ہوئے مر کے ہم جو شہری۔۔آسام کے ڈ یٹنشن سنٹرز کی کہانی

جیتے جی شہریت تسلیم کرنے سےانکار اور مرنے کے بعد وطن کی زمین دینے کے لیے تیار ۔حکومت کا دوغلاپن آشکار

افروز عالم ساحل

104 سالہ چندر دھر داس کو یہ امید تھی کہ ملک میں مرکزی حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ بنا دیا ہے اس لیے اب انہیں بطور ہندوستانی شہری تسلیم کر لیا جائے گا۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ چندر دھر داس کا ہندوستانی شہریت حاصل کرنے سے پہلے ہی دیہانت ہو گیا۔

سرکاری ظلم کی یہ کہانی آسام کے کاچھار ضلع کے امرا گھاٹ علاقے کی ہے۔ یہاں کے چندر دھر داس کو فارینرس ٹریبیونل نے 2018 میں غیر ملکی قرار دیا تھا۔ اسی سال مارچ میں انہیں سلچر سنٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا، ان کی قید کے خلاف عوامی غم و غصے کے بعد جون میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا لیکن داس کے تین بچوں اور پوتے پوتیوں کو ان کی شہریت ثابت نہ ہونے کی وجہ سے آسام کی این آر سی لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ خود کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے کے لیے ان کے خاندان کے لوگ ایک عدالت سے دوسری عدالت کے درمیان دوڑیں لگاتے رہے، وکلا سے لے کر سوشل ورکرز تک سے مدد لی، تمام کاغذات جمع کروائے، کیونکہ چندر دھر داس ایک ہندوستانی کے طور پر مرنا چاہتے تھے۔ لیکن 13 دسمبر کو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے اور بطور ہندوستانی شہری مرنے کی ان کی خواہش ادھوری رہ گئی۔

آسام کے اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق داس 1955 میں مشرقی پاکستان (1971 کے بعد بنگلہ دیش) سے ہندوستان آئے تھے۔ انہیں تریپورہ میں پناہ گزینوں کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا، لیکن فارینرس ٹریبیونل کے حکام نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ واضح رہے کہ 1971 سے پہلے آسام میں رہنے والے افراد کو بہرحال ہندوستانی شہری سمجھا جاتا ہے۔

ڈیٹینشن سنٹر میں مرنے والوں کی کہانی

چندر دھر داس تو اپنے گھر والوں کے درمیان تھے، لیکن ذرا ان کے بارے میں بھی سوچیے جن کی موت ڈیٹینشن سنٹروں میں ہوئی ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے جو فہرست تیار کی ہے اس کے مطابق آسام کے الگ الگ جیلوں میں بنائے گئے ڈیٹینشن سنٹروں میں اب تک کل 30 لوگوں نے دم توڑا ہے۔ غور طلب ہے کہ اس فہرست میں 25 ناموں کی جانکاری 29 جولائی 2019 کو ریاست کے پارلیمنٹری افیئرس منسٹر چندر موہن پٹواری نے وزیر اعلیٰ سربانند سونووال کی طرف سے ریاستی اسمبلی میں جواب دیتے ہوئے تحریری طور پر دی تھی، باقی کے نام ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے نے میڈیا میں شائع خبروں کے بنیاد پر اس فہرست میں شامل کیے ہیں۔

مرنے والوں کی اس فہرست میں 14مسلمان اور 16 ہندو (کچھ قبائلی) ہیں۔ وہیں ان مرنے والوں میں صرف تین ناموں کے سامنے ان کے بنگلہ دیش کا پتہ دیا گیا ہے، باقی تمام مرنے والوں کا پتہ ہندوستان ہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 16 جون 2016 میں مرنے والے دولال میاں کو بنگلہ دیش کے ضلع ’سمر گنج‘کے ماراک گاؤں کا رہائشی بتایا گیا۔ لیکن دی ہندو کے ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں اس نام سے کوئی ضلع ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ ناگین داس اور باسو دیو وسواس کا پتہ بھی بنگلہ دیش کا ہی درج کیا گیا ہے۔ وہیں 22 اکتوبر 2017 میں مرنے والے ابو شاہد کے نام کے سامنے کہیں کا کوئی پتہ درج نہیں ہے۔

