فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقاریر کو روکنا ضروری ہے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، مارچ 28: سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقریر کو ترک کرنا ضروری ہے۔
جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا پر مشتمل بنچ نفرت انگیز تقریر کے واقعات کے خلاف کارروائی کی درخواستوں کے ایک گروپ کی سماعت کر رہی تھی۔
درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ نظام پاشا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ حکومت کو کسی شکایت کا انتظار کیے بغیر نفرت انگیز تقاریر کے خلاف خود کارروائی کرنی چاہیے۔
پاشا نے انڈین ایکسپریس کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ مہاراشٹر میں گذشتہ چار مہینوں میں ایسی 50 ریلیاں ہوئیں جن میں ’’لو جہاد‘‘ اور ’’لینڈ جہاد‘‘ جیسی سازشی تھیوریوں پر بات کی گئی اور ’’اوسطاً ہر دوسرے دن صرف مہاراشٹر میں نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔‘‘
ایسی تمام ریلیوں میں مقررین نے مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کے بارے میں سازشی نظریات پیش کیے۔
تاہم سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سوال کیا کہ درخواست گزار نے صرف میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا؟
جسٹس جوزف نے ریمارکس دیے کہ جب سپریم کورٹ نے ہدایات جاری کیں تو اسے ملک کی صورت حال کا علم تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس عدالت کا کوئی حکم ہے تو ہم نے اسے ملک میں کیا ہو رہا ہے اس کی ایک خاص سمجھ پر پاس کیا۔
انھوں نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، ہماری خاموشی کا غلط مطلب نہیں نکالنا چاہیے۔‘‘
جسٹس جوزف نے کہا ’’کیا آپ اس ملک کے سالیسٹر جنرل کی حیثیت سے نہیں سمجھتے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقریر کو ترک کرنا بنیادی ضرورت ہے؟‘‘
اس پر سالیسٹر جنرل نے کہا کہ اگر جج نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات کی تحقیقات کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ عدالت کی بہتر مدد کرنے کے لیے رپورٹ دائر کریں گے۔
سپریم کورٹ کل دوبارہ اس کیس کی سماعت کرے گی۔