گھر کی اصلاح کیسے ؟
مولانا ابو سلیم محمد عبدالحئی ؒ
رسموں کی مخالفت
آپ کو اپنے گھروں میں زیادہ تر رسمیں ایسی دکھائی دیں گی جو یوں دیکھنے میں تو کچھ غلط معلوم نہیں ہوتیں لیکن ان سے جو نتیجے نکلتے ہیں وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہوتے ہیں۔ مثلاً اس میں بظاہر کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کہ آپ اپنے سمدھیانے میں کسی خاص موقع پر مٹھائی یا کپڑے یا ایسے ہی دوسرے تحفے بھیجیں کسی کے گھر تحفہ بھیجنا کوئی بری بات نہیں۔ اس قسم کی بہت سی رسمیں آپ کے گھروں میں پائی جاتی ہیں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان میں اسلام کے خلاف کون سی بات ہے۔ مگر ان تمام رسموں میں برائی یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی بات اسلام کے خلاف پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً ان رسموں کے پورا کرنے میں جو رقم صرف کی جاتی ہے وہ اکثر خرچ کرنے والے کی حیثیت اور گنجائش سے زیادہ ہوجاتی ہے یا جو تحفہ بھیجا جاتا ہے وہ تحفے کی حد سے کہیں بڑھ جاتا ہے اور اس طرح رسم کے پورا کرنے سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کو فضول ضایع کرنے کا گناہ اپنے سر آ جاتا ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ فضول خرچ کرنے والے کو اللہ نے شیطان کا بھائی کہا ہے۔ دوسری خرابی جو کسی نہ کسی صورت میں ان رسموں میں ضرور ہی پیدا ہوجاتی ہے وہ ’’ریا‘‘ ہے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ دکھاوے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد سوائے نام اور نمود کے کچھ نہیں ہوتا۔ تحفہ بھیجنے کے لیے جس خلوص اور محبت کی ضرورت ہے وہ نہیں ہوتا بلکہ برادری کا دباو اور ناک کٹنے کا ڈر یہ سب کچھ کراتا ہے اور اس طرح یہ رسمیں بہت سی خرابیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ ریا کی وجہ سے بہت سے ایسے کام بھی جو دیکھنے میں نیکی کے کام معلوم ہوتے ہیں، شرک کے کام بن جاتے ہیں۔ مسلمان کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی خوشی کے علاوہ دوسروں کے خوف سے کوئی کام کرے، اللہ کی مرضی کو چھوڑ کر برادری کے نام و نمود کی خاطر کچھ کرے۔ ان خرابیوں کے علاوہ اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جو صرف ان رسموں کی پابندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ کبھی ان کی بدولت وہ سرمایہ ختم ہو جاتا ہے جو کسی آڑ ے وقت آپ کے کام آ سکتا تھا اور آپ کو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ کبھی ان رسموں کے پیچھے موتیٰ کا ترکہ وارثوں میں تقسیم سے پہلے ہی صرف ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ دوسرے حقداروں کا حق بھی مارا جاتا ہے۔ غرض آپ اگر خود غور کریں گی تو آسانی سے سمجھ میں آجائے گا کہ ان رسموں کی خاطر جو دیکھنے میں بڑی معصوم سی نظر آتی ہیں کتنی ہی خلافِ اسلام باتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے اور اللہ کی اس نعمت سے جو اس کی خوشنودی کے لیے صرف ہونا چاہیے تھی اس کی ناخوشی اور ناراضی کے مول لینے کا انتظام خود اپنے ہاتھوں کیا جاتا ہے۔
