یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں!

آدی واسی، ہندو، دلت، سکھ اور عیسائی سبھی مخالف۔شمالی وجنوبی ریاستوں میں زبردست اختلاف رائے

ابھے کمار ، دلی

 

اقلیتوں کے اشتعال میں نہ آنے سے تفرقہ پرداز طاقتوں کو مایوسی
یکساں سول کوڈ کے نام پر پھر سے فرقہ پرست طاقتیں سرگرم ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پرمسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں مگر دانشور اور ملی رہنما اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں مان رہےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنازع درحقیقت ملک کے تنوع اور جمہوریت سے منسلک ہے۔ اگر عوام کے اوپر یکساں سول کوڈ مسلط کیا جائے گا تو اس کی زد میں تمام ہندوستانی آئیں گے، خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان،سکھ ،عیسائی ہوں یا آدی واسی۔
اچھی بات یہ ہے کہ دن رات لوگوں کو اُکسانے کے باوجود بھی فرقہ پرست طاقتیں ناکام ہوتی دکھائی دےرہی ہیں کیونکہ سیکولر فورسیز اوراقلیتیں اس موضوع پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دلائل کا استعمال کر رہی ہیں۔ زیادہ تر لوگ جذباتی بیان دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ صبر وتحمل سے کام لیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرست طاقتیں سماج کو فرقہ ورانہ خطوط پر بانٹنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ ملی رہنماوں نے اس مسئلہ کو وسیع تناظر میں دیکھا ہے اورعوام سے اپیل کی ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کے نام سے خوف نہ کھائیں ۔ انہوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کو لے کر نہ تو حکومت اور نہ ہی فرقہ پرست طاقتیں سنجیدہ ہیں۔ ایسے معاملوں کو چھیڑ کر وہ اپنی کی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں، جو عوام کے غصہ سے بری طرح گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔
اپنےپیغامات میں، ملی رہنماؤں نے لوگوں سےاپیل کی ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ مسلمان یکساں سول کوڈ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں، تو ان کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ یکساں سول کوڈ کو صرف مسلمانوں سےنہ جوڑا جائے، کیونکہ یہ معاملہ ملک کی مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور جمہوریت سے جڑا ہوا ہے۔ ملی رہنماؤں نے کہا کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی اصل طاقت ان کا ہندو بنام مسلمان کا کھیل ہے۔ اگرلوگ فرقہ پرست طاقتوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کے کھیل میں ناکام کر دیں اور روٹی، کپڑا اور مکان کےموضوع پر لے آئیں تو ملک اصل معنوں میں ترقی کی راہ پر چل پڑے گا۔
ملی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھگوا جماعتیں یونیفارم سول کوڈ کے تعلق سے خود بھی سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ ابھی تک اس تعلق سے کوئی بلیو پرنٹ یا ڈرافٹ پیش نہیں کیا گیا۔ بار بار یکساں سول کوڈ کے جن کو بوتل سے باہر نکالا جاتا ہے، مگر حکومت کےپاس کوئی تیاری نہیں ہے۔ بھگوا طاقتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے اس موضوع پر سیاست کر رہی ہے، مگر آج تک انہوں نےیہ نہیں بتایا کہ یکساں سول کوڈ کے نام پر وہ کرنا کیا چاہتی ہیں۔ ملی رہنماوں کےمطابق، یہ سب کچھ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کےلیےکررہی ہے۔ ملی رہنماؤں نے حکومت سے پوچھا کہ اگر حکومت آئین کے حصہ چار میں مملکت کی حکمت عملی کے رہنما اصول کو قانون بنانے اور اسے نافذ کرنے کے تعلق سے اتنی ہی سنجیدہ ہے تو وہ اسی رہنمایانہ اصول میں موجود دوسری پالیسی جو یکساں سول کوڈ سے زیادہ اہم ہے اس پرخاموش کیوں ہے؟ مساوات پر مبنی سماجی نظام کی تشکیل بھی رہنمایانہ اصول کا حصہ ہے، مگر اس پر حکومت کام کرنے کے بجائے ایسی پالیسی بنا رہی ہے جس سے امیری اور غریبی کے درمیان خلیج اور بڑھ رہی ہے۔
ایک ملاقات کے دوران، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر، نامور صحافی ودانشور ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے حکومت کے منشا پر سوال اٹھایا ہے: ’’آئین کے رہنمایانہ اصول میں بہت ساری باتیں کہی گئی ہیں۔ سب کو تعلیم مہیا کرانے کی اپنی ذمہ داری، جو کہ رہنمایانہ اصول کا حصہ تھا، کو عمل میں لانے میں ساٹھ سال سے بھی زیادہ کا وقت لگ گیا۔ یاد رہے کہ آئین سازی کے دس سالوں کے اندرسب کو مفت تعلیم دینے کی بات کہی گئی تھی۔ سب کو مفت تعلیم دینے کا قانوں بن جانےکے بعد بھی، ملک میں سب کو تعلیم نہیں مل پا رہی ہے کیونکہ بہت سارے دیہاتوں میں ابھی بھی اسکولس نہیں ہے۔ الغرض، حکومت عوامی فلاح کے ایشوز کو نافذ کرنے میں بے حس رہی ہے۔ سب کو تعلیم دینے کے علاوہ رہنمایانہ اصول حکومت پر یہ بھی ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ کی جمع خوری کے خلاف قانون بنائے۔ مگر موجودہ حکومت اس کے خلاف کام کر رہی ہے اور اس نے مال ودولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہوجانے میں اپنا تعاون دیا ہے۔ میڈیا میں خبر یہ بھی آئی ہے کہ کورونا وبا کے دوران اڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ داروں کی دولت کافی بڑھ گئی۔ دوسری طرف، لوگ بھوکے ہیں، کاروبار ٹھپ پڑا ہے، وہیں چند مٹھی بھر لوگ مال بنا رہے ہیں۔ رہنما اصول کے اندر یہ بھی کہا گیا ہے کہ مزدور کو پیداوار کے کاموں میں حصہ داری ملے۔ ایک طرح کے کاموں کے لیے ایک طرح کی مزدوری بھی دینے کی بات رہنما اصولوں میں کہی گئی ہے۔ مگرفوج کے اندر بھی ایک کام کےلیے ایک مزدوری دینے کی پالیسی عمل میں نہیں ہے۔ ان اہم ترین ایشوز کو عمل میں لانے کے بجائے، موجودہ حکومت یکساں سول کوڈ کے تعلق سے بے چین ہے۔ اگر حکومت رہنما اصول کو لے کر اتنی ہی سنجیدہ ہے تو اسے رہنما اصولوں میں دی گئیں ان پالسییوں کو نافذ کرنا چاہیے جس سے ایک مساوات ہر مبنی سماج قائم ہو‘‘۔
’ملی گزیٹ‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام نے مزید کہا کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ان کے مطابق، اس ملک میں دو سو تا تین سو پرسنل لاز ہیں۔ آدیواسیوں اور عیسائیوں کے بھی اپنے پرسنل لاز ہیں۔ ہندوؤں میں بھی کافی ڈائیورسٹی پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی بہت سارے پرسنل لاز ہیں۔ میو مسلمان، بوہرہ، شیعہ،سنی کے اپنے پرسنل لاز ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یکساں سول کوڈ کو تھوپا گیا تو اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔مسائل صرف مسلمانوں میں ہی نہیں، بلکہ ہندوؤں میں بھی پیدا ہوں گے۔ انہوں نےیکساں سول کوڈ کو نافذ کرنےوالوں کی حمایت کرنے والوں سے یہ سوال کیا کہ وہ یہ بتلائیں کہ اس کی ملک میں ابھی اس کی کیا ضرورت آن پڑی ہے، جب کہ سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا ہے؟
