ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو کا کھیل
بڑے نامور چہروں کو گمنام عوام نے پاتال میں پہنچایا
ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی
اعظم خان اور ان کے بیٹے سمیت کئی مسلم ا میدوار نفرتی ٹولے پر بھاری پڑے
پنجاب کے انتخاب میں کانگریس ہیرو سے زیرو ہو گئی اور عام آدمی پارٹی صفر سے سپر اسٹار بن گئی۔ اور یہی اتر پردیش میں بھی ہوا۔ لیکن یوگی ادتیہ ناتھ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔ وہ پہلے بھی ہیرو تھے اور اب بھی ہیرو ہیں۔ مایاوتی کا بھی وہی حال ہے وہ پہلے سے زیرو تھیں اور اب بھی زیرو ہی ہیں اس لیے ہم ان دونوں کی بات نہیں کریں گے۔ اس رام ملائی جوڑی کے برعکس انتظامیہ اور گودی میڈیا نے اعظم خان کو زیرو بنانے کی خاطر آسمان زمین ایک کردیا تھا مگر وہ جیل سے الیکشن لڑنے کے باوجود ہیرو بن گئے اور سریش رانا جیسے صوبائی وزیر کو اشرف علی خان نامی گمنام امیدوار نے زیرو بنا دیا۔ ان نتائج نے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کی زبان سے بے ساختہ نکلنے والی 80 بمقابلہ 20 کی سچائی کی تصدیق کر دی۔ اپنے آپ کو دبنگ سمجھنے والے یوگی مہاراج اپنے اس موقف پر قائم نہیں رہ سکے اور اسے سنبھالتے سنبھالتے ان کو پسینہ چھوٹ گیا۔ پہلے جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو بولے کہ اس سے مراد ہندو مسلمان نہیں تھا بلکہ بلاتفریق مذہب وملت صوبے کے 80 فیصد لوگ تھے جو ان کے ساتھ ہیں اور 20فیصد عوام تو مخالف ہوتے ہی ہیں۔ یوگی جی کو کم ازکم اپنے بھگوا لباس کا خیال کرکے ایسی پاکھنڈی توضیح نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن جب کسی یوگی کو ستاّ کا موہ (اقتدار کی لالچ) لگ جاتا ہے تو اپنے دھرم کو بدنام کرنے لگتا ہے۔
ویسے انتخابی نتائج نے بتا دیا کہ وہ جسے 80 فیصد سمجھ رہے تھے وہ تو صرف 30 فیصد تھا۔ آخری وقت میں اگر بی ایس پی کے دس فیصد ہاتھی نہ آتے تو یوگی گورکھناتھ مٹھ کا گھنٹا بجا رہے ہوتے۔ اس سوال نے یوگی کا خوب پیچھا کیا۔ انتخاب کے آخری مرحلے میں جب پوچھا گیا کہ مسلمانوں سے آپ سے کیسا تعلق ہے؟ تو انہوں نے بڑی عیاری سے کہا ویسا ہی ہے جیسا مسلمانوں کا مجھ سے ہے۔ یہاں تک تو انہوں نے صاف گوئی سے کام لیا کیونکہ مسلمانوں نے بھی یوگی کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا ہوا ہے۔ ان کے بلڈوزر سے ڈرکر برہمن تو ناراض ہونے کے باوجود منقسم ہو گئے مگر مسلمان رہنما یا رائے دہندگان نہ جھکے اور نہ دبے بلکہ مناسب موقع کا انتظار کیا اور جب لوہا گرم ہو گیا ہتھوڑا مار دیا۔ یہ ایسی ضرب کاری تھی کہ اگر ہاتھی نے اسے اپنی سونڈ پر نہیں لے لیا ہوتا تو بعید نہیں کہ یوگی جی کی چھٹی ہو جاتی۔ دوسری مرتبہ بھی اپنے بیان میں کمال منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوگی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں اور مسلمان بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کون سے مسلمان ہیں جو یوگی سے محبت کرتے ہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ اگر کوئی مسلمان گوناگوں وجوہات کی بناء پر ایسا کرتا بھی ہو تب بھی اس کا اظہار نہیں کر سکتا۔ کسی مسلمان نے اگر یوگی سے اظہار محبت کی جرأت کی تو اس سے نہ صرف مسلم امت کا ہر فرد بلکہ دیگر امن پسند عوام بھی نفرت کرنے لگیں گے۔
