گجرات پولیس نے تبلیغی جماعت کے بارے میں افواہ پھیلانے والے افراد کو گرفتار کیا، یوپی پولیس نے تبلیغی کارکنوں کے ذریعے بد سلوکی کی اطلاع کی تردید کی
نئی دہلی، اپریل 6— گجرات پولیس نے دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد لوگوں سے مسلمانوں کے معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے نفرت انگیز مہم چلانے کے سلسلے میں تقریباً سات افراد کو گرفتار کیا ہے، جب کہ اتر پردیش پولیس نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کردیا ہے، جن میں تبلیغی جماعت کے کارکنوں پر عملہ کے ممبروں اور دیگر افراد کے ساتھ اسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں بدسلوکی کرنے کا الزم لگایا گیا تھا۔ وہیں دہلی میں تبلیغی جماعت سے وابستہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے COVID-19 کا مثبت تجربہ کیا ہے۔
گجرات کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شیوانند جھا نے میڈیا سے کہا کہ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں رپین سنگھو (27)، پارس والا (39، ڈرائیور)، جینتی گری (51)، ایک تاجر نیرو مارواڑی (30)، ہریش سنگھ (42)، اماکانت راٹھوڑ (50) اور رتی لال پٹیل (70) شامل ہیں۔
احمد آباد پولیس کمشنر اشیش بھاٹیا نے متنبہ کیا ہے کہ معاشرتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے والی افواہوں اور غلط پیغامات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انھوں نے اپنے دائرۂ کار میں تمام تھانوں کو سرکلر جاری کیے ہیں تاکہ نفرت انگیز پیغامات کے پھیلانے کے سلسلے میں فوری کارروائی کی جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکا جاسکے۔
وہیں یوپی پولیس نے بتایا کہ تبلیغی جماعت کے ممبروں کے ذریعے قرنطینہ مراکز اور اسپتالوں میں عملے کے ساتھ بد سلوکی کرنے کے بارے میں میڈیا کے ایک حصے میں آنے والی اطلاعات صرف افواہیں تھیں۔ ان کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔
سہارنپور اور بجنور اضلاع میں مقامی اخبارات میں ان خبروں کے نمایاں ہونے کے بعد پولیس کے اعلی عہدیداروں نے مقامی پولیس سے جماعت کے کارکنوں کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ان رپورٹس کو کچھ ٹی وی چینلز نے بھی نشر کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ تفتیش کے دوران تبلیغی کارکنوں کے خلاف کوئی ٹھوس چیز نہیں ملی۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹس صرف افوہیں تھیں۔
سہارنپور پولیس کا کہنا تھا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی جماعت کارکنوں کے ذریعے بد سلوکی کی خبریں بالکل بھی درست نہیں تھیں۔
سہارنپور پولیس نے اپنے سوشل میڈیا سیل کے ذریعہ اعلان کرتے ہوئے کہا ’’رام پور کے تھانہ انچارج منی ہرن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی، ٹی وی چینلز کے ذریعے نشر ہونے والی اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی رپورٹس کی تحقیقات کریں، جن میں تبلیغی جماعت کے کارکنوں کے کھانوں میں نان ویجیج پیش نہ کرنے پر شدید اعتراض مبینہ بدسلوکی کا الزام لگایا گیا ہے۔ تفتیش کے دوران مذکورہ اطلاعات درست نہیں پائی گئیں۔ لہذا سہارنپور پولیس ان خبروں کو مسترد کرتی ہے اور ان کی مذمت کرتی ہے۔‘‘
بجنور پولیس نے بھی سدرشن ٹی وی کے ذریعے نشر ہونے والی ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان واقعات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر سدرشن ٹی وی نے لکھا تھا ’’تبلیغی جماعت کے کارکنوں نے بجنور کے اسپتالوں میں صفائی کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی۔ انھوں نے کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کی توہین کی۔ بجنور پولیس نے وارننگ جاری کرنے کے بعد انھیں فارغ کردیا۔‘‘
تاہم بجنور پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
سہارنپور پولیس نے تبلیغی جماعت کے خلاف خبروں کی اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر "خبر بنام سچ” کے عنوان کے تحت مذمت کی ہے۔
انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک نامور سماجی کارکن مہدی حسن قاسمی، جو دیوبند اسلامک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر بھی ہیں، نے کہا ’’جماعت کے کارکنوں اور ان کے رابطے میں آنے والے کورونا متاثرین کو سہارنپور اور بجنور میں دو مقامات پر قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ وہ تفتیش میں پولیس اور ڈاکٹروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن آج کچھ اخبارات نے بے بنیاد معلومات شائع کرکے ایک خاص برادری کی شبیہہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’جب امر اجالا، ہندوستان اور پتریکا جیسے اخبارات نے جماعت کے کارکنوں کے سلسلے میں جعلی خبریں چلائیں تو ہم نے سہارنپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سے ملاقات کی اور انھیں ان پیش رفتوں سے آگاہ کیا۔ ایس ایس پی نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے متعلقہ پولیس اسٹیشن کو ہدایت دی جو غلط پائے گئے۔‘‘
جب ٹویٹر پر کچھ لوگوں نے پولیس کے انکار کی صداقت جاننے کی کوشش کی تو سہارنپور پولیس نے جماعت کارکنوں پر لگائے گئے الزامات کی سرکاری تردید کی تصدیق کردی۔