آسامی بولنے والے 40 لاکھ مسلمانوں کو ریاستی کابینہ نے مقامی باشندوں کے طور پر تسلیم کیا
نئی دہلی، جون 6: ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق آسام کی کابینہ نے منگل کو ریاست میں آسامی بولنے والے 40 لاکھ مسلمانوں کو بنگالی نژاد مسلم کمیونٹی سے ممتاز کرنے کے لیے مقامی باشندوں کا درجہ دیا ہے۔
اس گروپ کو پہلے ’’دیسی مسلمان‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور اسے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ اس منظوری کے بعد اب مقامی مسلمانوں اور بنگالی نژاد مسلمانوں کے درمیان واضح فرق ہوگا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق ریاست کے وزیر صحت کیشب کمار مہنتا نے کہا کہ گوریا، موریہ، دیسی، جولاہا اور سید برادریوں کے ارکان کو آسامی مسلم ذیلی گروپوں یا مقامی آسامی مسلمانوں کے طور پر درجہ بندی کیا جائے گا۔
آسام حکومت نے جون میں کہا تھا کہ وہ ریاست میں مقامی اقلیتوں بشمول مسلم کمیونٹیز کی درجہ بندی کے لیے کام کرے گی۔ وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے کہا تھا کہ علاقے کے مقامی باشندوں کی شناخت ضروری ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق، گوریا اُنّاین پریشد کے سربراہ حفیظ الاحمد نے کہا کہ ان کی کونسل 2006 سے اپنی کمیونٹی کے لیے الگ درجہ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ’’لیکن چوں کہ ایسا کچھ نہیں تھا، اس لیے ہم بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی طرف سے پسماندہ اور کنارہ کش ہو رہے تھے۔‘‘
دی ہندو کے مطابق گوریا آسام کے وہ مسلمان ہیں جو مختلف مقامی گروہوں اور قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
گوریا برادری سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ نقیب الزماں نے کہا کہ اس کے ممبران ریاست کے مقامی باشندے ہونے کے باوجود سرکاری فوائد حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آج کا فیصلہ ہمارے لیے تاریخی ہے اور یہ ہماری کمیونٹیز کی علاحدہ مردم شماری کے لیے راہ ہموار کرے گا۔‘‘