ایک طویل انٹرویو میں، مسلم پرسنل لا کے سابق ترجمان اور ویلفیر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ’’بھارت کےاندر بہت سارے مذہب اور کلچر کومانے والے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں ایک دھرم کے ماننے والے لوگ نہیں رہتے۔ ہمارا آئین سب کو اپنے دھرم اور کلچر پر چلنےکی پوری آزادی دیتا ہے۔ مذہب کو ماننے اور اس کی تبلیغ کی بھی بات کہتا ہے۔ جہاں تک پرسنل لا کی بات ہے، ہمارے دیش میں ایک پرسنل لا نہیں ہے۔ بھارت میں بہت سارے کسٹمری لا، فیملی لا اور رواج ہیں۔ اس لیے ملک کو تنوع کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو سماج میں کوئی تناو اورکشیدگی پیدا نہیں ہوگی۔ ’افکار ملی‘ کے مدیر اور مشہور مصنف ڈاکٹر الیاس نے متنبہ کیا کہ ’’اگر یونیفارمٹی کے نام پرتمام کلچر اور پرسنل لا کو ایک بنانے کی کوشش کی گئی تو اس سے سماج میں پریشانی، شورش اور ہنگامہ پیدا ہوگا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیشنل مین اسٹریم یا قومی دھارے میں لانے کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ نیشنل مین اسٹریم کی بات کرنے والوں سے پہلے پوچھیے کہ اس سے ان کا مطلب کیا ہے؟ اگر نیشنل مین اسٹریم سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس دیش میں ایک ہی دھرم ہونا چاہیے، ایک ہی کلچر اور ایک ہی زبان ہونی چاہیے، تو اس کی مخالفت نہ صرف ہم کریں گے، بلکہ ملک کا ہر شہری کرےگا۔ بھارت کےلوگ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے دھرم اور کلچر کے معاملے میں مداخلت ہو۔ تبھی تو یہ بات صحیح نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی یونیفارم سول کوڈ کو نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘
کیمسٹری میں ناگپور سےپی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر الیاس نےمزید کہا کہ’’جب ہندو کوڈ بل لایا گیا تھا تو وہ بھی پوری طرح سے یونیفارم نہیں تھا۔ ہندوکوڈ بل کےاندربھی بہت سارے استثنیات دیے گیے ہیں۔ مثال کے طور پررسم ورواج کو لے کر شمالی اور جنوبی ہند میں کافی فرق ہے۔ تمل ناڈو میں ماموں اور بھانجی کی آپس میں شادی ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ ماموں کا پہلا حق بھانجی پر ہے۔ مگر شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کی شادی کا کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ثقافت اور پرسنال لا کو لے کر ہمارے ملک میں بہت ہی زیادہ اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہندواورمسلمان کےعلاوہ آدی واسیوں کے اپنے فیملی لا ہیں۔ یاد کیجیے ناگالینڈ اور میزورم میں ایک لمبے وقت تک علیحدگی پسند تحریک چلی تھی۔ ملک کے خلاف وہاں لوگ ہتھیار لے کر کھڑے ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے اس بات پرسمجھوتا کیا اورہتھیار ڈالے کہ ان کے فیلمی لا میں، مرکزی حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان کا کوئی بھی قانون ان کے فیملی لا کے معاملے میں نہیں تھوپا جائےگا۔ انہوں نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ پارلیمنٹ کوئی بھی ایسا قانون نہیں لائے گی جوان کے فیملی لا کےاوپرمسلط ہو جائے۔ آرٹیکل ۳۱۷ اے اور۳۷۱ جی کے تحت، ایک باضابطہ معاہدہ ناگا اور کوکی سے ہوا اور اسے آئین میں لکھا گیا کہ حکومت ہندو کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو ناکا اور کوکی کے فیملی لا کو رد کر دے۔ اس طرح فیلمی لا کا احترام کرنے کا وعدہ آئین میں کیا جا چکا ہے‘‘۔