حد تو یہ ہے کہ ڈیٹینشن سنٹر میں مرنے والے جب تک زندہ رہے، بنگلہ دیشی و درانداز ہونے کا کلنک اپنے دامن پر لےکر رہے، لیکن مرنے کے فوراً بعد حکومت انہیں اپنے ملک کا شہری مان کر ان کی لاش ان کے خاندان کو سرزمین ہند میں دفن کرنے کے لیے سونپ دیا۔

یہ کہانی 25 لوگوں کے ساتھ لگاتار دوہرائی جاتی رہی۔ لیکن 26ویں موت نے اس وقت سوالات کھڑے کر دیے جب ان کے خاندان والوں نے لاش لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر وہ بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت ان کی لاش بنگلہ دیش بھیج دے۔ ہم ایک غیر ملکی کی لاش کیسے لے سکتے ہیں؟

نلباری ضلع کے مکل موا کے پاس واقع ساتے ماری کا رہنے والے 71 سال کے پھالو داس گولپاڑا ڈیٹینشن سنٹر میں تھے، 11 اکتوبر 2019 کو گولپاڑا میں گوہاٹی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل (جی ایم سی ایچ) میں ان کی موت ہو گئی۔ تب حکومت نے ان کے موت کی اطلاع ان کے گھر والوں کو دی، لیکن پھالو داس کے گھر والوں نے ان کی لاش کو لینے سے انکار کر دیا۔ گھر والوں کا کہنا تھا، ہم نے ان کے زندہ رہتے ان کے نام سے ہر جائز دستاویز دکھائیں پھر بھی انہیں غیر ملکی قرار دیا گیا جس کے نتیجے میں وہ پچھلے دو سالوں سے اپنی زندگی ڈیٹینشن سنٹر میں گزار رہے تھے۔ اگر وہ واقعی غیر ملکی تھے تو پھر ان کی لاش حکومت کو بنگلہ دیش بھیج دی جانی چاہیے۔ جب ہم اس وقت ان کے کوئی نہیں تھے، تو اب ان کی فیملی ممبر کیسے بن گئے؟ اب حکومت نے کیسے مان لیا کہ ہم ان کے فیملی والے ہیں۔ تب نلبری ضلعی عہدیدار اور گورنمنٹ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رہنماؤں نے انہیں ہندوستانی شہری مانتے ہوئے پھالو داس کے گھر والوں سے لاش لینے کے بدلے معاشی معاوضے، نوکری اور رہائش کی پیش کش کی۔ لیکن 3 مارچ 2020 کوشائع الجزیرہ کی ایک خبر کے مطابق بی جے پی کی طرف سے کیا گیا نہ کوئی وعدہ عمل میں آیا اور نہ ہی ان کے گھر میں سے جن لوگوں کے نام آخری این آر سی فہرست میں نہیں ہے، ان کو شہریت ملی ہے۔

واضح رہے کہ پھالو داس کی بیوہ اور دو بڑی بیٹیوں کا نام آخری این آر سی میں ہے، وہیں ان کے دو بیٹیوں اور دو چھوٹی بیٹیوں کا نام آخری این آر سی لسٹ میں نہیں ہے۔