ایسی تمام رسموں کے بارے میں آپ کا اپنا رویہ یہی ہونا چاہیے کہ آپ انہیں ہرگز نہ کریں۔ اپنے اندر اتنی جرات پیدا کیجیے کہ آپ لوگوں کی پروا کیے بغیر وہ کام کرسکیں جسے آپ ٹھیک سمجھتی ہیں۔ لیکن ان رسموں کا بھی ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق دوسروں سے ہے۔ مثلاً آپ خود تو کوئی اس قسم کی رسم نہیں کرتیں لیکن دوسرے آپ کے ساتھ رسموں کو برتتے ہیں۔ ایسی تمام صورتوں میں آپ پوری کوشش کریں کہ جن لوگوں سے آپ کا واسطہ پڑ رہا ہے انہیں اچھی طرح سمجھائیں اور پوری کوشش کریں کہ وہ ان فضولیات سے دور رہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اگر آپ کوئی نیا تعلق قائم کر رہی ہوں تو پہلے اس کا اندازہ کرلیں کہ اس بارے میں کہاں تک آپ کا ساتھ دیا جاسکے گا۔ لیکن اگر واسطہ کرنا ہی پڑ جائے یا تعلق ایسا ہو جو پہلے سے قائم ہو اور مناسب طریقے پر آپ کے سمجھانے اور بتانے سے بھی کوئی اصلاح نہ ہو تو پھر آپ پھر برداشت کرلیں اور اس موقع پر کچھ زیادہ سختی دکھانے کے بجائے یہ کوشش کریں کہ ایسے لوگوں کو پوری بات سمجھا کر ان کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی قدر و منزلت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
برداشت کرلینے کا مطلب یہ ہے اگر کوئی اس قسم کا تحفہ آپ کے یہاں بھیجا جارہا ہے اور آپ کے روکنے سے بھی وہ نہیں رکتا تو پھر اسے آنے دیں لیکن اس کے بعد نہ تو آپ جواب میں کوئی تحفہ بھیجیں اور نہ اس تحفے کےساتھ وہ برتاؤ کریں جو عام طور پر کیا جاتا ہے۔ مثلاً اسے تمام برادری میں بانٹنا یا گھر گھر دکھانا وغیرہ۔ یہ مشورہ ایک قسم کی رسموں کے بدلے میں ہے۔ اسی پر قیاس کر کے رسموں کے بارے میں آپ خود فیصلہ کر سکتی ہیں کہ آپ کا رویہ اس بارے میں کیا ہو؟
یہ رسمیں کچھ اس طرح جڑ پکڑ گئی ہیں کہ ان کا ایک دم دور کرادینا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے دل میں ایمان کو تازہ کیجیے جس کے ہوتے مسلمان اللہ کی مرضی اور رسول کے حکم کے خلاف ہر کام کرنے سے اس طرح بچنے لگتا ہے جس طرح انسان آگ سے بچتا ہے اور یہ کام اتنا آسان نہیں کہ آپ محض کچھ رسموں کے بارے میں تقریر کرکے یا ان کی برائی بیان کرکے اسے پورا کرسکیں اس کے لیے آپ کو مسلسل کوشش کرنا پڑے گی اور مرض کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ علاج کرنا ہوگا۔
نئی تہذیب کا مقابلہ
گھروں کی اصلاح کے سلسلہ میں اس پرانی جاہلیت کے ساتھ ساتھ آپ کو کچھ نئی قسم کی جاہلیت کا بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔ بہت سے گھرانے ایسے ملیں گے جہاں ان رسموں کا قلع قمع تو پہلے ہی ہوچکا ہے مگر اس خیال سے نہیں کہ یہ اسلام کے خلاف تھیں بلکہ اس خیال کہ وہ اس نئی روشنی کے خلاف تھیں جسے قبول کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ اس پرانی جاہلیت کے بدلے ان گھروں میں نئی جاہلیت گھس آئی ہے آپ کو اپنے گھروں کی اصلاح کی خاطر اس نئی تہذیب کا مقابلہ بھی کرنا پڑے گا۔
