یوپی حکومت الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے این ایس اے کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی نظربندی منسوخ کرنے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچی
اترپردیش، دسمبر 13: لائیو لاء کی خبر کے مطابق ہفتہ کے روز اتر پردیش کی حکومت نے قومی سلامتی ایکٹ کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی نظربندی کو کالعدم قرار دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ آدتیہ ناتھ کی زیرقیادت حکومت نے 26 اکتوبر کو ایک خصوصی درخواست دائر کی تھی اور اس پر 17 دسمبر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہونی ہے۔
واضح رہے کہ ستمبر میں الہ آباد ہائی کورٹ نے خان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت لگائے گئے الزامات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ وہ گذشتہ سال دسمبر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تبصرے کرنے کے الزام میں 29 جنوری سے حراست میں تھے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ خان کی تقریر میں ’’نفرت یا تشدد کو فروغ دینے کی کسی بھی کوشش کا انکشاف نہیں ہوا ہے‘‘ اور ہائی کورٹ نے ان کی نظربندی میں تین بار کی گئی توسیع کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس درخواست میں، جس میں مرکزی حکومت بھی شامل ہے، دعوی کیا گیا ہے کہ خان کی مختلف جرائم کا ارتکاب کرنے کی ایک تاریخ ہے، جن کی وجہ سے انضباطی کارروائیوں، ان کی ملازمت سے معطلی، ان کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹس کا اندراج اور قومی سلامتی ایکٹ کی درخواست کی گئی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خان نے جو تقریر کی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ انھوں نے فوجداری ضابطۂ اخلاق کی دفعہ 144 نافذ کرنے کے احکامات کو نظرانداز کیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ خان نے یونیورسٹی کے باب سید کے قریب اشتعال انگیز تقریر کی جس سے علی گڑھ میں امن وامان کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ مسلم طلبا کو دوسری برادریوں کے خلاف اکسایا جا سکے۔
اس درخواست کے جواب میں خان نے ایک ای میل میں کہا ہے کہ وہ یکم ستمبر کو جیل سے باہر آنے کے فوراً بعد اتر پردیش سے باہر چلے گئے تھے۔
خان نے بتایا کہ رہائی کے بعد سے انھوں نے گورکھپور کے بابا رگھو داس میڈیکل کالج اور اسپتال میں اپنے عہدے پر بحال ہونے کے لیے ریاستی حکومت کو تین خط لکھے ہیں، لیکن انھیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
خان گورکھپور کے بابا رگھو داس میڈیکل کالج اور اسپتال میں بچوں کے امراض کے ماہر تھے، جہاں 2017 میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 63 بچوں کی موت ہوگئی تھی۔ ان کے خلاف طبی غفلت، بدعنوانی اور فرائض میں سستی کا مجرمانہ مقدمہ درج کرنے کے بعد انھیں عہدے سے معطل کردیا گیا تھا اور نو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن گذشتہ سال اتر پردیش حکومت کی ایک انکوائری کمیٹی نے انھیں تمام الزامات سے بری کردیا اور اس کے بجائے بحران کے دوران بچوں کی جان بچانے کے لیے کیے گئے ان کے اقدامات کی تعریف کی۔