ایسی ہی کہانی دلال چندر پال کی بھی ہے۔ 65 سال کے دلال چندر پال کو فارینرس ٹریبیونل نے 2017 میں غیر ملکی قرار دیا تھا۔ اس وقت وہ ذہنی طور پر بیمار تھے۔ اس کے باوجود ان کو ڈیٹینشن سنٹر میں بھیج دیا گیا۔ تیج پور ڈیٹینشن سنٹر میں 13 اکتوبر 2019 کو ان کی موت ہوگئی، تب حکومت نے ان کے موت کی اطلاع ان کے گھر کے لوگوں کو دی، لیکن گھر والوں نے لاش لینے کو کسی بھی طرح تیار نہیں تھے۔ تب وزیر اعلیٰ سربانند سونووال کی مداخلت کے بعد اس کنبہ نے پورے 9 دنوں کے بعد لاش قبول کیا۔ پھالو داس اور دلال چندر سے قبل 25 لوگ ڈیٹینشن سنٹر میں دم توڑ چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام افراد کی موت کی وجہ بیماری بتائی جاتی رہی، لیکن کچھ خاندان والوں کا الزام ہے کہ یہ موتیں اس لیے ہوئیں کیونکہ جیل میں انہیں بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ایسی اموات میں شہریت نہیں دیکھی جاتی

گزشتہ سال جب اپوزیشن کے رہنماؤں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ جب ان لوگوں کو غیر ملکی یا ’’غیر قانونی مہاجر‘‘ قرار دیا گیا تھا تو ان کی لاشیں بنگلہ دیش کیوں نہیں بھیجی گئیں؟ تب اس پر آسام کے پارلیمانی امور کے وزیر چندر موہن پٹواری نے اسمبلی میں جواب دیا ’’ایسی اموات میں شہریت نہیں دیکھی جاتی۔ لیکن اگر خاندان کے لوگ ان کی لاش لینے سے انکار کر دیتے ہیں تو پھر قواعد کے مطابق اس کا انتم سنسکار کر دیا جاتا ہے‘‘۔ یعنی جس کلنک، جس داغ نے اسے زندہ رہتے ہوئے بے چین کیا، در در کی زندگی جینے پر مجبور کیا۔ ظلم و ستم سہنے کا عادی بنایا، جس شہریت کی اسے جیتے جی ضرورت تھی وہ تو نہیں دی گئی لیکن مرنے کے بعد اتنا احترام کہ شہریت کو بالائے طاق رکھ کر انتم سنسکار؟ یہ زندہ انسانوں کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔
ملک میں ڈیٹینشن سنٹرز کی ضرورت نہیں ہے

انسانی حقوق کے لیے آسام میں کام کر رہے مشہور وکیل امن ودود مُلک میں ڈیٹینشن سنٹر کی حمایت میں نہیں ہیں۔ ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں وہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت نے گزشتہ 7 سالوں میں صرف 5 لوگوں کو ہی ان کے ملک میں واپس بھیجا ہے۔ یہ جانکاری عدالت میں خود حکومت نے دی ہے۔ آپ جن لوگوں کو غیر ملکی قرار دے رہے ہیں اور انہیں واپس ان کے ملک نہیں بھیج پا رہے ہیں تو پھر آپ انہیں ڈیٹینشن سنٹروں میں کیوں رکھ رہے ہیں؟

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ سارا سسٹم بھی ختم ہو جائے، لیکن میرا سوال ہے کہ جب ڈیٹینشن سنٹر میں رہنے والوں کو دو تین سال میں کوئی نہ کوئی شرط لگا کر انہیں چھوڑا جا سکتا ہے، تو پھر انہیں باہر رکھ کر بھی ان پر کچھ شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔ ڈیٹینشن سنٹر میں رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

این آر سی کے لیے سرکاری نوکری چھوڑ کر کام کرنے والے انجینیئر عبدالباطن ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں بتاتے ہیں کہ جتنے بھی لوگ ابھی تک ڈیٹینشن سنٹر میں مرے ہیں، ان کی میتیں انڈیا میں رہ رہے ان کے اہل خانہ کو ہی دی گئیں۔ جب وہ غیر ملکی تھے تو ایسا تو ان کی میتوں کو ان کے ملک میں بھیج دینا چاہیے۔

