’’ہندوستان میں اسلامی معاشیات و مالیات: موانع و مواقع‘‘
عام فہم انداز میں اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب
تبصرہ نگار: شاہ رشاد عثمانی، بھٹکل
کتاب کا نام: ہندوستان میں اسلامی معاشیات و مالیات: موانع و مواقع
مصنف: ایچ۔ عبدالرقیب، چنئی(تمل ناڈو)
صفحات: 304
قیمت: تین سو روپے
ناشر: انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس، ریڈینس بلڈنگ، ڈی۔اے۔309، دعوت نگر، ابولفضل انکلیو، نئی دہلی25
عصرِ حاضر کے ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی صورتِ حال انتہائی ابتر اور سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ روزی روٹی کا حصول انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وہ اپنی اور اپنی آل واولاد کے لیے دوڑ دھوپ اور محنت و مزدوری کرتا ہے۔ چوں کہ انسان کے رزق کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پھیلا دیا ہے، اس کو حاصل کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔ اسلام نے تعلیم دی ہے کہ آدمی اپنی روزی حلال طریقے سے کمائے، اسے ناجائز اور حرام طریقے سے حاصل نہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبیوں کو بھی حلال روزی کمانے کا حکم دیا ہے:
یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیْم (المومنون:۱۵)
’’اے نبی! کھاؤ پاک چیزیں اور نیک عمل کرو۔ تم جو بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں۔‘‘
اسلام نے ہاتھ سے کمانے کی ہمت افزائی کی ہے اور ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی ہے۔ اس لیے زراعت، تجارت اور محنت مزدوری کرکے روزی پیدا کرنا مطلوب ہے۔ ہاں غلط طریقے سے مال کمانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حکم خدا وندی ہے:
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِل(البقرۃ:۸۸۱)
’’اور تم ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ انسان حرام اور ناجائز آمدنی سے پرہیز کرے۔ جیسے سود خوری، رشوت، چوری، خیانت، غبن، حرام مال کی تجارت وغیرہ کے ذریعہ سے مال نہ حاصل کیا جائے۔ ایسی کمائی میں نہ تو برکت ہے اور نہ ہی ایسے شخص کی عبادت قبول ہوتی ہے۔ اسلامی نظام معیشت کے حدود و قیود پر بہت ساری تحقیقات و تصنیفات اردو زبان میں موجود ہیں اور الحمد للہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس کے روحِ رواں معروف اسلامی اسکالر ایچ عبد الرقیب صاحب کی تصنیف ”ہندوستان میں اسلامی معاشیات و مالیات: موانع و مواقع“ اس وقت پیش نظر ہے۔ ہندوستان میں اس وقت بینکنگ کاجو نظام قائم ہے وہ سود پر مبنی ہے۔ البتہ یہاں کئی برسوں سے مختلف افراد، ادارے اور تنظیمیں سود سے پاک نظام مالیات و سرمایہ کاری کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جن میں ایک نمایاں نام جناب ایچ عبد الرقیب کا بھی ہے۔موصوف پچھلے کئی برسوں میں ہندوستان میں بلاسودی بینکنگ اور اسلامی مالیاتی نظام کے قیام کے لیے راہوں کو ہموار کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے برسوں کے مطالعے اور تجربات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں خاص طور سے اجتماعی نظامِ زکوٰۃ، اسلامک فائنانس اور اسلامک انشورنس کا جامع تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی اچھی طرح واضح کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی گرتی ہوئی معیشت کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام معیشت میں پوشیدہ ہے۔
