ہندوستان ’’منتخبہ آمریت‘‘ کی طرف گامزن ہے: سابق جج اے پی شاہ
نئی دہلی، اگست 17: دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے اتوار کے روز کہا کہ ہندوستان ’’منتخبہ آمریت‘‘ کی طرف گامزن ہے۔
انھوں نے بڑھتے ہوئے کورونا وائرس بحران کے دوران ہندوستان کے لوگوں کی رہنمائی کرنے میں ناکام رہنے پر پارلیمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت ’’جو چاہے وہ کرنے کی آزادی‘‘ کی طرح کام کر رہی ہے۔
شاہ نے یہ باتیں جنتا پارلیمنٹ ویبنار میں اپنے خطاب کے دوران کیں، جسے سول سوسائٹی کے متعدد گروپوں نے مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا۔
سابق جج کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں حکومت کی کارروائیوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کو منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا ’’2014 کے بعد سے ان اداروں کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
شاہ نے کہا کہ مارچ کے بعد سے پارلیمنٹ ایک ’’بھوت بستی‘‘ بن گیا ہے۔ دی ٹربیون کے مطابق شاہ نے کہا ’’وبائی مرض کے اس بحران کے وقت میں لوگوں کو قیادت فراہم کرنے میں ناکامی کے علاوہ پارلیمنٹ نے ایگزیکیٹو کو آزادانہ لگام دے کر نمائندگی اور جواب دہی کے معاملے کو گھٹا دیا ہے۔ اس کے اقدامات کے بارے میں کوئی سوال اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ ماضی میں پارلیمنٹ نے بالترتیب 1962 اور 1971 میں چین اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی جنگوں کے دوران بھی کام کرنا بند نہیں کیا تھا۔ شاہ نے مزید کہا کہ 2001 میں بھی پارلیمنٹ نے اس کی عمارت پر حملے کے ایک روز بعد ہی اجلاس طلب کیا تھا۔
شاہ نے کہا کہ ہندوستانی پارلیمنٹ نے مارچ میں اپنا بجٹ اجلاس ملتوی کردیا تھا لیکن دوسری قوموں کی پارلیمنٹس نے کورونا وائرس کے خدشات کے باوجود عملی طور پر کام جاری رکھا۔