یوپی مدرسہ ایکٹ:  ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج  

نئی دہلی، 30 مارچ :۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے یوپی مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ ایک مدرسہ کے منیجر انجم قادری اور دیگر کی طرف سے دائر اس درخواست میں ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے من مانی قرار دیا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے مدارس میں پڑھنے والے لاکھوں بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس لیے جب تک سپریم کورٹ مدرسہ ایکٹ کے آئینی جواز پر کوئی فیصلہ نہیں لیتی، ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی جائے۔

دراصل 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کے خلاف قرار دیا تھا۔ یہ قانون اس وقت پاس ہوا جب ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ تھے۔

ریاست میں بڑی تعداد میں مدارس اور ان میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے یوپی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو رسمی تعلیم فراہم کرنے والے دوسرے اسکولوں میں شامل کرے۔ اس کے لیے اگر ضرورت ہو تو نئے اسکول کھولے جائیں۔

اتر پردیش حکومت نے اکتوبر 2023 میں مدارس کی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ ایس آئی ٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں 8 ہزار مدارس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سرحدی علاقوں میں 80 مدارس کو 100 کروڑ روپے سے زائد کے غیر ملکی فنڈز ملے ہیں۔