کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

آروگیا سیتو ایپ کا تخلیق کار کون ہے؟خود حکومت کو پتہ نہیں!!

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

 

سورو داس کی دائر کردہ شکایت میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ حکومت کو اس بات کی اطلاع ہی نہیں ہے کہ آروگیا سیتو ایپ کس نے بنایا ہے۔ سورو داس نے این آئی سی، نیشنل ای ڈویژن اور الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت سے درخواست کی تھی کہ آرگیا سیتو ایپ کی تخلیق کے بارے میں جانکاری دیں۔ نیشنل انفارمیٹکس سنٹر، جو سرکاری ویب سائٹوں کو ڈیزائن کرتا ہے اس نے کہا ہے کہ اس کے بارے میں اسے کوئی معلومات نہیں ہیں کہ اروگیا سیٹو ایپ کس نے تیار کیا ہے اور اسے کیسے بنایا گیا ہے۔ چیف انفارمیشن کمیشن نے این آئی سی جو وزارت الیکٹرانکس کے ماتحت آتا ہے اس نے مختلف چیف پبلک انفارمیشن افسروں کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ آر ٹی آئی درخواست کا جواب دیں جس میں کوویڈ-19 سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔
آرگیا سیتو ایپ جسے لاکھوں ہندوستانیوں نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے وزارت داخلہ کے حکم کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران ریستورانوں، سنیما ہالوں اور میٹرو اسٹیشنوں میں داخلے سے قبل موبائل ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔ لیکن بڑی حیرت کی بات ہے سورو داس کے آر ٹی آئی مطالبے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ نہ تو این آئی سی اور نہ ہی وزارت کے پاس ایپ کی تخلیق سے متعلق معلومات ہیں۔ سی آئی سی نے نیشنل انفارمیٹکس سنٹر سے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی ویب سائٹ پر اس کا نام کیوں شامل کیا گیا ہے جب کہ اس کے بارے میں اسے کوئی معلومات ہی نہیں ہیں۔
اس ایپ سے متعلق ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس کو بنانے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ اس کا بنیادی مقصد عوام میں COVID-19 کے بارے شعورپیدا کرنا اور COVID-19 سنٹرس کی خدمات کو عوام سے مربوط کرنا تھا۔ در حقیقت یہ ایک ٹریکنگ ایپ ہے جو کورونا وائرس کے انفیکشن کو ٹریک کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جو اسمارٹ فون کے جی پی ایس اور بلوٹوتھ کا استعمال کرتے ہوئے ٹریک کرتا ہے ۔ یہ ایپ 6 Android اور 7 iOS موبائل آپریٹنگ سسٹم پر کام کرتا ہے۔ یہ ایپ کورونا واچ (جو اب بندہوچکا ہے) نامی ایک سابقہ ایپ کا تازہ ترین ورژن ہے جسے مرکزی حکومت نے پہلے کوویڈ-19 کے لیے جاری کیا تھا۔
مرکزی حکومت نے 29 اپریل 2020 کو ایک حکم جاری کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین اور خانگی ملازمین کے لیے یہ لازم کر دیا تھا کہ وہ اس اپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ کریں، اس کا استعمال ان پر لازمی قرار دیا گیا تھا۔ مرکزی وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ اس ایپ کو کنٹینمنٹ زون میں رہنے والے سارے افراد کے لیے لازم ہے کہ وہ بھی اس کو ڈاؤن لوڈ کریں۔
21 مئی 2020 کو ایئرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا نے ایک اسٹرانڈیڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام مسافروں پر یہ لازمی ہے کہ وہ روانگی سے قبل اروگیا سیتو ایپ کے اندر اپنی تفصیلات کا اندراج کرائیں۔ البتہ اس کا لزوم 14 سال سے کم عمر بچوں کے لیے نہیں تھا۔ عوام کی شدید مخالفت کے بعد شہری ہوا بازی کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے کہا تھا کہ یہ ایپ کسی بھی مسافر کے لیے لازمی نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی این سری کرشنا نے 12 مئی کو انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ ’’مرکزی حکومت کا آروگیا سیتو ایپ کے استعمال کو لازمی قرار دینا ’سراسر غیر قانونی‘ ہے‘‘۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا تھا کہ اس ایپ کو کس قانون کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے اور کس قانون کے تحت حکومت اس کو لازم کر سکتی ہے۔
