ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
پانچ سالوں میں 6 لاکھ سے زائد ہندوستانیوںکا شہریت ترک کرنا لمحہ فکریہ
بگڑتی ہوئی معاشی حالت کے بعد کسانوں کی طرح تاجروں کی خود کشی کے واقعات میں اضافہ
امیت شاہ نے لال کرشن اڈوانی کا ٹکٹ کاٹ کر گاندھی نگر سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی وزیر داخلہ بننے کا سپنا سجارہے ہیں۔ ایل کے اڈوانی بھی پہلے پارٹی کے صدر تھے۔ اس کے بعد وزیر داخلہ اور پھر ڈپٹی وزیر اعظم بنے ۔آگے چل کر رتھ کےاس پہیے کی ہوا سومناتھ سے گجرات کی سرحد تک ساتھ چلنے والے ساتھی نریندر مودی نے نکال دی اور خود وزیر اعظم بن گئے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت ایودھیا جانے والا کوئی بھی رہنما وزیر اعظم نہیں بن سکا اور اب تو وہ نسل کیفرِ کردار کو پہنچ چکی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی ایوان پارلیمان میں ’انٹری‘ بہت دھماکے دار تھی ۔ یکے بعد دیگرے انہوں نے تین طلاق کا قانون ، شہریت کے قانون میں ترمیم (سی اے اے) اور جموں کشمیر کے شق 370 کو منسوخ کرکے اپنی ہیٹ ٹرک پوری کی لیکن اس کے بعد اچانک منظر سے غائب ہوگئے۔ آج کل تو ایوان پارلیمان میں کچھ بولنا تو دور وہ نظر بھی نہیں آتے۔
وزیر داخلہ کو چونکہ انتخابی مہمات سے فرصت نہیں ملتی اس لیے وزارتِ داخلہ سے جو سوالات کیے جاتے ہیں ان کا جواب دینے کی ذمہ داری مرکزی وزیر مملکت برائےامورِ داخلہ نتیانند رائے کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ باعث ِعافیت ہے کیونکہ ابھی حال میں امیت شاہ کی ایک ویڈیو ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہے جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پورے ملک میں بی جے پی کے چھیاسی لاکھ کارکنان سرگرمِ عمل ہیں۔ وہ اس تعداد کو دوہرانے کے بعد انگریزی میں یہ تعداد چھیالیس لاکھ بتاتے ہیں ۔ دو جملوں کے اندر جو شخص چالیس لاکھ کا گھپلا کردے وہ اگر ایوان پارلیمان میں سرکاری اعدادو شمار بتانے لگے تو حکومت کی کیا مٹی پلید ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ نتیانند رائے نے امسال تیس نومبر کو ایوانِ زیریں میں ارکان پارلیمان کو یہ یقین دہانی کرائی کہ حکومت نے شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی) تیار کرنے کی بابت ملک گیر مشق کرنے پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ بات پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران بتائی گئی تھی اور اب سرمائی سیشن میں اسے دہرایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی الحال یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ویسے بینڈ باجے والے میڈیا کی مدد سے کسی معاملہ کو فریج سے نکال کر تنور کے اندر ڈالنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ امیت شاہ کی کرونولوجی میں شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے بھی آتا ہے۔ اس کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے غیر دستاویزی غیر مسلم تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ شہریت کے قانون میں ترمیم کوسمجھنے سے قبل پرانے شہریت کے قانون (1955) کو دیکھ لینا چاہیے ۔ اس قانون کے مطابق شہریت اختیار کرلینے، آباء واجداد کے ہندوستانی ہونے، بذریعہ رجسٹریشن، بھارت میں پیدائش ہونے یا اگر ہندوستان کے کسی علاقے کو اپنی حدود میں شامل کرلینے پر (اس خطے کے باشندے) ہندوستانی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں پر کسی ملک یا مذہب کی تفریق نہیں ہے لیکن بعد والی ترمیم میں اسے پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان کا نام لے کر وہاں کی ستائی جانے والی مذہبی اقلیتوں کے بہانے مسلمانوں کو الگ کردیا گیا۔ پڑوسی ممالک کی فہرست سے نیپال، چین، سری لنکا اور میانمار کو ہٹانے سے وہاں رہنے والے غیر مسلموں کی بھی حق تلفی کی گئی۔ ویسے افغانستان سرحدی اشتراک کے بغیر ہی پڑوسی بن گیا۔