کتاب کے باب اول میں زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کے قیام کی ضرورت و اہمیت کو تفصیلی موضوعِ گفتگو بنایاگیا ہے۔ ملت کے معاشی استحکام کے لیے یہ کام جتنا ضروری تھا اتنا ملت نے آج تک اس پر توجہ نہیں دی اور اسی لیے ہم روز بروز معاشی ابتری کے شکار ہیں۔ دوسرے باب میں معاشی جدو جہد کا صحیح تصور پیش کرتے ہوئے اسلامی معاشرہ میں مسجد کو تمام اجتماعی معاملات میں جو مرکزیت حاصل ہے، اس کے تحت مسجد کو معاشی جدو جہد، رفاہی کاموں اور خدمتِ خلق کا مرکز بنانے پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔ یقیناً آج ہماری تمام مساجد کو مسجد نبوی کی طرح مختلف معاشرتی، معاشی اور سماجی سرگرمیوں اور خدمتِ خلق کا مرکز و محور بنانا چاہیے، جس کی طرف معاشرے میں بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
مدینہ مارکیٹ کا تصور پہلی بار اس نوعیت سے اور اس وضاحت اور تفصیل کے ساتھ اس کتاب کے ذریعے ہمارے سامنے آیا ہے۔ سیرت نبوی کا یہ ایک اہم گوشہ ہے۔ جیسے مصنف کتاب نے گم نام گوشہ قرار دیا ہے۔ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس کی مضبوط بنیادوں میں تمام دینی، سماجی و سیاسی امور اور تعلیمی و معاشی معاملات بھی تھے۔ چنانچہ معاشی خوش حالی اور مادی ترقی کے لیے مدینہ مارکیٹ کا قیام، اس کا انتظام و انصرام سیرت نبوی کا ایک تابناک باب ہے، جس پر مصنف نے بجا طور سے روشنی ڈالی ہے۔
کیرالا ہائی کورٹ میں اسلامی سرمایہ کاری کا فیصلہ، اس کتاب کا پانچواں باب ہے۔ جب اس سرمایہ کاری کے خلاف کیرالا ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تو اس ملک میں پہلی بار سیکولر ازم اور شریعت پر دلچسپ اور تاریخی مباحث ہوئے۔ اس کامیابی کی قدرے تفصیل سے آگاہی ہمیں اس ملک کی صورتِ حال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس کی بارہ سالہ خدمات کی تفصیلات درج ہیں۔ اس میں بلا سودی بینکنگ کے قیام کے لیے مختلف سطحوں پر جو غیر معمولی کوششیں ہوتی رہی ہیں ان کابھی ذکر ہے، جس کے نتیجے میں سرکاری سطح پر کچھ کامیابی بھی ملی تھی، لیکن بعد میں قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ مصنف نے اس تحریکی جدو جہد کی مفصل روداد اس کتاب میں پیش کردی ہے، جس سے ایک عام آدمی کو معاشی مسائل کے تمام پہلوؤں سے فکری و عملی دونوں سطحوں پر مکمل واقفیت حاصل ہوجاتی ہے۔
بحیثیت مجموعی اس کتاب میں اسلامی نظام معاشیات کے قیام کے لیے ملکی سطح پر ہونے والی تحریکی سرگرمیوں کی روداد کے ساتھ اس کی راہ میں درپیش موانع اور سلسلے میں دستیاب مواقع اور مسائل کے مختلف پہلووں پر آسان زبان میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کا اسلوب کہیں پر بھی گنجلک نہیں ہے، خیالات میں بھی clarity ہے۔ کتاب کا مخاطب زیادہ تر وہ نوجوان ہے جو آج تلاش روزگار میں سرگرداں و پریشان ہے، معاشی مصائب میں مبتلا ہے۔ امید ہے کہ ہندوستان میں اسلامی نظام معیشت کے قیام کے آرزومند نوجوانوں بالخصوص کامرس اور معاشیات کے طلبا میں یہ کتاب مقبول ہوگی اور وہ اس سے روشنی، حرارت اور بصیرت حاصل کرسکیں گے۔
***
***
مدینہ مارکیٹ کا تصور پہلی بار اس نوعیت سے اور اس وضاحت اور تفصیل کے ساتھ اس کتاب کے ذریعے ہمارے سامنے آیا ہے۔ سیرت نبوی کا یہ ایک اہم گوشہ ہے۔ جیسے مصنف کتاب نے گم نام گوشہ قرار دیا ہے۔ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس کی مضبوط بنیادوں میں تمام دینی، سماجی و سیاسی امور اور تعلیمی و معاشی معاملات بھی تھے۔ چنانچہ معاشی خوش حالی اور مادی ترقی کے لیے مدینہ مارکیٹ کا قیام، اس کا انتظام و انصرام سیرت نبوی کا ایک تابناک باب ہے، جس پر مصنف نے بجا طور سے روشنی ڈالی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022