مسلمان ہریدوار میں جائیداد نہیں خرید سکتے: رپورٹ

جوالاپور (ہریدوار)، جنوری 23: ہریدوار، ایک مشہور ہندو زیارت گاہ جو سادھو یتی نرسنہا نند کے زیرقیادت بنیاد پرست اتحادیوں کی طرف سے مسلم نسل کشی کی ترغیب کے بعد بین الاقوامی سرخیوں میں ہے، شاید ہندوستان کا واحد شہر ہے جہاں مسلمان جائیداد نہیں خرید سکتے۔

ہریدوار کے کنکھل اور مایا پور علاقوں میں بھی مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ کنکھل اور مایا پور یاتری شہروں کے مراکز ہیں جہاں دنیا بھر سے ہندو زیارت کے لیے آتے ہیں۔

ہریدوار کی میئر انیتا شرما کے شوہر کانگریس لیڈر اشوک شرما نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ یہ پرانا قانون ہے۔

تاہم مسلمان ہریدوار شہر کے باقی حصوں میں کہیں بھی گھوم سکتے ہیں اور کام کر سکتے ہیں۔

پریس کلب آف ہریدوار کے صدر راجیندر ناتھ گوسوامی نے بتایا کہ ہریدوار میں روزانہ سیکڑوں مسلمان کاروبار کرنے اور مقامی ہندو باشندوں کو مختلف قسم کی خدمات فراہم کرنے کے لیے آتے ہیں۔

وہ آگے کہتے ہیں ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مکمل طور پر خوش گوار ماحول ہے اور اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔‘‘

ایک ہندی روزنامے میں کام کرنے والے صحافی دلشاد علی کے مطابق ’’وہ تمام حجام جو گنگا میں ڈبکی لگانے کے بعد ہندو یاتریوں کا سر مونڈتے ہیں، مسلمان ہیں۔ یہ حجام روزانہ اپنے گاؤں سے ہریدوار کام کرنے آتے ہیں۔‘‘

ہریدوار میں پلمبنگ، الیکٹریکل اور آٹوموبائل کی مرمت سمیت ہر طرح کا کام مسلم ٹیکنیشن بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹیکنیشن کرائے کی دکانوں میں کام کرتے ہیں اور کچھ ہندوؤں کی دکانوں میں بھی کام کرتے ہیں۔

‘کانور’ یا ‘بہنگی’، جو ’’گنگا کا پانی‘‘ لے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، وہ بھی جوالا پور اور ہریدوار سے ملحق بجنور کے مسلمانوں ہی بناتے ہیں۔ ’کانور‘ کا سالانہ بزنس کروڑوں روپے کا ہے۔

تاہم کچھ ہندوتوا شدت پسندوں نے مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی ترغیب دے کر شہر کی ہم آہنگی کی فضا کو خراب کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے نہ صرف اس شہر بلکہ پورے ہندوستان میں دو مذہبی برادریوں کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

نرسنہانند اور اس جیسے ہندوتوا شدت پسندوں کا خیال ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں مسلم آبادی ہندوؤں کی اکثریت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ یہ بنیاد پرست انتشار پسند عناصر یہ جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں کہ اس وقت ہندوستان کی آبادی کا 15 فیصد مسلمان ہیں، لیکن وہ آئندہ چند دہائیوں میں سیاسی اقتدار پر قبضہ کر لیں گے اور ہندوؤں پر حکومت کریں گے۔ یہ باتیں بالکل بے بنیاد ہیں کیوں کہ حکومت ہند کی حالیہ رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کی آبادی مستحکم ہے۔ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہندوؤں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کا کام بنیاد پرست عناصر کر رہے ہیں۔

اگر ان ہندوتوا بنیاد پرست عناصر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی تو انھیں پورے ملک میں نفرت پھیلانے کی ترغیب ملے گی۔ لیکن سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ دونوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کی ترغیب دینے والے ان بنیاد پرستوں کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس کے برعکس دونوں نے خاموشی اختیار کی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ تاہم اس معاملے پر کئی ایف آئی آر درج کی گئیں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے چرچے بھی ہوئے۔

معلوم ہو کہ ہریدوار اتراکھنڈ جیسی پہاڑی ریاست کا واحد ضلع ہے جہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی کل آبادی 20 لاکھ سے بھی کم ہے۔ ہندو آبادی 64.27 فیصد یا تقریباً 12.80 لاکھ ہے اور اس کے مقابلے میں مسلمان 34.28 فیصد یا تقریباً سات لاکھ ہیں۔

2017 کے اسمبلی انتخابات میں اس ضلع کے منگلور اور پیران کلیار اسمبلی حلقوں سے دو مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ کلیار سے فرقان احمد اور منگلور سے محمد نظام الدین۔ 2012 میں ضلع سے چار مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔

یہ ضلع بین الاقوامی نقشے پر اسلامی مشنری اور صوفی بزرگ علاء الدین علی احمد صابر کی قبر کی وجہ سے بھی مشہور ہے جو صابر کلیاری کے نام سے مشہور ہیں۔ مشہور صوفی بابا فرید گنج شکر کی بڑی بہن کے بیٹے صابر کلیاری نے 13ویں صدی میں اسلام کا پرچار کیا اور اتر پردیش کے مظفر نگر، بجنور اور سہارنپور کے پڑوسی اضلاع سمیت ایک وسیع علاقے میں ان کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد بن گئی۔

ہریدوار ضلع میں مسلم کمیونٹی کا کوئی اسکول، کالج نہیں

ہریدوار میں مسلمان ضلع کی آبادی کا 34 فیصد سے زیادہ ہیں اور معاشی طور پر خوشحال ہیں، پھر بھی انھوں نے اسکول، کالج، اسپتال یا ڈسپنسریاں قائم نہیں کی ہیں۔ جب ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی، مسلمان وزیر رہے ہیں، اس کے باوجود ضلع کا یہی حال ہے۔

اس کے برعکس دیگر اقلیتی برادریوں جیسے عیسائی اور سکھ، جن کی تعداد ضلع میں بہت کم ہے، نے اسکول سے لے کر پوسٹ گریجویٹ سطح تک کے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ سکھوں نے ایک انجینئرنگ اور مینجمنٹ کالج بھی قائم کیا ہے۔

نرسمہانند اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے طالب علم گل بہار خان کا کہنا ہے کہ مقامی اسکولوں اور کالجوں میں بہت سے عملہ کے ارکان مسلمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔ ایک سماجی کارکن کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں جوالاپور کے کالجوں میں پڑھنے والی کم از کم 12 مسلم لڑکیوں نے ہندو لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی۔ انھوں نے کہا کہ مسلم مریضوں بالخصوص امراض نسواں کے مریضوں کو بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر مقامی ڈاکٹروں کی طرف سے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔

(بشکریہ انڈیا ٹومورو)