بابری مسجد کمیٹی کے سابق کنوینر ڈاکٹر الیاس نے یاد دلایا ’’یونیفارم سول کوڈ کی بات رہنما اصول میں کہی گئی ہے جو کہ لازمی نہیں ہے۔ اس پالسی کے بارے میں حکومت سے کہا گیا کہ اس معاملہ پر بات چیت کرے اور پالیسی لے آئے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ آئین سازی کے دوران بہت سارے معاملے ایسےتھے، جن پر کوئی اتفاق نہیں ہو پایا تھا اور اسے رہنما اصولوں کے تحت ڈال دیا گیا۔ رہنما اصول کے اندر یہ بھی کہا گیا کہ شراب کو پوری طرح سے ممنوع کیا جائے جسے ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ آجر اور مزدور کے بیچ میں بنی خلیج کو کم کیا جائے مگر اس طرف سے بھی کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک خاص ذہنیت کام کر رہی ہے، جو سمجھتی ہے کہ یونیفارم سول کوڈ ہونا چاہیے کیونکہ کہ یہ ملک کےاتحاد کے لیے ضروری ہے۔ یہ بھی بے سر پیر کی بات ہے۔ اس کی کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہے کہ یونیفارم سول کوڈ لانے سے امن اور انصاف قائم ہو جائے گا۔ یاد کیجیے وہ دور جب ہمارے ملک میں ہندی کو تھوپنے کی ایک مہم چلی تھی، مگر اس کی جنوبی ہند میں زبردست مخالفت ہوئی تھی ۔ ایک کلچراور ایک زبان اور ایک نیشن کی بات ہمارے ملک میں ہوتی رہی ہے مگر جنوبی ہند نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ ان تجربات سے یہ بات صاف ہے کہ اگر کسی کے مذہب، عقیدہ اور اس کے کلچر میں مداخلت کی کوشش ہوگی تو اس کا رد عمل کافی سخت آئے گا۔ اس سے معاشرہ کے اندر میں تناو پیدا ہوگا‘‘۔
اسلام اور مسلم پرسنل لا کو اس سوال سے جوڑتے ہوئے ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ "جہاں تک اسلام کی بات ہے تو وہاں پرسنل لا مذہب کا اٹوٹ حصہ ہے۔ پرسنل لا انسانوں کے ذریعہ نہیں بنایا گیا ہے کہ ہم نے جب چاہا اس میں چھیڑ چھاڑکی یا بدل دیا ۔ قرآن اور حدیث کے اندر یہ بات صاف طورسے لکھی گئی ہے کہ نکاح کیسے ہوگا، مہر کیسے ادا کیا جائے گا، طلاق، خلع کیسے ہوگا۔ یہ بات قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے کہ کوئی کہے کہ قرآن اور سنت میں جو لکھا گیا ہے اس پر مسلمان عمل نہ کریں اور جو قرآن اور سنت سے باہر ہے اس پر عمل کریں۔ اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیےکہ ملک کا آئین سب کو اپنے مذہب پر چلنے کی ضمانت دیتا ہے”۔
ایک گفتگو کے دوران، ایس ڈی پی آئی کے نیشنل سکریٹری اورمسلم پولیٹکل کونسل آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے کہا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کی بات حکومتیں اپنی ناکامی کو ڈھکنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کرتی رہی ہیں۔ حکومت کی منشا پر سوال کرتے ہوئے ڈاکٹر رحمانی نے کہا "اگر سرکار یونیفارم سول کوڈ کو لے کر سنجیدہ ہے، تو اس کا بلیو پرنٹ لانا چاہیے۔ سب سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ جس دہلی ہائی کورٹ کے تبصرے کے بعد یونیفارم سول کوڈ کو لے کرہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے وہ مسئلہ مسلمانوں کا نہیں ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ آدی واسی مینا سماج کے بارےمیں تھا اورجو سوال تنازع کا موضوع تھا وہ یہ کہ کیا ہندو کوڈ بل کو آدی واسی مینا سماج کے اوپر نافذ کیا جا سکتا ہے؟ دراصل یہ سوال ہندواور ان کے اندر جو مختلف سماجی گروپس ہیں ان کے فیملی لاز میں یکسانیت سے متعلق ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مذکورہ کیس کا تعلق مسلمانوں سے ذرہ برابر بھی نہیں ہے‘‘۔
