دس سال بعد بھی لوگوں کو ’’اچھے دن ‘‘کی تلاش
کسانوں کی خودکشی کے گراف میں مسلسل اضافہ ۔ نوجوان روزگار نہ ملنے سے پریشان
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہمارا پور ا زور پانچ ٹریلین کی معیشت پر ہے ۔ ملک میں فی کس آمدنی بڑھانے پر نہیں
ہماری معاشی حالت کیسی ہے؟ اسے نہ تو سرخیوں سے اور نہ ہی پوسٹروں کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کا ادراک نہ تو مودی کی جملہ بازی سے اور نہ ہی درباری میڈیا کی ہلڑ بازی سے ممکن ہے۔ مالی سال 2023-24 میں ہماری جی ڈی پی 7.6 فیصد پر بہتر مظاہرہ کررہی ہے۔ لیکن 2023سے 2011 تک کا ہمارے ملک کا مظاہرہ بہت بہتر سے کم رہا ہے۔ 2008 کو ذرا الگ کرکے دیکھیں۔ جب ساری دنیا ایک بڑی مندی (Recession)سے گزر رہی تھی تو ہمارے ملک کی جی ڈی پی سالانہ 8 فیصد پر تھی مگر آج کی معاشی ترقی 7.6 فیصد جی ڈی پی کے ساتھ قابل قدر ہے۔ ہم اگریگیٹ سے تھوڑا نیچے آکر دیکھیں اور زمینی اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ بہت امیر (سپر ریچ) افراد کے ایک بہت سے چھوٹے سے طبقے کو چھوڑ کر اکثریت کی مشکل سے ہی ترقی ہوئی ہے۔ گزشتہ سال شائع شدہ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار انوارنمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ایک تجزیاتی مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ 2022 میں تو خود کشی عروج پر پہنچ گئی جب قرض اور غربت کی مار جھیلنے والے 11290 کسانوں نے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ صرف 2014 سے 2022 تک ایک لاکھ سے زائد کسانوں نے موت کو گلے لگالیا جبکہ مودی نے اعلان کیا تھا کہ 2022 تک وہ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کردیں گے۔ کسانوں کی آمدنی تو نہیں بڑھی مگر مودی نے اپنے کارپوریٹ دوستوں کی آمدنی ہزاروں گنا بڑھا دینے کا نظم کر دیا۔ یہ اسی طرح کی جملہ بازی تھی کہ دو کروڑ نوجوانوں کو سالانہ روزگار دیا جائے گا۔ ایک اور ڈیٹا سے ہمارے ملک کی بدحالی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور وہ ہے نوجوانوں کی بے روزگاری جو 1994 سے مسلسل آسمان کی بلندی کی طرف جا رہی ہے۔ ویسے سرکاری اعلان کے مطابق آج بیروزگاری 45 شرح کے ساتھ سب سے اونچائی پر ہے۔ 1994 میں شرح بے روزگاری 11.6 فیصد تھی مگر 2018 میں بڑھتے بڑھتے 25.9 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ ادھر تھوڑی راحت ضرور ہوئی تھی پھر اس سمت میں اچھال آیا اور آج ہمارے نوجوانوں میں بیروزگاری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے ملک کی حالت مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسی ہے جہاں اکثر جنگیں ہوتی رہتی ہیں۔ 2022 میں گریجویٹس نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح 29.1 فیصد تھی جو آزاد بھارت میں سب سے زیادہ ہے۔
ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اس شعبہ میں مسلسل گراوٹ 27.9 فیصد پر آگئی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہو رہا ہے کیونکہ زیادہ سرمایہ کاری طویل المیعاد ترقی کا خاصہ ہوتی ہے۔ 2006 میں شرح سرمایہ کاری ہمارے ملک میں 38 فیصد کو پار کر گئی تھی اور 2013 تک یہ شرح قائم رہی۔ ہمارے ملک میں ہوائی اڈے اور بندرگاہوں کا مظاہرہ بہت اچھا ہے۔ اسی سال 18؍ مارچ کو عالمی نا برابری (عدم مساوات) کی لیب رپورٹ سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ بھارت میں عدم مساوات کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اب تو یہ نئی بلندی کو چھونے جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک فیصد بھارتیوں کے پاس ملک کی دولت کا 22.6 فیصد حصہ ہے جو گزشتہ سو سالوں میں امرا کی بڑی حصہ داری ہے۔ 1930 میں جب برطانوی حکومت کا دور دورہ تھا تو ہم اس کے قریب آگئے تھے۔ آج تو کاروبار لون اور حکومت کی سانٹھ گانٹھ عروج پر ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے کرونزم کا دور رہا ہے۔ ٹائم کے مطابق ہمارے ملک میں نا برابری امریکہ، جنوبی افریقہ اور برازیل سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں پائی جانے والی کرونزم مشرق وسطی، پاکستان اور فلپائن جیسے ممالک کی طرح رہی ہے۔ خود پسند مودی کے دور حکومت میں یہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ مودی خود بھی اشتہار اور پوسٹروں کے ذریعے ٹکے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنی اشتہار بازی میں کسی کی شراکت پسند نہیں ہے۔ وہ اس مد میں ٹیکس دہندگان کا ہزاروں کروڑ روپے پھونک دینے پر بھی دریغ نہیں کرتے۔ اسی طرح اپنی جے جے کار کے ساتھ پانچ ٹریلین ڈالر کی اکنامی کا سپنا بھارتیوں کے دماغ پر سوار کر رہے ہیں۔ مگر فی کس آمدنی کیسے بڑھے اس پر بات ہوتی ہے اورنہ ہی بجٹ میں مختص کی گئی رقم کی تقسیم لوگوں میں عادلانہ ہورہی ہے اور غربا کس حال میں ہیں؟ آج کسان ملک بھر میں درست اناج کی قیمت نہ ملنے سے غربت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں ملک کا حکم راں طبقہ اپنا نیا آئیڈیل پیش کر رہا ہے۔ جب بھی معاشی ابتری محسوس کریں اور غربت کو لے کر فکر مند ہوں تو ملک کے سب سے غریب آدمی کو تخیل میں لا کر فخر سے سینہ چوڑا کرلیں جبکہ انسانیت کا اصل جوہر معاشرے کے کمزور طبقہ کی خیرخواہی ہوتی ہے۔ تب ملک سے غربت اور بے چینی کا خاتمہ ہوگا۔ اب دس سالوں کے بعد لوگ مہنگائی سے جوجھ رہے ہیں اور ہنوز ’’اچھے دن‘‘ کی تلاش میں ہیں۔
ورلڈ ان ایکیولیٹی لیب کی حالیہ رپورٹ نے نو سالوں کے ڈیٹا کے مطالعہ کی بنیاد پر بتایا ہے کہ بھارت میں آمدنی اور دولت کی نا برابری سب سے زیادہ ہے۔ نا برابری سے لڑنا غربت سے لڑنے کے ہم معنی نہیں ہوتا، اگر چہ بھارت میں غربت بہت آہستگی سے کم ہو رہی ہے مگر غریبوں کی اکثریت آج بھی خط افلاس سے قریب زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ملک میں طبی نظام کی خستہ حالی کی وجہ سے محض ایک بیماری پورے خاندان کو خط افلاس کے نیچے پہنچا دیتی ہے۔ آج حال یہ ہے کہ ملک میں 15 فیصد غربت ہونے کے باوجود ملک کے 81 کروڑ لوگوں تک مفت راشن پہنچایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہمہ جہتی ترقی کے اہداف میں نا برابری کے خاتمہ کو ضروری بتایا گیا ہے۔ اسے انکم ٹیکس کا دائرہ بڑھا کر اور جی ایس ٹی جیسے انڈائریکٹ ٹیکس کے بوجھ کو کم کر کے کیا جا سکتا ہے۔ مواقع کی نابرابری کو ختم کرکے ابتدائی تعلیم اور طبی نظام میں زیادہ بہتری مناسب رقم کی فراہمی سے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سرکاری بجٹوں میں ان سماجی اور فلاحی کام پر خرچ برابر کم ہو رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات تھامس پیکٹی کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے دو سو سب سے امیر ترین لوگوں پر معمولی ٹیکس لگاکر سماجی اخراجات کے کھربوں ڈالر جمع کیے جا سکتے ہیں۔ ایسا ہمارے ملک میں بھی ممکن ہے۔ آج ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ارب پتی پائے جاتے ہیں۔ اگر ان پر 0.1 فیصد سالانہ ٹیکس لگا دیا جائے تو اس سے نہ ان کی دولت کم ہو گی اور نہ روزگار کی فراہمی بند ہوگی اورنہ ہی وہ سرمایہ کاری بند کریں گے۔ ملک سے سرمایہ کاری کی منتقلی کی وجہ سے ویلتھ ٹیکس نہیں ہے۔ کسی بھی پائیدار جمہوریت کے لیے لا محدود دولت کا ارتکاز کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام نے اپنے فلاحی منصوبے کے ساتھ فلاحی ریاست میں دولت کے ارتکاز کو ہرگز پسند نہیں کیا بلکہ دولت کی گردش کے لیے زکوٰۃ فرض کی اور اس کے علی الرغم سٹہ اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے۔ زکوٰۃ معاشرہ کے امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جائے گی تاکہ آہستہ آہستہ نا برابری کا خاتمہ ہو۔ مرکزی حکومت کو بڑھتی سماجی اور معاشی نابرابری کو کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کوئی جدید سرمایہ داری، معاشی نا برابری سے پلہ نہیں جھاڑ سکتی۔ یہ صنعتی آلودگی کی طرح ہے۔ مگر ایک وقت آتا ہے جب ہم کہتے ہیں کہ اب بہت ہو چکا، ورنہ نا برابری کا ناسور سماج کو غیر مستحکم کر دیتا ہے۔ معاشرے میں جرائم کا گراف بڑھ جاتا ہے اور آخر کار یہ صورت حال سرمایہ کاروں کے ملک سے فرار کی وجہ بن جاتی ہے۔ پتہ نہیں کب عدم مساوات نا قابل برداشت ہو جائیں، لہٰذا ہمیں اس کا تدارک کرنا ہوگا۔ بہت سارے صنعت کار ہیں جن کا ماننا ہے کہ امیروں کے ٹیکس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ برٹش انٹرپرینور ایان گریک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانے سے ٹریکل ڈاون نظام (اوپر سے نیچے کی طرف دولت کی گردش) ناکام ہوچکا ہے۔ یہ امرا محض زبانی کہتے ہیں کہ ان کے اندر رحم دلی ہے مگر اس کا مظاہرہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے اس لیے ایسا نہ ہو کہ لوگ اپنا غصہ امیروں پر اتارنے لگیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024