75 امریکی قانون سازوں نے جو بائیڈن سے اپیل کی کہ وہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے دوران انسانی حقوق کے مسائل اٹھائیں
نئی دہلی، جون 21: 75 ڈیموکریٹک سینیٹرز اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان نے منگل کو ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی کے دورۂ واشنگٹن کے دوران ان کے ساتھ انسانی حقوق کے مسائل کو اٹھائیں۔
بائیڈن کو لکھے گئے خط میں قانون سازوں نے کہا کہ وہ سیاسی میدان کے سکڑنے، مذہبی عدم برداشت میں اضافے، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے اور بھارت میں پریس کی آزادیوں اور انٹرنیٹ تک رسائی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔
لیڈروں نے کہا کہ ’’ہم کسی خاص ہندوستانی لیڈر یا سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتے، یہ ہندوستان کے لوگوں کا فیصلہ ہے، لیکن ہم ان اہم اصولوں کی حمایت میں کھڑے ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ ہونا چاہئیں۔‘‘
مودی 21 جون سے 24 جون تک امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں۔ وہ سابق صدر سروپلّی رادھا کرشنن اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے بعد تیسرے ہندوستانی رہنما ہیں، جنھیں واشنگٹن نے سرکاری دورے پر مدعو کیا ہے۔
خط پر 18 سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے 57 ارکان کے دستخط ہیں۔ دستخط کرنے والوں میں نمائندہ پرمیلا جے پال، امریکی سینیٹرز کرس وان ہولن، برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن شامل ہیں۔
اپنے دورے کے دوران مودی 22 جون کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ بائیڈن کے ساتھ بات چیت کے علاوہ وہ نائب صدر کملا ہیرس، ٹیسلا کے مالک ایلون مسک، نوبل انعام یافتہ پال رومر اور ماہر فلکیات نیل ڈی گراس ٹائسن سے بھی ملاقات کریں گے۔
خط میں ڈیموکریٹک قانون سازوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور ہندوستان ’’قریبی اور گرم جوشی والے تعلقات‘‘ کا اشتراک کریں، لیکن یہ دوستی مشترکہ اقدار پر مبنی ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا ’’مضبوط امریکہ-ہندوستان تعلقات کے دیرینہ حامیوں کے طور پر ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ دوست اپنے اختلافات پر ایماندارانہ اور صریح طریقے سے بات کر سکتے ہیں اور ان پر بات کرنی چاہیے۔ اس لیے ہم احترام کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان مشترکہ مفادات کے بہت سے شعبوں کے علاوہ آپ وزیر اعظم مودی کے ساتھ براہ راست کچھ تشویش کے مسائل بھی اٹھائیں۔‘‘
قانون سازوں نے کہا کہ بائیڈن نے ’’امریکی خارجہ پالیسی کے انسانی حقوق، پریس کی آزادی، مذہبی آزادی اور تکثیریت کے بنیادی اصولوں کا احترام کیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’ان اقدار کو عالمی سطح پر اعتبار کے ساتھ آگے بڑھانے کے لیے ہمیں انھیں دوست اور دشمن پر یکساں طور پر نافذ کرنا چاہیے، جیسا کہ ہم یہاں امریکہ میں انھی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘
دریں اثنا ڈیموکریٹک نمائندے الہان عمر نے بدھ کو ٹویٹر پر لکھا کہ احتجاج کے طور پر وہ امریکی کانگریس کے اس پروگرام میں شرکت نہیں کریں گی جس میں مودی تقریر کریں گے۔ اس کے بجائے وہ انسانی حقوق کے گروپس کے ساتھ بریفنگ دیں گی۔
انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’’وزیر اعظم مودی کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں پر جبر کیا، پرتشدد ہندو قوم پرست گروپوں کی حوصلہ افزائی کی، اور صحافیوں/انسانی حقوق کے کارکنوں کو ساتھ نشانہ بنایا۔‘‘
وہیں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی بائیڈن پر زور دیا کہ وہ مودی کے ساتھ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر بات کریں۔
امریکی حکومتی ایجنسی نے منگل کو ایک بیان میں کہا ’’پچھلے کئی سالوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں ہندوستانی حکومت نے امتیازی قومی اور ریاستی سطح کی پالیسیوں کی حمایت کی ہے جو اقلیتی گروہوں کی مذہبی آزادی کو سختی سے روکتی اور محدود کرتی ہیں۔‘‘
USCIRF امریکی حکومت کا ایک آزاد پینل ہے جو مذہبی آزادی کے عالمی حق کی نگرانی کرتا ہے اور وائٹ ہاؤس کو پالیسی تجاویز دیتا ہے۔ لیکن حکومت ان تجاویز کی پابند نہیں ہوتی۔
مئی میں جاری ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں اس نے وائٹ ہاؤس سے سفارش کی تھی کہ بھارت کو مذہبی آزادی کی منظم خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے یا اسے برداشت کرنے کے لیے ’’خاص تشویش کا حامل ملک‘‘ قرار دیا جائے۔ USCIRF نے اب یہ سفارش لگاتار چار سال سے کر رہی ہے۔
منگل کو اپنے بیان میں یو ایس سی آئی آر ایف نے حجاب پر پابندی، تبدیلی مذہب مخالف قوانین اور شہریت ترمیمی قانون جیسی پالیسیوں کو امتیازی قرار دیا۔
پینل کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا کہ ’’یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ ہندوستانی حکومت ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے جو عیسائیوں، مسلمانوں، سکھوں اور ہندو دلت برادریوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔‘‘