ان ترامیم سے گویا پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش سے داخل ہونے والے ایسے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی تارکین وطن کو جو اکتیس دسمبر 2014 سے قبل بھارت میں داخل ہوئے ہوں شہریت کے لیے رجسٹریشن کی اجازت مل گئی نیز درخواست کنندہ کے لیے ہندوستان میں رہائش کی مدت کو گیارہ برس سے کم کرکے ہانچ سال کردیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قانون کے موجد امیت شاہ نہیں ہیں ۔ سات ستمبر 2015 کو اس سے ملتی جلتی ترامیم ’’پاسپورٹ اینڈ فارنرز ایکٹ‘‘ میں کی گئی تھیں جن میں انہی تین ممالک سے تعلق رکھنے والی مذہبی اقلیتوں کو باقاعدہ دستاویزات کے بغیر بھارت میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس شہریت ترمیمی بل 2016 کے میں لوک سبھا میں پیش کیا گیا تو آسام میں مظاہرے شروع ہو گئے اور کانگریس نے بھی مخالفت کی اس لیے اسے رکن پارلیمان ستیاپال سنگھ کی سربراہی والی مشترکہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ ان کی مرتب کردہ رپورٹ جنوری 2019میں پیش کی گئی لیکن جب امیت شاہ نے کرونولوجی میں این آر سی اور ڈیٹینشن سنٹر کے ساتھ اسے پیش کیا تو ہنگامہ ہوگیا۔
بی جے پی دراصل یہی چاہتی تھی، اسے اس کے سہارے دلی اور مغربی بنگال کا انتخاب جیتنا تھا اس لیے جنوری 2020 میں اپنی غالب اکثریت کی مدد سے یہ قانون منظور کروالیا گیا مگر بعد میں ایسی زبردست مخالفت ہوئی کہ بھگوائیوں کے ہوش اڑ گئے۔ ملک بھر میں قائم ہونے والے شاہین باغ حکمراں جماعت کے لیے عذابِ جان بن گئے نیز دلی ومغربی بنگال دونوں مقامات پر بی جے پی چاروں خانے چت ہو گئی۔ کسان قانون کی واپسی کے بعد کئی مسلم تنظیموں نے سی اے اے اور این آر سی جیسے متنازع قوانین کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مسلمان چونکہ بی جے پی کوووٹ نہیں دیتے اس لیے اس نے اس مطالبے کو حسبِ توقع خارج کر دیا لیکن پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے بلائی جانے میٹنگ میں این ڈی اے کی اتحادی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) کی رہنما اگاتھا سنگما نے سی اے اے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرکے سب کو چونکا دیا۔
میگھالیہ کے تورا لوک سبھا حلقہ سےرکن پارلیمان سنگما نے سرکار سے اپیل کی کہ جس طرح اس نے عوامی جذبات کے مدنظر زرعی قانون پر خط تنسیخ پھیر دی ہے، اسی طرح سی اے اے کو بھی منسوخ کیا جانا چاہیے۔ یہ مطالبہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، پرہلاد جوشی اور پیوش گوئل کی موجودگی میں کیا گیا۔ اس میں شمال مشرقی ہندوستان میں رہنے والے باشندوں کے جذبات کا خیال کرکے سی اے اے کو رد کرنے کی گزارش کی گئی ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا این ڈی اے سے وابستہ نارتھ ایسٹ کی دیگر پارٹیوں کا بھی یہ مطالبہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مانگ ان کی اپنی پارٹی اور شمال مشرق کے لوگوں کی طرف سے کی گئی ہے۔ وہ ایسی دیگر پارٹیوں کو بھی جانتی ہیں جن کا یہی نظریہ ہے۔ حال ہی میں آسام کی کئی تنظیموں نے بھی کہا تھا کہ کسانوں کی ایک سال سے زیادہ لمبی تحریک نے سی اے اے مخالف تحریک کو پھر سے شروع کرنے کے لیے نیا حوصلہ عطا کیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ملک کے مسلمانوں نے جس مسئلہ کی جانب قوم کی توجہ مبذول کرائی اب وہ بات دیگر طبقات کی جانب سے بھی پیش کی جا رہی ہے۔