ڈاکٹر رحمانی نے حکومت کی نیت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ’’یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، عوام کی نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ذمہ داری کسی فرد یا کسی تنظیم کی ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں کئی بار عدالت نے حکومت سے یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں پوچھا لیکن کسی بھی حکومت نے اس کا جواب نہیں دیا۔ جب کبھی انتخابات قریب آتے ہیں، جب کبھی حکومت کو اپنی ناکامی چھپانی ہوتی ہے، جب کبھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سازش ہوتی ہے، تو یکساں سول کوڈ، طلاق اوراس طرح کے تنازعات کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمراں طبقہ ذرا بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ اگرکوئی حکومت پرسنل لا کے تعلق سے سنجیدہ ہے تو پہلے اسے ایک بلیو پرنٹ تیار کرناچاہیے۔
ملک میں موجود مشترکہ تہذیب اور مخلوط سماج کے بارے میں ڈاکٹر رحمانی نے کہا اس ملک میں بڑی تعداد میں پرسنل لاز ہیں۔ کچھ لوگ گوا کے یونیفارم سول کوڈ کی بھی مثال دیتے ہیں، مگر یہ بات نہیں ہوتی کہ گوا میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ شادی کی کچھ شرائط کے ساتھ اجازت ہے حالانکہ ہندوؤں کےیہاں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا تصور نہیں ہے، پھر بھی وہاں ان کو ایسا کرنے کی آزادی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یکساں سول کوڈ کوئی بہت اہم ایشو نہیں ہے۔ لا کمیشن آف انڈیا نےسال ۲۰۱۸ کی رپورٹ میں حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ یونیفارم سول کوڈ اس ملک میں لانا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کمیشن نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ سے بہتر ہوگا کہ جو مختلف پرسنل لاز ہیں، ان کا ’کوڈی فیکیشن‘ ہو جائے مگر حکومت نے اب تک کچھ نہیں کیا ہے اور میڈیا ان باتوں کو اٹھانے کے بجائے مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر رہا ہے‘‘۔
انسانی حقوق کے جہد کار، بزرگ صحافی، مصنف اور عیسائی سماج کے بڑے رہنما ڈاکٹر جان دیال نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے تئیں حکومت کی غیر سنجیدگی پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ وہ اب تک کوئی ڈرافت نہیں پیش کر سکی ہے، جبکہ سیاست کرنے میں ہندوتوا کے لوگ آگےآگے رہتے ہیں۔ ‘‘جس طرح سے اس مسئلہ کو ہندو بنام مسلمان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یہ مسئلہ ویسا ہے نہیں۔ دراصل یونیفارم سول کوڈ کے تھوپے جانے پر سب سے زیادہ اثر ہندوؤں پر پڑے گا۔ مثال کے طورپر، ہندوں کو مشترکہ فیملی کی بنیاد پر ٹیکس میں چھوٹ ملتی ہے، جو دوسرے مذہبی گروپس کو نہیں ملتی۔ اگر یونیفارم سول کوڈ نافذ ہوتا ہے، تو اس کی مخالفت سب سے پہلے ہندوکریں گے۔ اگر یونیفارم سول کوڈ نافذ ہوتا ہے، تو اس کی مخالفت کرنے ہندوؤں سب سے پہلے آئیں گے۔