بی جے پی نے چونکہ اپنی سیاست کا مرکز ومحور مسلم دشمنی کو بنا رکھا ہے اس لیے وہ ایسے حلقوں سے بھی برائے نام مسلمان امیدوار نہیں اتار سکتی جہاں اس کی شکست یقینی ہو کیونکہ پھر اس کا ہندو ووٹر سوال کرے گا کہ اگر مسلمان ملک کے دشمن ہیں تو انہیں ٹکٹ سے کیوں نوازا گیا؟ اس لیے کہ بی جے پی کا مسلم امیدوار تو یقیناً ہارے گا مگر اس سے ہندو ووٹر ناراض ہو جائےگا۔ اس حقیقت کے باوجود بادلِ نخواستہ سہی سُوار حلقہ انتخاب میں عبداللہ اعظم خان کے سامنے بی جے پی نے اپنے حلیف اپنا دل کی آڑ میں حیدر علی خان عرف حمزہ میاں کو میدان میں اتارا اور اس کی بھر پور حمایت کی۔ بی جے پی کو امید رہی ہو گی کہ حمزہ میاں چونکہ کمل کے نشان پر انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ مسلمان جھانسے میں آجائیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کو صرف 65,059 ووٹ ملے جبکہ ان کا مقابلہ کرنے والے اعظم خان کے بیٹے نے جنہیں ایک طویل عرصہ تک جیل میں بند کردیا گیا تھا 1,26,162 ووٹ حاصل کر لیے۔ اس طرح بی جے پی کا یہ تجربہ بھی ناکام رہا اور مسلم رائے دہندگان کی دانشمندی اپنا کام کر گئی۔ اس کے باوجود ملک کا ایک مشہور تحقیقی ادارہ سی ڈی ایس اگر یہ انکشاف کرے کہ یوپی میں اس بار آٹھ فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تو بھلا اس پر کیسے یقین کیا جائے؟ جن مسلمانوں نے ایم آئی ایم اور بی ایس پی کو ووٹ نہیں دیا وہ بھلا بی جے پی کو کیسے ووٹ دے سکتے ہیں؟ اور ایسی حالت میں جبکہ ان کے سامنے بی جے پی کے خلاف ایک سے زیادہ متبادل موجود ہوں ۔
سیاست میں علامت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ میڈیا جتنا چاہے بیرسٹر اسدالدین اویسی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے مگر نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں اعظم خان کا قد خاصا اونچا ہے۔ 1980ء کے بعد 2019ء تک انہوں نے نو مرتبہ اسمبلی انتخاب میں اپنی کامیابی درج کرائی اور پھر پارلیمانی الیکشن میں بھی کامیاب ہوئے۔ 2017ء میں زبردست مودی لہر کے باوجود ان کے بیٹے عبداللہ کو اسمبلی کے انتخاب میں کامیابی ملی اور ضمنی انتخاب میں اہلیہ تنظیم فاطمہ بھی رامپور سے رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس تفصیل سے اعظم خان کی شہرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اعظم خان کا ایک بڑا کارنامہ تین سو ایکڑ پر محیط مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی ہے جس میں تین ہزار سے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں اور توسیع و ارتقا کا عمل جاری ہے۔ ایک ایسے رہنما کو پورے خاندان سمیت جیل میں بھیج کر یوگی سرکار نے مسلمانوں کو مایوس کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد ملت کی حوصلہ شکنی کے ساتھ امت کو ان سے برگشتہ کرنا بھی تھا۔ وہ آج بھی جیل میں ہیں حالانکہ ان کے خلاف تقریباً سو جعلی مقدمات میں سے 98 میں ضمانت مل چکی ہے، باقی دو فائلیں غائب کردی گئی ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے جیل سے انتخاب لڑا اور 1,21,755 ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کے مخالف اُمیدوار بی جے پی کے آکاش سکسینہ کو صرف 56,368 ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس طرح مسلم قیادت کی ایک علامت کو ڈھانے کی بھگوا کوشش خود اوندھے منہ گر گئی۔
