کیا ملک کو پھرنفرت کی آگ میں جھونکنے کی تیاری ہے؟
مدھیہ پردیش فساد متاثرین میں خوف کا ماحول انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگرم
دعوت نیوز دلی بیورو
رام مندر تعمیر کے چندے کے نام پر مدھیہ پردیش میں نکالے گئے جلوسوں کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں، مسجدوں اور عیدگاہوں کو نشانہ بنانے کے کئی معاملے سامنے آنے کے بعد سماجی تنظیم یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن میں اس پورے معاملے کی دو الگ الگ شکایات پیش کی ہیں۔ ساتھ ہی اس معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی ممبر ندیم خان نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پورے معاملے کی آزادانہ و منصفانہ تفتیش کرائی جائے۔ ہم نے اس کی عدالتی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ہمارا سوال ہے کہ جب ملک میں کوویڈ گائڈلائنس نافذ ہوں تو ایسے میں بغیر کسی اجازت کے جلوس یا ریلیاں کیسے نکل رہی ہیں؟ اور جب پہلی ریلی یا جلوس کے نکلنے کے ساتھ تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا تو پھر آگے ان ریلیوں کے نکلنے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟ ان جلوسوں کے ذریعے جن مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان کی ویڈیوز سامنے آچکی ہیں اس کے باوجود بھی انتظامیہ مسلمانوں کے خلاف ہی کارروائی کیوں کر رہی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ ہماری مقامی ٹیم وہاں لگاتار کام کر رہی ہے۔ ایک مقامی کوآرڈینیشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ہم اندور ہائی کورٹ جانے کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
وہیں یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ سے وابستہ اندور کے زید پٹھان نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں بتایا ہے کہ اندور کے آس پاس رہنے والے مسلمان کافی ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ مندسور کے دورانہ گاؤں میں جہاں توڑ پھوڑ ہوئی ہے وہاں کے مسلمان ڈر کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں کے یہاں قیام پر مجبور ہیں۔ بتا دیں کہ یہاں غریب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور زیادہ تر پولٹری فارموں پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے ان کی روزی روٹی ان دنوں پوری طرح سے بند ہے۔
ان کا الزام ہے کہ جن لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں اور مسجدوں میں توڑ پھوڑ کی ہے پولیس نے ان کے اوپر جو دفعات لگائے ہیں وہ بے حد معمولی ہیں چنانچہ ان کو اگلے ہی دن ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ جبکہ فساد سے متاثرین کے خلاف سخت سے سخت دفعات لگائی کر انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف این ایس اے لگایا گیا ہے۔ زیادہ تر جگہوں پر تو پولیس متاثرین کا ایف آئی آر ہی درج نہیں کر رہی ہے۔ پوری انتظامیہ فسادیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ کتنا عجیب معاملہ ہے کہ حملہ مسلمانوں پر ہوا، سارا نقصان مسلمانوں کا ہوا لیکن سب سے زیادہ گرفتار بھی مسلمانوں کو ہی کیا جا رہا ہے۔
زید پٹھان کا کہنا ہے کہ ہم مسلمانوں کو رام مندر کی تعمیر سے کوئی مطلب ہے نہ اس کے نام پر چندہ کرنے والوں سے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ علاقے جہاں پوری کی پوری آبادی مسلمانوں کی ہے، وہاں چندہ جمع کرنے جانے کا کیا مطلب تھا اور ان کے محلوں میں جا کر بھڑکاؤ نعرہ بازی کرنے کا کیا مطلب تھا؟ ریلیوں میں تلوار یا ہتھیار لے کر جانے کا کیا مطلب تھا؟ زید پٹھان نے ایک ڈیلی گیشن کے ساتھ اندور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس یوگیش دیشمکھ سے ملاقات کر کے ایک میمورنڈم سونپا ہے۔ زید پٹھان رضا اکیڈمی، اندور کے صدر بھی ہیں۔