گزشتہ دنوں ایک بات چیت کے دوران، ڈاکٹر جان دیال نے کہا کہ’’ جب اٹل بہاری باجپئی وزیر اعظم تھے اور اس وقت یونیفارم سول کوڈ پر بحث ہو رہی تھی، تب میں اس عیسائی وفد کا حصہ تھا جو ان سےملاقات کرنے گیا تھا۔ میں نے اٹل بہاری باجپئی سے پوچھا تھاکہ ان کے خیال سے کامن سول کوڈ میں کیا ہونا چاہیے۔ میں نےان سے ڈرافٹ دکھانے کی بات بھی کہی تھی۔ میں نے ان سے کچھ سوالات بھی کیے تھے کہ ’کیا آدی واسیوں کا فیملی لا، جس کی حفاظت کی ضمانت ہمارا آئین دیتا ہے، اسے ہٹا دیا جائے گا؟ منی پور اور میگھالیہ میں جو فیملی لا ہے اسے رد کر دیا جائے گا؟ کیا آپ تمل ناڈو میں ماموں اور بھانجی کی شادی روک دیں گے؟ کیا آپ لداخ، اترانچل میں کسی خاتون کے ذریعہ ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کےرواج کوہٹادیں گے؟ آپ ہندو کوڈ بل میں سے کیا کیا لانا چاہتے ہیں؟ تب سے لےکر پچیس سال گزر گئے، اب تک کسی نے ایک ڈرافت تک نہیں دکھایا۔ میرا یہ دعویٰ ہے کہ اگر انہوں نے یونیفارم سول کوڈ کا ڈرافٹ دکھایا تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت ملک کا ہندو کرےگا‘‘۔
یاد رہے کہ سات جولائی کے اپنےایک فیصلہ میں، دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ راجستھان کے آدی واسی مینا سماج کے ایک معاملے میں سماعت کرتے ہوئے کورٹ نے یہ بات کہی۔ تنازع اس بات پر تھا کہ کیا ’ہندومیریج ایکٹ‘ کے تحت مینا خاندان کے مسائل حل کیے جا سکتے تھے؟ اپنے تبصرے میں، جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے کہا کہ ذات برادری اور مذہبی دیواریں دھیرے دھیرے گر رہی ہیں۔ کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد، فرقہ پرست طاقتیں ایک بار بھر سرگرم ہو گئی ہیں۔ وہ دن رات مسلمانون کو گالیاں دے رہی ہیں۔ ان کا الزام ہےکہ جب ملک میں سب کا ڈی این اے ایک ہے توایک قانون آنا ہی چاہیے۔
عدالت نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بھی کافی کمزورہے۔ بھارت میں ذات برادری اور مذہبی دیواریں گر رہی ہیں، کورٹ کی اس دلیل سے بہت سارے لوگ اتفاق نہیں رکھتے۔ آزادی کے ستر سالوں کے بعد بھی، ذات برادری کا تعصب برقرار ہے۔ ملک میں سیکولراور جمہوری آئین ہے جو کہتا ہے کہ سب برابر ہیں،پھر بھی دھرم کے نام پر مار کاٹ چل رہی ہے۔ شادی بیاہ بھی تو اکثر لوگ اپنی ہی ذات برادری میں کرتے ہیں۔ ملک میں کتنےاعلیٰ ذات کے والدین ہوں گے جو اپنی بیٹی کی شادی کسی دلت یا مسلم نوجوان سے کرنے کے لیے خوشی خوشی راضی ہو جائیں گے؟ جو کہتے ہیں کاسٹ ختم ہو رہا ہے، ان سے پوچھیے کہ آخرعدالت، اعلیٰ نوکرشاہی، سیاسی جماعت، میڈیا، فلم انڈسٹری، کالج اور یونیورسٹی میں اعلیٰ ذات کی اجارہ داری کیوں ہے؟ آخر کیوں ٹکٹ کی تقسیم کرتے وقت، سیاسی جماعتیں ذات پات اور مذہبی اعداد وشمار کا بڑا خیال رکھتی ہیں؟ کیا یہ بات غلط ہے کہ جیسے جیسے آپ ذات برادری کی سیڑھی پراوپرچڑھتے ہیں، آپ کو لوگ نسبتاً زیادہ زمین اور پیسے والے ملتے ہیں، وہیں سیڑھی کے نیچے اترنے پر لوگ زیادہ غریب، تنگ حال اور ظلم کے ستائے ہوئے ملتےہیں؟ یہ بھی بات حلق سے نیچے نہیں اُتر رہی ہے کہ ملک میں مذہبی شناخت کمزور ہو رہی ہے۔ دراصل مذہبی سیاست، مذہبی تعصب اور مذہبی جنون کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔ رام مندر کے نام پرسیاست، ہجومی تشدد کی آڑ میں مسلم اوردلت نوجوانوں کو نشانہ بنایا جانا، میڈیا اورسوشل میڈیا کی مدد سے اقلیتوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا یہ کچھ ایسی مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ انسان بننے سے کہیں زیادہ لوگ ہندواورمسلمان بننے میں یقین رکھتے ہیں۔