زینت و آرایش اگرچہ عورت کا حق ہے لیکن اس کی بھی کچھ حدود ہیں جب یہ حد سے بڑھ کر محض خود نمائی اور فضول خرچی کا مرکب بن جائے تو اسلام اسے گوارا نہیں کرتا۔ اسی طرح اسلام نے لباس کے بارے میں کچھ پابندیاں عائد کی ہیں۔ مسلمان کی نظر میں اسلام کے سب احکام قابل احترام ہیں۔ فیشن اور رواج کی پابندی میں آپ ان احکام میں سے کسی کو بھی پس پشت نہیں ڈال سکتیں۔ مغربی تہذیب کے اثر نے آج کل معاشرت میں بہت سی ایسی چیزیں داخل کردی ہیں جو فضول خرچی اور ریا کی تعریف میں آتی ہیں۔ ایسی سب باتوں سے آپ کو دور ہی رہنا پڑے گا اور ہر معاملے میں اس اعتدال کو سامنے رکھنا پڑے گا جو اسلام کو مرغوب ہے۔ دیکھیے معاملہ لباس کا ہو یا عام رہن سہن کا، اسلام کو ایک طرف تو انتہائی سلیقہ اور صفائی پسند ہے۔ اسلام طہارت کو ایمان کی پہچان بتاتا ہے لیکن دوسری طرف فضول خرچی، اپنی حیثیت سے زیادہ پاؤں پھیلانا اور دکھاوے کے لیے کچھ کرنا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس اعتبار سے آپ کو اپنے گھر کی اصلاح کی طرف بہت خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ آپ کا گھر، آپ کا لباس ، آپ کا نام رہن سہن نہ تو ایسا ہو کہ آپ کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ ہی نہ لگاسکے کہ آپ انتہائی بد سلیقہ، پھوہڑ، اور بدذوق واقع ہوئی ہیں اور نہ آپ کا رہن سہن ایسا کہ جو آپ کی حیثیت سے اونچا اور اسلام کی ہدایات کے خلاف ہو۔ اس معاملے پر اگر آپ غور کریں گی تو اپنے گھر میں بہت کچھ اصلاح کی گنجایش محسوس کرلیں گی۔ آج کل بہت سے مسلمان گھرں کی ایک لعنت تصاویر ’ریڈیو، ٹی وی، گندہ لٹریچر اور سینما کا شوق ہے۔ اس بارے میں آپ کے سامنے اسلامی احکام رہنا چاہیں اور آپ کا گھر ان ناپاکیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ ریڈیو اور ٹی وی یوں خود کوئی بری چیز نہیں لیکن گانا اسلام نے حرام کیا ہے اور شکل یہ ہے کہ آج ریڈیو اور ٹی وی کی بدولت اس حرام شغل کو اتنا عام کردیا گیا ہے کہ آج بہت سے لوگوں کو اس کی حرمت کے بارے میں اطمینان نہیں ہوتا۔ برائی جب عام ہوجاتی ہے تو وہ عام لوگوں کی نظر میں برائی نہیں رہتی بلکہ رفتہ رفتہ بھلائی بن جاتی ہے۔ سینما کا مقام اس سے بھی کچھ آگے ہے۔ اپنے گھر کی ناپاکی دور کرنے کے لیے آپ کو ان جیسی سب لعنتوں کو دور کرنا پڑے گا۔ گندے لٹریچر کی لعنت سب سے زیادہ خطرناک ہے یہ وہ زہر ہے جو چپکے ہی چپکے ہمارے سماج کے جسم میں اثر کر رہا ہے۔ اس نے نئی نسلوں کو ذہنی طور پر آوارہ اور عملی طور پر ناکارہ بنا رکھا ہے۔ ایک طرف غیر محتاط اور خدا ناشناس ناشر ہیں جن کے سامنے سوائے اپنے تجارتی نفع کے اور کوئی مقصد نہیں۔ دوسری طرف پبلک کی اخلاقی اصلاح کی ذمہ داری سے بے نیاز حکومت ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے، ہر قسم کی بداخلاقی اور آوارگی پھیلانے والا لٹریچر دھڑا دھڑ شایع ہوتا ہے اور آرٹ اور ادب کی سرپرستی کے نام پر حکومت قانون بالکل مجبور ہے اس گندے سیلاب پر کوئی بند بندھ سکے۔ ان سب چیزوں نے مل کر پڑھنے والوں کا ذوق بھی اس درجہ خراب کردیا ہے کہ وہ اسی قسم کی چیزیں طلب کرتے ہیں۔ ادھر طلب موجود ہے ادھر اس طلب کو پورا کرنے کے لیے کمانے والے ناشر ہیں۔ اس صورت حال نے سماج کی اخلاقی زندگی کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ کوئی گھر ایسا نہیں جو اس زہریلی فضا سے متاثر نہ رہا ہو۔ بے شمار رسالے ہزاروں ناول اور کتابیں غرض یہ کہ ایک طوفان ہے جو چہار طرف سے اٹھ رہا ہے۔ گھریلو اصلاح کے لیے آپ کو بڑی توجہ اور کوشش سے اپنے گھروں کو اس گندگی سے دور رکھنا ہوگا۔