یہ تو خیر سکّے کا سیاسی پہلو ہے لیکن اس کا جو حقیقی روپ نتیانند رائے نے ایوانِ پارلیمان میں پیش کیا وہ کم چونکانے والا نہیں ہے۔ حالیہ پارلیمانی اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ پچھلے پانچ سالوں کی مدت میں جملہ 10,645 لوگوں نے ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی۔ ان میں سے صرف 4,177 افراد ہندوستانی شہریت حاصل کر سکے یعنی ساٹھ فیصد محروم رہے۔ کیا وزیر داخلہ کو اس کی وضاحت نہیں کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اب اگر سالانہ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2016 میں 1,106، 2017 میں 817، 2018 میں 628، 2019 میں 987 اور 2020 میں 639 لوگوں کو شہریت سے نوازا گیا۔ یعنی 2016 کے مقابلے اس تعداد میں اچھی خاصی کمی آئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئندہ ماہ اس متنازع قانون کو منظور ہوئے دو سال ہو جائیں گے لیکن ابھی تک اس کے نفاذ کی خاطر اصول و ضوابط مرتب نہیں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار یا تو اس بابت سنجیدہ نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ایسے میں قانون بناکر شور شرابہ کرنا اور اس کو نافذ کرنے کی اہلیت نہ رکھنا اس شعر کی یاد دلاتا ہے؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
ایوانِ پارلیمان کے مانسون اجلاس میں وزیر موصوف نے ان ضوابط کو مرتب کرنے کی خاطر جنوری 2022 تک کی توسیع طلب کی تھی اور یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ پانچویں بار ہوا تھا ۔ پارلیمانی روایت کے مطابق چھ ماہ کے اندر اصول و ضوابط مرتب ہوجانے چاہئیں لیکن اس پپو سے یہ ہو نہیں پا رہا ہے کیونکہ تقریر کرنا کام کرنے سے خاصا مشکل ہوتا ہے اس لیے بار بار صدر مملکت سے توسیع کرانے کی فریاد کرنی پڑتی ہے۔ مذکورہ قانون میں ترمیم کے بعد شہریت حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے بجائے کمی اس بات کا ثبوت ہےکہ قانون میں ترمیم کا مقصد کسی مظلوم کوتحفظ یا شہریت دینا نہیں بلکہ سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس بنگلا دیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے مفلوک الحال مظلوم ہندووں کو شہریت دینا مقصود ہے تو درخواست کنندگان میں ان کی تعداد سب سے کم ہے۔ اگر یقین نہیں ہوتا ہو تو یہ سرکاری اعدادو شمار دیکھ لیں۔ ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دینے والوں میں امریکا کے 227، پاکستان کے 7782، افغانستان کے 795 اور بنگلہ دیش کے صرف 184 شہری ہیں۔
سرکاری مگر مچھ کے آنسو کورونا کی وباء کے دوران بھی نظر آئے۔ ملک میں لاک ڈاون لگنے کے بعد راجستھان میں رہنے والے پاکستانی تارکین وطن ہندووں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ مادھو شرما کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ہندوؤں کی شہریت کے موضوع پر کام کرنے والی تنظیم سیمانت لوک سنگٹھن کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں سی اے اے پر سیاست تو بہت ہوئی مگر لاک ڈاون جیسے مشکل حالات میں اس سیاست کا تھوڑا بہت کام بھی ان کے فلاح وبہبود کی خاطر کیا جاتا تو ہزاروں پاک پناہ گزینوں کا بھلا ہوجاتا۔ شہریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی سماجی تحفظ کے منصوبوں سے مستفید نہیں ہو پاتے ہیں۔ مذکورہ تنظیم کے مطابق راجستھان میں پاکستان سے آنے والے تقریباً چھ ہزار خاندان ہیں اور ان کی آبادی تیس تا پینتیس ہزار کے درمیان ہے۔ تنظیم کے مطالبہ پر وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے پناہ گزینوں کو راشن فراہم کرانے کا حکم تو دیا مگر بہت کم لوگوں تک وہ پہنچ سکا مثلاً جیسلمیر کے دو ہزار تین سو میں صرف چار سو پچاس خاندانوں تک امداد پہنچی۔