یکساں سول کوڈ کو ملک کی ترقی اور امن سےبھی جوڑا جا رہا ہے۔ یہ خیالی بات بھگوا تنظیم سے وابستہ ایک مسلمان لیڈر نے کہی ہے۔ یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ ایسا قانون بن جانے سے ملک میں وکاس ہوگا اور امن کا ماحول قائم ہوگا۔ در اصل ترقی کا رشتہ عوام کی خوشحالی سے ہوتاہے۔ لوگوں کی خستہ حالی کو دور کرنے کی ایک ہی تدبیر ہے کہ حکومت روزگار اور فلاحی کاموں پر توجہ دے۔ امن قائم کرنے کے لیے لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا اورپڑوسی ملکوں کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے ہوں گے۔ بات چیت بھی تب ہی کامیاب ہوگی جب فرقین اکڑ اور جھوٹے غرور کو ترک کردیں اور عوام کی جان ومال کی حفاظت اور ان کے انسانی حقوق کو سب سے اوپر رکھیں۔ بھگوا جماعت کےمذکورہ اقلیتی لیڈر اپنی پارٹی کے تئیں اتنے وفادار نظر آئے کہ انہوں نے ان پیچیدگیوں کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دیا۔
تیسری دلیل یہ دی جا رہی ہےکہ یکساں سول کوڈ کےآ جانے سےمسلمانوں کی’کافی تیزی‘ سے بڑھ رہی آبادی پر روک لگ جائے گی اوراس طرح بھارت کی ہندو اکثریتی ڈیموگرافی نہیں بدل پائے گی۔عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا پروپیگنڈا گزشتہ سو سالوں سے بھی زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے، جبکہ مسلمان آج بھی ملک میں اقلیت میں ہی ہیں۔ پروپیگنڈے میں بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے،مگر جوبڑی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کی ’ شرح نمو‘ بڑی تیزی سے کم ہوئی ہے۔ مثال کے طورپرمسلمانوں کی دہائی کی شرح نمو مردم شماری ۲۰۱۱ میں، ۲۹ فی صد سے کم ہو کر ۲۴ فی صد ہو گئی، اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کی بڑی آبادی صرف پریشانی نہیں لاتی، بلکہ وہ بہت سارے مواقع کے دروازےبھی کھول دیتی ہے۔ اگر بڑھتی آبادی کی وجہ سے حکومت سب کے لیے فلاحی کاموں کو انجام نہیں دے پا رہی ہے، تو اتنی بڑی آبادی سے لیا گیا ٹیکس کہاں چلا جاتا ہے؟ یہ بھی ایک بڑا پروپیگنڈ ہے کہ ٹیکس صرف مالداردیتا ہے، اورغریب صرف سرکاری بجٹ کو ’دیمک‘ کی طرح چٹ کر جاتے ہیں۔ مگر یہ بات نہیں بتلائی جاتی کہ ایک رکشہ چلانے والا فرد جب راشن اور دوا خریدتا ہے، اپنا موبائیل ریچارج کراتا ہے تو وہ بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ماہر اقتصادیات بتاتے ہیں کہ امیر لوگ اکثر ٹیکس کی چوری کرتے ہیں اور حکومت سے بہت ساری سہولتیں لیتے ہیں اور کروڑوں کا قرض معاف کرواتے ہیں، مگرغریب اورعام آدمی کو ہرحال میں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت میںبڑی آبادی کی وجہ سے ہی بہت ساری بیرونی اور بین الاقوامی کمپنیاں اپنا کاروبار یہاں لگاتی ہیں،کیونکہ یہاں ان کوبہت ہی سستے میں مزدورمل جاتے ہیں۔ جس کام کے لیے لندن، دوبئی اور نیویارک میں دو لاکھ سے بھی زیادہ دینے پڑ سکتے ہیں، وہی کام ہندوستان میں رہنے والا ایک مزدور ۲۰ ہزار میں کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس طرح بھارت کے لیے بڑی آبادی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔
کچھ لوگ یہ بھی افواہ پھیلا رہے ہیں کہ جب ملک میں سب کا ڈی این اے ایک ہے تو ایک قانوں بھی آنا چاہیے۔اگر ایک لمحہ کے لیے مان بھی لیا جائے کہ بھارت میں سب کا ڈی اے این ایک ہے اور سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے تو اس کی شروعات ایک اسکول سے ہونی چاہیے۔ رکشا والےکا بچہ اورپی ایم کا بچہ بھی ایک ہی اسکول میں پڑھے۔ ٹرین اور رہائشی علاقوں کےاندربھی درجہ بندی ختم ہو۔ امیروں کے پاس جو بے حساب پیسہ ہے، اس میں غریبوں کا بھی حصہ ہو۔ مگر فرقہ پرستوں کو ان مثبت باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
کچھ لوگ یکساں سول کوڈ کی حمایت میں آئین کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ بات صحیح ہےکہ آئین کے حصہ چار میں ‘مملکت کی حکمت عملی کے رہنما اصول’ دیے گئے ہیں۔ اسی میں آرٹیکل ۴۴ کہتا ہے کہ ‘مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقے میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو’۔ اگر ہدایتی اصولوں کو نافذ کرنا اتنا ہی ضروری ہے، تو کیوں نہیں آرٹیکل ۴۴ سے پہلے جورہنما اصول ہیں، مثلاً ‘مملکت لوگوں کی بہبود کے فروغ کے لیے سماجی نظام قائم کرے گی’، سے ہی شروعات کی جائے؟
حقیقت یہ ہےکہ آزادی کے وقت قانون سازاسمبلی میں بھی یکساں سول کوڈ پرکافی بحث ہوئی اور کچھ لوگ اسےملک پر تھوپنا چاہتے تھے۔ تب بابا صاحب امبیڈکر نے متنبہ کیا تھاکہ ریاست کو کوئی ایسا قانون نہیں لانا چاہیے جس کے خلاف عوام بغاوت کر دیں۔ اس وقت تنازع کو ختم کرنے کے لیے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ وہیں عوام کی مذہبی آزادی اور اقلیتوں کےمذہبی اور ثقافتی حقوق کو بنیادی حقوق کا حصہ بنایا گیا تاکہ اس پر کوئی حملہ نہ بول سکے۔ مگر فرقہ پرست ذہنیتیں بار بار یکساں سول کوڈ کے جِن کو بوتل سے نکالتی رہی ہیں۔ اس کے پیچھےصرف سیاسی مفاد ہے۔ کورونا کے دوران بری طرح سے ناکام رہی مرکزی اور یو پی حکومتوں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے ایک نیا موقع دیا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے آس پاس پھر ہندو مسلمان کا کھیل شروع کیے جانےکی پوری کوشش ہو رہی ہے۔ ہم سب کو یکساں سول کوڈ کے نام پر اکسانے کے فرقہ پرستوں کے گیم کو سمجھنا ہو گا۔ یاد رکھیے کہ یکساں سول کوڈ کی مار سب پر پڑےگی۔ آدی واسی، دلت، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، شمالی وجنوبی ریاستیں اور دیگر طبقات بھی اس کی مخالفت کریں گے۔ تبھی تو آج تک بھگوا سرکار یکساں سول کوڈ بل کا ڈرافٹ نہیں لا پائی ہے۔لیکن اس پر سیاست کرنے میں وہ ضرور آگے رہتی ہے۔
(مضمون نگار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)

’اگر یونیفارمٹی کے نام پرتمام کلچر اور پرسنل لا کو ایک بنانے کی کوشش کی گئی تو اس سے سماج میں پریشانی، شورش اور ہنگامہ پیدا ہوگا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیشنل مین اسٹریم یا قومی دھارے میں لانے کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ نیشنل مین اسٹریم کی بات کرنے والوں سے پہلے پوچھیے کہ اس سے ان کا مطلب کیا ہے؟ اگر نیشنل مین اسٹریم سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس دیش میں ایک ہی دھرم ہونا چاہیے، ایک ہی کلچر اور ایک ہی زبان ہونی چاہیے، تو اس کی مخالفت نہ صرف ہم کریں گے، بلکہ ملک کا ہر شہری کرےگا۔‘‘
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021