ڈیٹینشن سنٹر میں مرنے والوں کو اگر آپ واپس نہیں بھیج پا رہے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب ہے کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ جن تین لوگوں کا بنگلہ دیش کا پتہ بتایا گیا تھا، انہیں بھی وہاں نہیں بھیجا گیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب وہ بنگلہ دیشی تھا تو اس کا گھر یا ہندوستان میں اس کا خاندان کہاں سے آگیا؟ انجینیئر عبدالباطن اب کانگریس میں ہیں اور بطور کانگریسی رکن آسام میں کام کر رہے ہیں۔

آسام میں مثال فاؤنڈیشن سے جڑے شکیل بتاتے ہیں کہ یہاں موجود تمام ڈیٹینشن سنٹرز کی حالتوں میں کوئی بہتری نہیں ہے۔ انہیں بے حد غیر انسانی طریقے سے رکھا جا رہا ہے۔ کچھ سال پہلے تک آپ ڈیٹینشن سنٹر میں جا کر حالات کو دیکھ سکتے تھے، لیکن بعد میں حکومت نے خاص طور پر صحافی یا کسی لیڈر کے داخلے پر پوری طرح سے پابندی لگا دی۔ اور ہم جیسے سماجی کارکنوں کو تو اس کے نزدیک بھی پھٹکنے نہیں دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ اندر کی سچائی باہر نہ آنے پائے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جیل کے قیدیوں کے بھی کچھ اپنے حقوق ہوتے ہیں، لیکن حکومت کی نظر میں آسام کے ڈیٹینشن سنٹر میں رہنے والے نام نہاد غیر ملکیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ آپ ڈیٹینشن سنٹر کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ ڈیٹینشن سنٹر جانے کے بجائے خود کشی کرنا پسند کرتے ہیں۔

ڈیٹینشن سنٹر کا حال اور لوگوں کا درد

اسی سال ملک میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفت روزہ دعوت نے آسام میں کئی ایسے لوگوں سے بات کی، جنہوں نے آسام کے ڈیٹینشن سنٹر میں کچھ دن گزارے ہیں۔ لکھیپور کے 39 سالہ بسو علی بتاتے ہیں کہ 26 جنوری 2014 کو انہیں ان کے گھر سے پولیس والوں نے اٹھایا۔ ایک دن تھانے میں رکھ کر دوسرے دن ڈیٹینشن سنٹر میں ڈال دیا۔ جیل کے اندر بنے ڈیٹینشن سنٹر کا حال سناتے ہوئے بسو علی رو پڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ایک ہی کمرے میں 50 افراد کو رکھا جاتا ہے۔ صرف ڈیڑھ ہاتھ جگہ میں ہی رہنا اور سونا ہوتا تھا۔ ہم خود کشی کر لیں گے، مر جائیں گے لیکن دوبارہ وہاں نہیں جائیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں۔ میری والدہ ہندوستان سے ہیں۔ میرے والد کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ پورا خاندان ہندوستان میں ہے۔ میرے پاس تمام دستاویزات ہیں۔ لیکن دستاویز بتانے پر بھی کوئی سنتا نہیں ہے، دیکھتا نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دستاویز پان کی دکان سے بھی مل جاتے ہیں اور تم یہاں کے آدمی نہیں ہو۔ بنگلہ دیشی ہو۔ میری والدہ بھی اسی تناؤ میں گزر گئیں۔

