان کو نامزد کیا گیا ہے، اسی طرح دیگر پی ٹی آئی رہنما شمیم نقوی، اسد قیصر، ظہیر عباس کھوکھر اور میجر غلام سرور کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

درخواست گزار کے مطابق عمران خان کے حکم پر پاکستان تحریک انصاف کے تقریباً ایک ہزار سے 1200 کارکنان اور حامی ہاتھوں میں جھنڈے لیے اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ انٹرچینج کے قریب جمع ہوئے۔

اے ایس آئی نے شکایت کی کہ تحریک انصاف کے کارکنان شہباز گِل کی رہائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے اور سڑکیں بند کرکے شہریوں کو ڈرایا اور دھمکایا۔

انہوں نے کہا کہ مسافروں کو علاقے سے گزرنے سے روک دیا گیا، جس سے ان کی روزمرہ کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں جبکہ ریلی کے شرکا نے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہوئے حکومت مخالف نعرے لگائے۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ریلی کے دوران اسلام آباد پولیس نے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے تھے کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور ریلیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

تاہم ریلی جاری رہی اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے پولیس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا اور اپنے حامیوں کو ایف-9 پارک کی طرف لے گئے اور تمام  ہی رہنمالاؤڈ اسپیکر پر نعرے بازی کرتے رہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے عمران خان نے عوام سے شہباز گل کی گرفتاری اور اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی منسوخی کے خلاف سڑکوں پر آنے کی درخواست کی تھی۔عمران خان کے اعلان کے فوراً بعد پولیس نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔

تاہم پابندیوں کے باوجود پی ٹی آئی کارکنوں کی بڑی تعداد پی ٹی آئی سربراہ کی قیادت میں ریلی میں شرکت کے لیے جمع ہوئی تھی۔

ریلی زیرو پوائنٹ سے شروع ہو کر ایف نائن پارک پہنچی جہاں عمران خان نے اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا۔

دوسری جانب شہباز گل کے خلاف آج سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں ایک اور شکایت درج کی گئی ہے جس میں بغیر لائسنس کے ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما کو 22 اگست کو دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا گیا تھا، 22 اگست کو رات گئے پولیس نے پارلیمنٹ لاجز میں شہباز گل کی رہائش گاہ پر ان کی موجودگی میں چھاپہ مارا اور ان کا کچھ سامان ضبط کیا تھا۔

ان کی رہائش گاہ سے ضبط کی گئی اشیا میں مبینہ طور پر ایک پستول، ایک سیٹلائٹ فون، بٹوے، اے ٹی ایم کارڈ اور دیگر دستاویزات شامل تھیں۔

شہباز گِل، جنہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھی، نے چھاپے کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس کو ملا ہتھیار ان کا نہیں بلکہ یہ ان کے سیکیورٹی گارڈ کا ہوسکتا ہے یا کسی نے جان بوجھ کر وہاں رکھا ہے۔

ایف آئی آر اے ایس آئی محمد یونس کی جانب سے آرمز آرڈیننس کے تحت درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شہباز گل کے بیڈروم سے ایک 9 ایم ایم پستول ملا ہے، جس پر ‘میڈ ان روس 13 وائکنگ’ لکھا ہوا تھا جبکہ اسلحہ لوڈ کرنے پر پولیس کو پتا چلا کہ اس میں 15 گولیاں بھری ہوئی تھیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ملزم پستول کے لیے کوئی لائسنس یا اجازت نامہ پیش کرنے میں ناکام رہا اس لیے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

یاد رہے کہ شہباز گِل کو 9 اگست کو مسلح افواج میں بغاوت پیدا کرنے کے الزام میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کرکے گرفتار کیا گیا تھا۔