ہاتھرس: علی گڑھ میڈیکل کالج کے سی ایم او نے کہا زیادتی کے ثبوت سے انکار کرنے والی ایف ایس ایل کی رپورٹ 11 دن پرانے نمونے پر مبنی، اس کی کوئی اہمیت نہیں
علی گڑھ، اکتوبر 5: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کے چیف میڈیکل آفیسر نے، جہاں 19 سالہ ہاتھرس کی متاثرہ دو ہفتوں تک داخل تھی، دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے کہ ایف ایس ایل کی وہ رپورٹ جس کی بنیاد پر اترپردیش پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی عصمت دری نہیں کی گئی تھی، ’’کوئی اہمیت نہیں رکھتی‘‘۔
ڈاکٹر عظیم ملک نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’’عورت کے ساتھ مبینہ زیادتی کے 11 دن بعد جانچ کے لیے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے، جب کہ حکومتی رہنما خطوط میں سختی سے کہا گیا ہے کہ فارنسک ثبوت واقعے کے 96 گھنٹے کے اندر ہی مل سکتے ہیں۔ لہذا یہ رپورٹ اس واقعے میں عصمت دری کی تصدیق نہیں کرسکتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ متاثرہ دلت خاتون پر 14 ستمبر کو چار اعلی ذات کے مردوں نے مبینہ طور پر حملہ کیا تھا اور وہ 22 ستمبر کو اے ایم یو اسپتال میں ہوش میں آنے کے بعد مبینہ جنسی زیادتی کی تفصیلات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
مجسٹریٹ کے سامنے اس کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد پولیس نے ایف آئی آر میں عصمت دری سے متعلقہ دفعات شامل کی تھیں۔
اس کے بیان کے بعد اس کے نمونے فارنسک سائنس لیبارٹری کو بھیجے گئے، جنھوں نے اسے حملے کے 11 دن بعد 25 ستمبر کو وصول کیا۔ ایف ایس ایل کی رپورٹ اسی پر مبنی ہے جس کی بنیاد پر یوپی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ اس عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی ہے۔
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہا تھا ’’ایف ایس ایل (فارنسک سائنس لیبارٹری) کی رپورٹ کے مطابق نمونے میں زیادتی کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موت کی وجہ حملہ کے نتیجے میں ہوا صدمہ ہے۔ عہدیداروں کے بیانات کے باوجود میڈیا میں کچھ غلط معلومات کی تشہیر کی گئی۔‘‘
جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کے ریذیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر حمزہ ملک نے بھی ایف ایس ایل کی رپورٹ کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا ’’11 دن بعد ایف ایس ایل کی ٹیم کو عصمت دری کے ثبوت کیسے ملیں گے؟ نطفہ 2-3 دن کے بعد بھی زندہ نہیں رہتا ہے۔‘‘