بسو علی مزدوری کرتے ہیں۔ خاندان میں بیوی کے علاوہ دو بچے ہیں۔ جب یہ جیل میں تھے تو ان کی ماں بھیک مانگ کر گھر چلا رہی تھیں۔ ان کے پاس 1951 کا لیگیسی سرٹیفکیٹ ہے۔ ووٹر کارڈ بھی ہے۔ 15 ماہ قبل ضمانت پر جیل سے باہر نکلے ہیں۔اس سے بھی درد ناک کہانی شاہدہ کی ہے۔ مئی 2011 میں شاہدہ کو ڈی ووٹر کے کیس میں کوکراجھار ڈیٹینشن سنٹر لے جایا گیا، تب اس کے جڑواں بچے نذرالاسلام اور مجیر الاسلام محض 14 دن کے تھے۔ اس دن راستے میں ہی نذرالاسلام کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ جیل میں دوا اور علاج کے لیے زیادہ سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ اس کی طبیعت یوں ہی بگڑتی رہی اور پھر کچھ ہفتوں بعد وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو چھوڑ کر چلا گیا۔ شاہدہ کو تین دنوں تک ہوش نہیں رہا۔

آگے کی کہانی سناتے وقت شاہدہ کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ آنسو پونچھتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اپنی شہریت کا مقدمہ لڑنے کے لیے میرے شوہر نے ہماری تمام زمین بیچ دی۔ 42 ہفتوں تک مسلسل دھوبری سے کوکراجھار آتے رہے۔ اس وقت ہماری ساری پونجی ختم ہو گئی اور مقروض ہو گئے۔ قرض کی ٹینشن اتنی بڑھ گئی کہ میرا شوہر بھی چل بسا۔ اب اتنا سب کچھ کھونے کے بعد مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ شہریت کے میرے لیے کیا معنی ہیں‘‘۔ اپنے بچے اور شوہر کو کھو دینے کے بعد 2012 میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے شہریت سے جڑے اس مقدمے میں شاہدہ کو ہندوستانی شہری قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

تو کیا ڈیٹینشن سنٹر میں اب صرف مسلمان رہیں گے؟

گزشتہ دنوں آسام کی بی جے پی حکومت میں وزیر خزانہ ہیمنت بیسوا شرما کا بیان آیا کہ شہریت ترمیم ایکٹ (سی اے اے) پاس ہونے کے بعد کسی بھی غیر مسلم کو غیر ملکیوں کے لیے بنے ڈیٹینشن کیمپوں میں نہیں رکھا جائے گا۔ حالانکہ آسام میں ابھی ایسا نہیں ہوا ہے، لیکن اس بیان سے اتنا تو واضح ہے کہ مستقبل میں آسام کے ڈیٹینشن سنٹروں میں اب صرف مسلمان ہی رہیں گے۔

کینیڈا کے وزیر بھی کر چکے ہیں ان ڈیٹینشن سنٹروں کی مخالفت

اسی سال فروری میں کینیڈا کے وفاقی وزیر اُجل دوسانجھ بھی آسام کے ان ڈیٹینشن سنٹروں کی مخالفت کر چکے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے عوام سے اپیل کی کہ انہیں آسام میں ان ڈیٹینشن سنٹروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انہوں نے سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کی 550 ویں سالگرہ کے موقع پر پنجاب اور ہریانہ بار کونسل کے زیر اہتمام ہفتہ کے روز چندی گڑھ میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کی موجودگی میں یہ باتیں کہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہودیوں کو ایڈولف ہٹلر نے راست گیس چیمبروں یا نظر بند کیمپوں میں نہیں بھیجا تھا بلکہ انہیں پہلے مظالم کا نشانہ بنایا گیا تھا اور آج ہندوستان میں یہ بات مسلمانوں، اقلیت پسندوں اور دیگر افراد کے ساتھ پیش آرہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ کسی کے مذہب پر زور دیتے ہیں تو، وہ دوسرے ہو جاتے ہیں اس طرح آپ لوگوں کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ وہ ہم سے کم ہیں۔ اسی سے فاشزم کا آغاز ہوتا ہے اور لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