یہ تو خیر وہ لوگ ہیں جو دیگر ممالک کو چھوڑ کر ہندوستان آنا چاہتے ہیں مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ اسی عرصہ یعنی پچھلے پانچ سالوں میں چھ لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں نے اپنی شہریت ترک کردی۔ یعنی مودی جی کے نئے بھارت میں آنے کے خواہشمند تو صرف دس ہزار لوگ ہیں اور بھاگنے والے چھ لاکھ؟ کیا یہ مسئلہ قابلِ غور نہیں ہے۔ مودی جی کا دعویٰ تھا پہلے لوگ ہندوستانی ہونے کو پچھلے جنم کا پاپ کہہ کر شرمندہ ہوتے تھے اب فخر کے ساتھ لوٹ رہے ہیں لیکن یہ صرف تقریر کی حدتک ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ نتیانند رائے کے انکشاف کو سالانہ طور پر دیکھیں تو 2017 میں 1,33,049، 2018 میں 1,34,561، 2019 میں 1,44,017، 2020 میں 85,248 اور 30 ستمبر 2021 تک 1,11,287 نے اپنی شہریت ترک کی تھی۔ ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017 سے 2019 تک اس تعداد میں معمولی سہی اضافہ ہوتا رہا لیکن 2020 کے اندر چونکہ کورونا کی وبا کے سبب آمدورفت بند ہوگئی تھی اس میں کمی آئی ہے۔ اب 2021 کے نو مہینوں کی تعداد دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اس سال پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔
بنگلا دیش کے بارے میں حقارت سے کہنے والے وزیر داخلہ کو کہ وہاں کھانے کو نہیں ملتا اس لیے لوگ ہندوستان میں در اندازی کرتے ہیں یہ معلوم کر کے دکھ ہو گا کہ وزارت خارجہ کے مطابق ایک کروڑ 33 لاکھ 83 ہزار 718 ہندوستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ سوال یہ ہے اتنی بڑی تعداد اس ملک سے باہر کیوں چلی گئی؟ امیت شاہ کو دوسروں پر طنز کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2018 کے درمیان تیئیس ہزار کروڑ پتی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ 2015 میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف چار ہزار تھی جو 2016 میں بڑھ کر چھ ہزار ہوگئی 2017 میں اس میں مزید اضافہ ہوا اور وہ سات ہزار پر پہنچ گئی۔ یہ امیر کبیر لوگ 6.5 کروڑ سے زیادہ دھن دولت کے مالک تھے پھر بھی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان میں وزیر اعظم کے چہیتے میہول چوکسی اور نیرو مودی بھی شامل ہیں جن کی واپسی کی خبریں سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے اور جیل میں ان کے کمرے کی تصاویر دیکھتے دیکھتے آنکھ میں موتیا بندپڑ گیا۔
وزیر اعظم بیرون ممالک بسنے والے ہندوستانیوں پر خوب فخر جتاتے ہیں مگر وہ ملک کے لیے کس طرح مہنگے پڑ سکتے ہیں اس کا مظاہرہ حالیہ نیوزی لینڈ اور ہندوستان کے درمیان ٹسٹ میچ کی سیریز میں ہوا۔ نیوزی لینڈ کے گیند باز اعجاز پٹیل فی الحال اپنی جنم بھومی ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں ہندوستان کے خلاف کھیل رہے ہیں ۔ یہاں پر انہوں نے دوسرے ٹسٹ کی ایک اننگ کے تمام دس وکٹ حاصل کر کے انل کمبلے اور جیم لیکر کے ریکارڈ کی برابری کرلی۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ یہ وہی اعجاز پٹیل ہے جس نے ایک اور ہندوستانی رچن رویندر کے ساتھ مل کر ہندوستانی ٹیم کو پہلے ٹسٹ میچ میں کامیابی سے محروم کر دیا تھا جبکہ نیوزی لینڈ کے نو وکٹ گرچکے تھے اور میچ تقریباً ہندوستان کے پالے میں آگر اتھا۔ ایسے میں یہ دونوں ہندوستانی نژاد کھلاڑی دیوار بن کر ڈٹ گئے اور نتیجہ برابری پر چھوٹ گیا جبکہ جام بالکل ہونٹوں تک آچکا تھا ۔