بی جے پی نے اپنی مدت کار میں وکاس دوبے جیسے نہ جانے کتنے برہمن مافیاوں کا انکاونٹر کیا مگر انتخابات کے وقت برہمنوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں بھلا کر مختار انصاری کا نام خوب اچھالا گیا۔ پنجاب سے ان کو اتر پردیش لانے کی کہانی اس طرح پیش کی گئی گویا داود ابراہیم کو پاکستان سے لے آیا گیا ہو۔ یوگی ادتیہ ناتھ سے لے کر امیت شاہ تک بالواسطہ اور مودی خود بلا واسطہ مختار انصاری سے ہندو سماج کو ڈرا ڈرا کر ووٹ مانگتے رہے۔ اس مقصد کے لیے گودی میڈیا کے ذریعہ یوگی کو ہیرو اور انہیں ویلن بنایا گیا۔ مختار انصاری کے معاملے میں سیاسی دباو اس قدر زیادہ تھا کہ لوگ سوچ رہے تھے کہ اس بار راجہ بھیا جیسا باہوبلی تو انتخاب لڑے گا لیکن کوئی پارٹی مختار انصاری کے قریب نہیں پھٹکے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ سماجوادی پارٹی کی حلیف ایس بی ایس پی نے مؤ اسمبلی سیٹ سے مختار انصاری کے بیٹے عباس انصاری کو ٹکٹ دیا جنہوں نے بی جے پی کے اشوک کمار سنگھ کو 38,227 ووٹوں سے ہرادیا۔ اتر پردیش میں فی الحال ’سنگھ از کنگ‘ یعنی ٹھاکروں کا بول بالا ہے۔ رگھو راج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا ایک ٹھاکر باہو بلی ہیں۔ اپنی غنڈہ گردی کے بل بوتے پر وہ سات مرتبہ انتخاب جیت چکے ہیں۔ اس بار انہیں بی جے پی نے ان کی بلاواسطہ حمایت کرنے کے لیے ٹھاکروں کے حلقہ میں ایک برہمن امیدوار سندھوجا مشرا کو میدان میں اتارا اور وہ صرف 16347 ووٹ حاصل کر سکے۔ پچھلی بار راجہ بھیا کے سامنے سماجوادی پارٹی نے اپنا امیدوار نہیں اتارا تھا اور وہ ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار ایس پی نے ان کے ایک سابق شاگرد گلشن یادو کو میدان میں اتار دیا۔ اکھلیش یادو نے کنڈا کے جلسہ عام میں عوام سے پوچھا کہ ’’کنڈا کے لوگو! اس بار خود کو آزاد کرو گے یا نہیں اور جو لوگ کنڈا میں راج کرتے ہیں ان کو کنڈی لگا کر جواب دو گے یا نہیں‘‘۔ اس مہم کے باوجود گلشن یادو جیت تو نہیں سکے مگر راجہ بھیا کے کامیابی کا فرق ایک لاکھ سے گھٹ کر 30,418 پر آگیا۔ ڈیڑھ لاکھ کے فرق سے گلشن یادو کو ہرانے کا خواب دیکھنے والے راجہ بھیا ایک لاکھ ووٹ نہیں پا سکے جبکہ سماجوادی امیدوار کو 68843 ووٹ مل گئے۔ اسے کہتے ہیں ہارنے کے باوجود ایک ہیرو کو زیرو بنا دینا۔ عباس انصاری کی جیت کے سامنے راجہ بھیا کی یہ کامیابی پھیکی لگتی ہے۔
عباس انصاری کے علاوہ غازی پور کے محمد آباد سے سابق ایم ایل اے صبغت اللہ انصاری کے فرزند اور مختار انصاری کے بھتیجے صُہیب انصاری نے بھی بی جے پی کی ایم ایل اے الکا رائے کو 18,199 ووٹوں سے شکست دے کر بتا دیا کہ یوگی جی ذرا سنبھال کر قدم بڑھائیے کیونکہ ٹائیگر اب بھی زندہ ہے۔ اس بار نہ سہی اگلی بار تو کھا ہی جائے گا۔ اس کے علاوہ مغربی یو پی کی کیرانہ سیٹ بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ امیت شاہ اور یوگی نے اسی علاقہ میں ہونے والے ایک قتل کی بنیاد پر خوب نفرت انگیزی کی لیکن وہاں سے بھی اسے ناکامی ہاتھ آئی۔ اس نشست کے رکن اسمبلی ناہید حسن پر بھی یوگی سرکار نے ایک فرضی مقدمہ دائر کر دیا اور گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ روپوش ہو گئے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جاتا مگر سماج وادی پارٹی نے پھر سے انہیں پر بازی کھیلنے کا حوصلہ دیا۔ ناہید حسن اپنی نامزدگی کے کاغذات داخل کر کے جیسے ہی لوٹے گھات لگائے ہوئے افسروں نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔
راجہ بھیا کی طرح ناہید حسن کسی گلی کا موالی نہیں ہے بلکہ آسٹریلیا سے تعلیم یافتہ ہے۔ این آر سی کی تحریک میں حصہ لینے کے سبب ان پر فرضی مقدمات درج کیے گئے اور غنڈہ ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد لندن سے تعلیم حاصل کر کے عوامی زندگی میں قدم رکھنے والی ناہید حسن کی بہن اقرا حسن نے اپنے بھائی کے پیچھے ان کے لیے انتخابی تشہیر کی ذمہ داری سنبھالی۔ ناہید حسن کی گرفتاری کے بعد ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ سماجوادی پارٹی اقرا حسن کو کیرانہ اسمبلی سیٹ سے امیدوار بنانے پر غور کر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اقرا حسن مظفر نگر کی سابق رکن پارلیمان تبسم حسن اور مرحوم منور حسن کی بیٹی ہیں۔ وہ کیرانہ ضلع پنچایت رکن بھی ہیں۔ لندن سے تعلیم مکمل کرکے لوٹنے والی اقرا نے دہلی کے لیڈی شری رام کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پوسٹ گریجویشن کے لیے لندن کا رخ کیا۔ ہندوستان میں جب سی اے اے مخالف تحریک چل رہی تھی تو اس وقت اقرا کی لندن والی ایک تصویر خوب وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کر رہی تھیں۔
اقراء حسن نے جیل میں بند اپنے بھائی کے لیے انتخابی جنگ جیت کر اپنی سیاسی مہارت کا لوہا منوالیا۔ مغربی یو پی کی سب سے اہم سیٹ کیرانہ سے بی جے پی کے موگنکا سنگھ کو شکست دینے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی کے لیے میدان سنبھال کر اسے مار لیا۔ ناہید حسن نے کیرانہ میں 26800 ووٹ کے فرق سے جیت درج کرائی۔ ان کی بہن اقرا حسن نے بھی امیت شاہ کی مانند گھر گھر، محلہ محلہ اور گلی گلی میں اپنے بھائی کے لیے مہم چلائی لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ دس مارچ کو اقرا جیت گئیں اور امیت شاہ ہار گئے۔ مرادآباد کے سماج وادی رکن پارلیمان شفیق الرحمن برق پر افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا جنگ آزادی سے موازنہ کرنے کے سبب ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ میں بدنامی کا ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا اس کے باوجود ان کے بیٹے ضیاء الرحمن نے بی جے پی کے کمل کمار کو 43,162 ووٹوں سے شکست دے کر بتا دیا کہ ؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اس بار اسمبلی انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم رہنماوں میں ایک نہایت محترم نام نظام آباد (اعظم گڑھ) کے 85 سالہ عالم بدیع صاحب کا بھی ہے۔ اس بے لوث سماجی خادم نے اپنی عمر کا طویل حصہ عوام کی خدمت میں کھپا دیا لیکن کبھی کوئی داغ ان کے دامن پر نہیں لگا۔ اسی لیے کبر سنی کے عالم میں بھی عوام نے انہیں دوبارہ منتخب کرکے اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے بی جے پی کے منوج کو 34,187 ووٹوں سے شکست دی۔ میرٹھ کے کیتھور اسمبلی سیٹ پر سماج وادی کے شاہد منظور نے بی جے پی کے ستویر سنگھ کو 2,180 ووٹوں کے فرق سے ہرا کر بتا دیا کہ اصلی ہیرو ایسا ہوتا ہے۔ اسی مغربی یو پی سے بی جے پی کے ہیرو سنگیت سوم اور صوبائی وزیر سریش رانا کو شکست فاش ہوئی۔ یہ دونوں 2013ء میں ہونے والے مظفر نگر فسادات کے ملزم ہیں۔ سنگیت سوم کو میرٹھ کی سردھنا سیٹ سے ایس پی امیدوار اتل پردھان نے ہرایا۔ سردھنا بی جے پی کا گڑھ ہے۔ اس سیٹ پر بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم سال 2012ء اور 2017ء میں اتل پردھان کو شکست دے چکے ہیں مگر اس بار پردھان کی جیت نے گویا مظفر نگر فساد کی بنیاد پر پھیلائی جانے والی نفرت انگیزی کو بے اثر کر دیا۔ سردھنا سیٹ پر پہلی بار کسی ایس پی امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سنگیت سوم کا ہیرو سے زیرو ہو جانا ہندوتوا کی سیاست پر کلنک ہے۔