آسام میں بن چکا ہے ملک کا سب سے بڑا ڈیٹینشن سنٹر

آسام کے ضلع گوالپاڑہ کے مٹیا علاقے کے گاؤں ڈومونی-دلگوما میں ملک کا سب سے بڑا ڈیٹینشن سنٹر بن کر تیار ہے۔ لیکن ابھی اس کی باضابطہ طور پر شروعات نہیں کی گئی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر داخلہ امیت شاہ کے ہاتھوں ہونے والا تھا، مگر آسام میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے یہ کام ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔

یہاں کی تعمیراتی کاموں کی نگرانی کر چکے جونیئر انجینئر ربین داس کے مطابق یہ دنیا کا دوسرا بڑا ڈیٹینشن سنٹر ہے۔ پہلا امریکا کا ہے۔ یہاں 3000 افراد کو ایک ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق گوالپاڑہ کے اس ڈیٹینشن سنٹر کے علاوہ آسام میں مزید 9 ایسے مراکز تعمیر کیے جانے ہیں۔یہ مراکز آسام کے برپیٹا، دیما ہاسو، کامروپ، کریم گنج، لکھیم پور، نگاؤں، نلبری، شیو ساگر اور سونت پور میں قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان مراکز پر مجوزہ اخراجات 1000 کروڑ ہے۔ مرکزی حکومت ان تمام اخراجات کو برداشت کرے گی۔ اس وقت یہاں جیلوں کے احاطے کے ایک حصے میں 6 ڈیٹینشن سنٹر چل رہے ہیں جن میں ہزار سے زیادہ غیر ملکی قرار دیے گئے یا مشتبہ غیر ملکیوں کو انتہائی خراب حالت میں رکھا گیا ہے۔ اسی سال 7 اکتوبر 2020 کو گوہاٹی ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ آسام کی جیلوں کو غیر ملکیوں کی رہائش کے لیے ’’مستقل‘‘ ڈیٹینشن سنٹر کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی، وہ اس مقصد کے لیے الگ جگہ تلاش کرے۔ ریاستی حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ جہاں انہیں رکھا جا رہا ہے وہاں بجلی، پانی اور حفظان صحت وغیرہ کی بنیادی سہولتیں موجود ہوں۔ ساتھ ہی ان جگہوں پر مناسب سیکیورٹی بھی موجود رہے۔

اب غازی آباد میں نہیں بنے گا ڈیٹینشن سنٹر

اسی سال اپریل 2020 میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ قومی دارالحکومت دہلی سے محض 50 کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر غازی آباد کے نند گرام میں ڈیٹینشن سنٹر بن کر تیار ہے۔ یہ ریاست اتر پردیش کا پہلا ڈیٹینشن سنٹر ہوگا۔ لیکن میڈیا میں آئے خبروں کے مطابق اب ڈیٹینشن سنٹر نہیں بنے گا۔

اتر پردیش حکومت نے غازی آباد کے نندگرام میں واقع ایس سی؍ایس ٹی طلبہ ہاسٹلز کو اب ڈٹینشن سینٹر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ڈراپ کر دیا ہے۔ یعنی اب این سی آر غازی آباد میں ریاست کا پہلا ڈٹینشن سینٹر قائم نہیں ہو گا۔ ضلع مجسٹریٹ اجے شنکر پانڈے نےحکومت کی ہدایت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نندگرام میں واقع امبیڈکر ایس سی؍ایس ٹی ہاسٹلز کو اب ڈٹینشن سینٹر کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
***

’’ہماری حکومت نے گزشتہ 7 سالوں میں صرف 5 لوگوں کو ہی ان کے ملک میں واپس بھیجا ہے۔ یہ جانکاری عدالت میں خود حکومت نے دی ہے۔ آپ جن لوگوں کو غیر ملکی قرار دے رہے ہیں اور انہیں واپس ان کے ملک نہیں بھیج پا رہے ہیں تو پھر آپ انہیں ڈیٹینشن سنٹروں میں کیوں رکھ رہے ہیں؟ ‘‘(ایڈووکیٹ امن ودود مُلک)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021