شہریت ترک کرنے کی وجہ معاشی ابتری بھی ہے۔ کورونا وبا کے دوران مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے معاشی خوشحالی کے لیے لاکھوں کروڑ کے پیکیج کا اعلان کیا اس کے باوجود سرکار کے مطابق 2020ء میں 11716 کاروباریوں نے خودکشی کر لی۔ یہ تعداد 2019 میں 9052 تھی یعنی گزشتہ سال کے مقابلہ یہ انتیس فیصد کا اضافہ معمولی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے۔ ایک طرف مودی جی کے چہیتے اڈانی کی آمدنی میں یومیہ ایک ہزار کروڑ سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے اور دوسری طرف ہر روز بتیس تاجر خودکشی کرتے ہیں۔ ملک میں پہلے کسانوں کے اندر خود کشی کی وارداتیں زیادہ ہوتی تھیں مگر معاشی تناؤ اور بحران کے سبب تاجروں نے ان پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ 2015 سے موازنہ کریں تو اس وقت ایک کاروباری پر 1.44 کسان خودکشی کرتا تھا لیکن 2020 میں ہر کسان پر 1.01 کاروباری نے خود کشی کی ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں 10677 کسانوں نے بھی خود کشی کی مگر یہ تعداد تاجروں سے کم ہے۔ ظاہر ہے ان میں چھوٹے کاروباریوں کی اکثریت ہو گی۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہر میں لوگوں پر اور بھی زیادہ اثر پڑا ہے۔ ایسے میں 2021 کی صورتحال بھی اسی طرح کی ہو سکتی ہے۔
ملک میں خودکشی کے واقعات صرف کسانوں اور تاجروں تک محدود نہیں ہیں۔ اسی ہفتہ جموں وکشمیر کے بانہال علاقے میں ایک فوجی جوان نے مبینہ طور پر اپنی ہی سروس رائفل سےخود کشی کر لی۔ متوفی جوان کی شناخت تیج پال سنگھ کی حیثیت سے ہوئی جو چملواس آرمی کیمپ میں تعینات تھا۔ جموں وکشمیر کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کی وجہ سخت ڈیوٹی، اپنے عزیز واقارب سے دوری اور گھریلو وذاتی پریشانیاں ہیں۔ حکومت نے اگرچہ سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے یوگا اور دیگر نفسیاتی ورزشوں کو لازمی قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود جموں وکشمیر میں جوانوں کی خودکشی کے واقعات گھٹنے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2010 سے 2019 تک ملک میں 1113 فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے مشتبہ واقعات درج کیے گئے۔ اس لیے وزیر اعظم کو فوجیوں کے ساتھ دیوالی منانے اور تصاویر کھچوانے کے بجائے ان کے فلاح وبہبود کی خاطر سنجیدہ ہونا چاہیے۔ یہ سنجیدگی نہ صرف فوجیوں کے تئیں بلکہ ملک کے سارے دبے کچلے لوگوں کے لیے ہونی چاہیے لیکن بد قسمتی سے یہ سرکار انتخاب کے سوا کسی اور معاملے میں یکسو نہیں ہے اور پوری قوم اس کی بہت بڑی قیمت ادا کر رہی ہے۔
***
***
بنگلا دیش کے بارے میں حقارت سے کہنے والے وزیر داخلہ کو کہ وہاں کھانے کو نہیں ملتا اس لیے لوگ ہندوستان میں در اندازی کرتے ہیں یہ معلوم کر کے دکھ ہو گا کہ وزارت خارجہ کے مطابق ایک کروڑ 33 لاکھ 83 ہزار 718 ہندوستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ سوال یہ ہے اتنی بڑی تعداد اس ملک سے باہر کیوں چلی گئی؟ امیت شاہ کو دوسروں پر طنز کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2018 کے درمیان تیئیس ہزار کروڑ پتی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ 2015 میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف چار ہزار تھی جو 2016 میں بڑھ کر چھ ہزار ہوگئی 2017 میں اس میں مزید اضافہ ہوا اور وہ سات ہزار پر پہنچ گئی۔ یہ امیر کبیر لوگ 6.5 کروڑ سے زیادہ دھن دولت کے مالک تھے پھر بھی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان میں وزیر اعظم کے چہیتے میہول چوکسی اور نیرو مودی بھی شامل ہیں جن کی واپسی کی خبریں سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے اور جیل میں ان کے کمرے کی تصاویر دیکھتے دیکھتے آنکھ میں موتیا بندپڑ گیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021