گجرات یونیورسٹی سے سلمیٰ قریشی نے سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی

’’زبانوں کی بنیاد پر نفرت نہیں کی جا سکتی‘‘

 

علم حاصل کرنے کی لگن اور جستجو اگر پختہ ہو تو ارادے اپنا راستہ خود متعین کر لیتے ہیں۔ اسی کی مثال قائم کرتے ہوئے گجرات کی مسلمان طالبہ سلمیٰ قریشی نے سنسکرت زبان میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ 26 سالہ سلمیٰ قریشی نے اساتذہ اور طلبا کے درمیان نظم و ضبط کی روایات پر مبنی مضامین کے مطالعہ کا انتخاب کیا۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’پُرانِیشا نِروپِتا سِکھشا پدّھتی ایکّم ادّھیان‘‘ ہے۔ سلمیٰ قریشی نے گجرات یونیورسٹی سے ہی 2017میں سنسکرت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے اتل اناگر کی رہنمائی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے۔ بھاؤ نگر کی گجرات یونیورسٹی میں انہوں نے ایم اے کے دوران سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا. اس سے پہلے سلمیٰ قریشی نے سوراشٹر یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا۔ انہیں ڈاکٹریٹیکل ریسرچ میں تین سال لگ گئے۔
سلمیٰ قریشی نے کہا کہ ان کی تحقیق اساتذہ اور شاگردوں کے درمیان تعظیم اور نظم وضبط کی روایات کے موضوع پر ہے جیسا کہ ویدوں، اپنشدوں اور پُرانوں میں دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’میں اسکول میں پڑھتے وقت ہی سنسکرت زبان کی طرف راغب ہوگئی تھی۔ مجھے ویدوں اور پرانوں کا مطالعہ پسند تھا۔ اعلٰی تعلیم کے لیے سنسکرت کے انتخاب پر میرے اہل خاندان کو کوئی اعتراض نہیں تھا‘‘۔ سلمیٰ قریشی نے کہا ’’چونکہ ہندو مذہبی صحیفے سنسکرت میں ہیں، لہٰذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سنسکرت زبان اس مذہب سے وابستہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ زبان کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ طلبا کو آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ جس زبان کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں انہیں اس کا انتخاب کرنے کی سہولت موجود ہو۔ قدیم زمانے میں اساتذہ اور شاگردوں کے درمیان تعظیم کی روایت تھی۔ اس وقت طلبا کو معاشرے میں سب کا احترام کرنا سکھایا جاتا تھا۔ یہ عنصر موجودہ نظام سے غائب ہے۔ میرا خیال ہے کہ سنسکرت لازمی طور پر پڑھنا چاہیے‘‘۔ سلمیٰ قریشی اپنے عزم و جذبہ کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ ’’میں سنسکرت کی استاد بننا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ حکومت کوشش کرے کہ یہ زبان عام لوگوں تک پہنچ سکے‘‘۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020