سنگیت سوم کے علاوہ مظفر نگر فسادات کے ایک اور ملزم امیش ملک کو بدھانا سیٹ پر راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے راج پال سنگھ بالیان نے 8444 ووٹوں سے شکست دے دی۔ سوم کے ساتھ ملک پر بھی 2013ء کے مظفر نگر فسادات کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ کر فسادات بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کا الزام تھا۔ بی جے پی کے ان دونوں ہی ارکان اسمبلی کو اس وقت کی ایس پی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا، لیکن 2017ء میں دونوں ہی جیت گئے تھے۔ مظفر نگر فسادات کے ایک اور ملزم حکم سنگھ بھی تھے۔ ان کی بیٹی مرگانکا سنگھ کو کیرانہ سیٹ پر ہار ملی۔ ہندوتوا نوازوں کی شکست وریخت صرف مغربی یو پی تک محدود نہیں رہی بلکہ مشرقی یو پی کے بلیا نگر اسمبلی حلقہ میں بھی اس کا اثر نظر آیا۔ کٹر ہندو شبیہ کے مالک ریاستی وزیر آنند سوروپ شکلا کو بیریا سیٹ پر ایس پی کے جئے پرکاش آنچل نے 12951 ووٹوں سے شکست دے دی۔موصوف نے اذان کے خلاف قدم اٹھانے کی دھمکی دینے کے بعد مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ رام اور شیو کو معبود مان لیں اور ہندوستانی ثقافت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔
تبلیغی جماعت کو ’انسانی بم‘ کہنے والا یہ بھگوا بم بھی پھسکا نکلا اور پھٹے بغیر بجھ گیا۔ کیا یہ ہندوتوا کی شکست نہیں ہے؟
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سارے عالم میں فی الحال ہندوتوا کا سب سے بڑا چہرہ ہیں۔ ان کے قریبی اور پوروانچل میں ہندو یوا واہنی کے رہنما راگھویندر سنگھ بھی الیکشن ہار گئے ہیں۔ یوگی کے اقتدار میں رہتے ہندو یوا واہنی کے لیڈر کا ہار جانا ہندوتوا کے ساتھ ساتھ خود وزیر اعلیٰ کے لیے باعثِ شرم ہے۔ یہ وہی سابق رکن اسمبلی ہے جس نے ڈومریا گنج میں ‘ہندو سماج کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والوں کو برباد کرنے’ کی دھمکی د ی تھی ۔’ہندو یووا واہنی‘ نامی بدنامِ زمانہ تنظیم کو یو پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2002ء میں قائم کیا تھا۔ نوجوانوں کی اس تنظیم نے 2004ء 2009ء اور 2014ء میں آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے رہنما رگھویندر سنگھ کو یوگی نے ڈومریا گنج سے میدان میں اتارا جہاں جملہ رائے دہندگان کا تقریباً 39.8 فیصد (یعنی لگ بھگ ایک لاکھ 73 ہزار) مسلم ووٹرز ہیں۔ یہ استاد اور شاگرد کی بیجا خود اعتمادی تھی جس نے دونوں کو رسوا کر دیا ۔
وزیر اعلیٰ کے اس بد زبان شاگرد نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس گاؤں کا ہندو اگر دوسری طرف جاتا ہے تو جان لو کہ اس کے اندر میاں کا خون دوڑ رہا ہے…وہ غدار ہے، جئے چند کی ناجائز اولا دہے۔ وہ اپنے باپ کی حر…می اولاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہندو دوسری طرف جاتا ہے تو اس کو سڑک پر منہ دکھانے لائق نہیں رکھنا چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ووٹ نہیں دینے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ رگھویر نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ ایم ایل اے بنتے ہیں تو میاں لوگوں کے سر سے گول ٹوپی غائب ہو جائے گی اور وہ تلک لگانا شروع کر دیں گے۔ اب رگھویر انتخاب ہار چکے ہیں اس لیے انہیں تلک لگانا ترک کرکے گول ٹوپی پہننا شروع کر دینا چاہیے ۔ مسلمانوں کی خود ساختہ دہشت گردی کے خاتمہ کا اعلان کرنے والے کی دہشت گردی رائے دہندگان نے ختم کر دی ہے۔ اس لیے بی جے پی کی اس فتح کا سہرا ہندوتوا کے سر باندھنا درست نہیں ہے۔ عوام نے اتر پردیش کے مشرق ومغرب سے ہندوتوا کے پوسٹر بوائز کو دھول چٹا دی ہے ان میں سب سے بڑا چہرا سابق نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022