بتا دیں کہ رام مندر کی تعمیر کے چندے کے نام پر نکالی گئی ریلیوں کے بہانے مدھیہ پردیش کے کئی علاقوں میں تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ سب سے پہلے گزشتہ سال ۲۵ دسمبر کو اجین میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا، اس کے بعد اندور میں اس طرح کی کہانی دہرائی گئی۔ یہاں 29 دسمبر کو گوتم پورہ کے نزدیک واقع چندن کھیڑی گاؤں میں نہ صرف مسجد کی میناریں توڑی گئیں بلکہ مسلمانوں کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے۔ کئی دکانوں اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ وہیں تشدد کے اگلے دن خود پولیس والوں نے درجنوں گھروں کو گرا دیا۔ اس کارروائی کے پیچھے ان کا کہنا ہے کہ ایسا سڑک چوڑا کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ مندسور میں بھی ایسی ہی کہانی دیکھنے کو ملی۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس پورے معاملے میں حزب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیاں خاموش ہیں۔
مدھیہ پردیش انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ریلیوں پر ایک خاص طبقہ کے لوگوں کے ذریعے پتھر بازی کے نتیجہ میں تشدد پیدا ہوا۔ اسی لئے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے پچھلے دنوں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک سخت قانون تیار کیا ہے جو قانون پتھر بازوں کے خلاف صوبہ میں جلد ہی نافذ کیا جائے گا۔
مدھیہ پردیش میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر مسجدوں کے باہر ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرنے کا مطلب کیا تھا؟
پورے ملک میں چلے گی چندہ مانگنے کی مہم
رام مندر کی تعمیر کے نام پر وشو ہندو پریشد کی چندہ مانگنے کی یہ مہم پورے ملک میں ۱۵ جنوری سے شروع ہو کر ۲۷ فروری تک چلے گی۔ اس مہم میں بی جے پی کے تمام لیڈر مدد کریں گے۔ ان کا ہدف ملک کے ۶ لاکھ گاؤوں میں ۱۴ کروڑ ہندو پریواروں تک پہونچنے کا ہے۔ ان تمام لوگوں سے وشو ہندو پریشد و بی جے پی کے نیتا چندہ مانگیں گے۔ وشو ہندو پریشد کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو مسلمان بھگوان رام کو ’امام ہند‘ مانتے ہیں، وہ بھی رام مندر کی تعمیر کے لیے چندہ دے سکتے ہیں۔ وہیں اتر پردیش میں رام مندر تعمیر کے نام پر چندہ جمع کرنے کی یہ مہم پورے ۴۲ دنوں کے لئے چلانے کی تیاری ہے۔
یہ سب کچھ ٹھیک ویسا ہی ہے، جیسا ۱۹۹۰ کے دور میں ہوا تھا۔ اس وقت بھی چندہ وصولی کے لئے وشو ہندو پریشد اور بی جے پی لیڈروں نے گاؤں گاؤں ریلیاں نکالیں اور بھڑکاؤ نعروں سے ملک میں نفرت کا ایک ماحول بنایا تھا۔ اس وقت بھی رام مندر تعمیر کی نام پر کروڑوں روپے جمع کیے گئے تھے، جس کا کوئی حساب آج تک کسی نے نہیں دیا کہ آخر اتنی بڑی رقم کا کیا ہوا؟ غور طلب بات ہے کہ اس دور میں مندر آندولن سے جڑے کئی سنت اور بالخصوص وشو ہندو پریشد کے ایک اہم لیڈر پروین توگڑیا تو باضابطہ طور پر اس چندے میں گھپلے کا الزام بھی لگا چکے ہیں۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا ایک بار پھر وشو ہندو پریشد اور بی جے پی رام مندر تعمیر کی چندے کے نام پر ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش میں ہیں؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں ریلی نکال کر چندہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی۔ جس طرح کوویڈ کے دور میں لاکھوں کروڑوں روپوں کا چندہ پی ایم کیئرس فنڈ میں جمع ہوا، کیا اسی طرح رام مندر تعمیر کے لئے یہ جماعتیں اپنا اکاؤنٹ پورے ملک کے لوگوں کے لئے نہیں کھول سکتیں؟
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021