ہندوتوا انسان دشمن نظریہ

کورونا میں مودی کی کارپوریٹ دوست شبیہ اجاگر

ہرے رام مشرا

 

کورونا نے بھی ہندوتوا کے انسان دشمن ہونے اور مودی کی کارپوریٹ شبیہ کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ ہندوتوا کا پورا فلسفہ بنیادی طور پر کارپوریٹ کا فلسفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ کورونا کے سبب معاشی تباہ کاریوں کا سامنا کر ہے ہیں وہیں نریندر مودی کے خصوصی کارپوریٹ دوستوں کی دولت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری لہر میں وبا سے نمٹنے کے لیے مودی سرکار کی کوششوں کو راہول گاندھی نے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بہت ساری اہم تجاویز بھی دی ہیں۔ اس تجویز میں ملک کا عام آدمی ان کی فکر کا مرکز اور اس ملک کے صحت کے ناقص نظام کو بہتر بنانا تھا۔ پورے کورونا بحران کے دوران راہول گاندھی یہ کہتے رہے کہ وقت رہتے اس ملک کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے تاکہ کورونا جیسی متعدی وبا سے ہونے والا خوفناک جانی، مالی اور معاشی نقصان کم سے کم ہو۔ لیکن نریندر مودی اور ان کے وزراء نے راہول گاندھی کی پیش کردہ اہم تجاویز کو نہ صرف نظر انداز کر دیا بلکہ ان تجاویز کے جواب میں ان کا مذاق اڑایا۔ یہ طاقت کے غرور کی انتہا تھی۔ صرف یہی نہیں، بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے انٹرنیٹ پر ان تجاویز کے خلاف مہم چلاتے ہوئے، بیمار ہندوتوا ذہنیت کے اپنے حامیوں کو ورچوئل ذہنی ٹانک سے مطمئن کر دیا۔ تاہم جب پوری قوت کے ساتھ کورونا کی دوسری لہر ملک میں آئی تو اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا بلکہ راہول گاندھی کے ذریعہ ظاہر کی جانے والی بہت سارے خدشات کو بھی صحیح ثابت کر دیا۔ لوگ آکسیجن اور دوائی کے بغیر سڑکوں پر مرتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ جس سے اس ملک میں صحت کے ناقص نظام کی پول کھلی اور خود بی جے پی سرکار اپنے قدم پیچھے ہٹانےپر مجبور ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے اس ملک میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ ان میں سے بیشتر کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی کہیے کہ انہیں صرف اس لیے نہیں بچایا جا سکا کہ نریندر مودی حکومت اپنی شبیہ بنانے میں اس قدر مصروف تھی کہ اس بحران میں اس نے عام لوگوں کے جانوں کی پروا نہیں کی۔ یہ خیال عام ہے کہ مودی حکومت کے خراب نظام صحت کے سبب اس ملک میں لاکھوں لوگ کورونا کی وجہ سے مر گئے اور حکومت اپنی بد انتطامی کی وجہ سے ان کو نہیں بچا سکی۔
نریندر مودی ایک بہت ہی نااہل وزیر اعظم ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو وقت رہنے کے باوجود، کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے نریندر مودی حکومت کی ناقص تیاریوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بہت نااہل وزیر اعظم ہیں۔ وہ ایسے وزیر اعظم ہیں جن کی نظر میں عوام اور اس ملک کے صحت عامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے لیے ہندوتوا کی تفرقہ انگیز سیاست اور کارپوریٹ کا فائدہ اہم ہے۔ ان کے نزدیک اپنی ذاتی شبیہ کو بہتر بنانا اولین ترجیح ہے جبکہ عوام اور ان کی بھلائی ثانوی حیثیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کو ان لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے جو کورونا کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ حکومت کے لیے گویا یہ اموات کوئی بڑی بات نہیں ہیں۔ اور آج جب کورونا سے پیدا ہونے والی پریشانی کی وجہ سے چاروں طرف خوفناک مایوسی کا ماحول ہے، جس سے لگتا ہے کہ راہول گاندھی کی تمام پیش گوئیاں آہستہ آہستہ درست ثابت ہو رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر نریندر مودی کی بجائے راہول گاندھی اقتدار میں ہوتے تو حکومت کورونا کے ساتھ بہتر طور پر نمٹنے کے قابل ہوتی۔
در حقیقت کورونا کے پیچھے مودی حکومت کی ناکامی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ہندوتوا کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا۔ ہندوتوا کے پورے فلسفہ میں عام لوگوں اور ان کی خوشی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندوتوا کا پورا فلسفہ بنیادی طور پر کارپوریٹ کا فلسفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کورونا کے ذریعہ لوگ برباد ہو رہے تھے تب نریندر مودی کے خصوصی کارپوریٹ دوستوں کی دولت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
در حقیقت جب اس فلسفے میں عام لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو پھر کارپوریٹ کو مثالی ماننے والی مودی سرکار سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ عام لوگوں کی صحت کی فکر کرے گی؟ کیا یہ عام لوگوں کو ایک بہتر نظام صحت فراہم کراسکے گی؟
مودی کی کارپوریٹ شبیہ بے نقاب
اہم بات یہ ہے کہ راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس اس ’ہندوتوا‘ کو مکمل طور پر مسترد کرنے اور اس کے خلاف ایک متبادل ڈھانچہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ راہول گاندھی اس ملک کو فاشسٹ ہندوتوا کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ راہول گاندھی کی طرف سے کورونا سے نمٹنے کے لیے مرکزی حکومت کو دی گئی تمام تجاویز عام آدمی کے حق میں تھیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نریندر مودی سے زیادہ راہول گاندھی میں انسانیت ہے، وہ ہندوستان جیسے ملک کے لیے بہتر سیاست داں ہیں۔
یہاں ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ کوئی بھی علاقائی سیاسی جماعت نریندر مودی حکومت کے خلاف متبادل کے طور پر سامنے نہیں آسکتی ہے۔ صرف کانگریس ہی نریندر مودی کا مقابلہ کرسکتی ہے کیونکہ اس کی ہندوتوا کے خلاف قابل فخر میراث ہے اور یہی ورثہ اسے عام لوگوں سے جوڑتا ہے۔
راہول گاندھی نے کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے جو تجاویز مودی حکومت کو دی تھیں اس کا محور اس ملک کا عام آدمی ہے۔ ان تجاویز میں بھی کانگریس کی یہی وراثت کار فرما ہے۔ یہ مودی حکومت کی ناکامی ہے کہ اس نے ان مشوروں کو نظر انداز کر دیا اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہول گاندھی مودی سے بہتر آپشن ہیں۔ کورونا دور میں ہندوستان کے عوام کے سامنے ایک اہم سیاسی سچائی سامنے آچکی ہے۔
(مضمون نگار، مصنف، فری لانس جرنلسٹ اور آرٹی ائی ایکٹیوسٹ ہیں۔ یہ ان کے نجی خیالات ہیں جن سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
***

بچوں کی صحت اور وبا کے پھیلاو کے مدنظر اسکولوں کی بندش نے بچوں کی تعلیم وتربیت کی زائد ذمہ داری والدین پر عائد کردی ہے۔اگر والدین وبا اور دیگر مسائل کا بہانہ کرتے ہوئے بچوں کی تعلیم سے پہلو تہی کریں گے تواس کے نقصانات کا خمیازہ ان کی اولاد کو بھگتنا پڑے گا۔آن لائن تعلیم سے بچوں کو مربوط کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ والدین ہوم اسکولنگ کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے بچوں کے تعلیمی نقصان کی پابجائی کریں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021