انفارمیشن کمشنر وانجا این سرنا نے سی پی آئی او اور این آئی سی کو حکم دیا ہے کہ وہ اس ویب سائٹ https://aarogyasetu.gov.inکے بارے میں تحریری طور پر وضاحت دیں کہ اس ویب سائٹ کے ڈومین کا نام gov.in کے ساتھ کیسے تشکیل دیا گیا ہے اور انہیں اس ویب سائٹ کی اطلاع کیوں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان سارے معاملات کی تحریری طور پر وضاحت دیں۔
ماہرین اور دیگر سیاسی لوگوں نے اس ایپ اور اس کے حفاظتی پہلوؤں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اس سے قبل حکومت پر ڈیٹا سیکیورٹی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آروگیا سیتو ایپ ایک نفیس نگرانی والا نظام ہے جو پرائیوٹ آپریٹر کے ہاتھوں میں سونپ دیا گیا ہے جس میں نہ کوئی ادارہ جاتی نگرانی ہوتی ہے اور نہ ہی رازداری کی کوئی حفاظت۔ ڈیٹا اور رازداری کی حفاظت سے متعلق سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی ہماری حفاظت میں مددگار ہو سکتی ہے لیکن شہریوں کی رضامندی کے بغیر ان کے ڈیٹا کا استعمال اور انہیں ٹریک کرنا ان کے اندر خوف کا باعث بنا ہوا ہے‘‘۔
مرکزی وزیر اطلاعات روی شنکر پرساد نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا تھا کہ آروگیا سیتو کو کسی بھی نجی آپریٹر کو آؤٹ سورس نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹو
یٹ میں کہا کہ آروگیا سیتو کی اب عالمی سطح پر تعریف کی جارہی ہے۔ کسی بھی نجی آپریٹر ایپ کو آؤٹ سورس نہیں کیا گیا ہے۔ مسٹر گاندھی کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے ٹویٹس اور اپنے کرونیز کو آؤٹ سورس کرنا بند کریں جو بھارت کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
25 ممالک میں لانچ کی جانے والے اس ٹریسنگ ایپ کو ایم آئی ٹی ٹکنالوجی ریویو نے تجزیہ کرنے کے بعد آروگیا سیتو ایپ کو 5 میں سے صرف 2 اسٹار دے ہیں۔ 2 اسٹار بھی اس لیے دیے گئے ہیں کیوں کہ اس کا جمع کردہ ڈیٹا کچھ عرصے کے بعد حذف ہوجاتا ہے۔ اس نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بھارت ہی ایک ایسا واحد ملک ہے جس نے اپنی عوام کو اس ایپ کے استعمال کو لازمی قرار دیا ہے۔ بعد میں اسی ریویو میں اس ایپ کو ضرورت سے زیادہ ذاتی معلومات اکٹھا کرنے پر اس کی درجہ بندی کو 2 سے 1 کر دیا گیا ہے۔
فرانسیسی سیکیورٹی ماہر رابرٹ بپٹسٹ نے جو ٹویٹر پر ایلیوٹ ایلڈرسن کے نام سے مشہور ہے اپنے 5 مئی کے ٹویٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ اس ایپ میں سیکیورٹی کی بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں جو ایک تشویش ناک پہلو ہے۔ وہیں بھارتی حکومت اور ایپ ڈیویلپرز نے اس ہیکر کی طرف سے توجہ دلانے پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس ہیکر کے شبہات غلط ہیں اور اس کے دعوے و خدشات کو مسترد کر دیا۔
رابرٹ بپٹسٹ نے اپنے 6 مئی کے ٹویٹ میں کہا کہ آروگیا سیتو میں سیکیورٹی کی خرابیوں نے ہیکرز کو آسانی فراہم کر دی ہے کہ وہ یہ جان سکتے ہیں کہ کون اس وبائی مرض میں مبتلا ہے اور کون بیمار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ناقص سکیورٹی کی وجہ سے ہیکرز یہ بھی جان سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کی آفس، بھارتی پارلیمنٹ اور ہوم منسٹری کی آفس میں کتنے افراد بیمار اور متاثر ہیں۔ لیکن حکومت ان کے سارے دعوے مسترد کر رہی ہے۔
اکنامک ٹائمز نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس ایپ کے شرائط و ضوابط کی ایک شق میں کہا گیا ہے کہ صارف اس سے اتفاق اور تسلیم کرتا ہے کہ اس کی ذاتی معلومات تک کسی کی غیر مجاز رسائی یا اس کو کوئی حاصل کرتا ہے تو اس کے لیے بھارت سرکار ذمہ دار نہیں ہوگی‘‘۔ حکومت کا ایک طرف اس ایپ کے استعمال کو لازم کرنا اور دوسری طرف اس کے ڈیٹا کی حفاظت کی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرنا کھلی دھوکا دہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار عوام کو صرف دھوکا دینا ہی جانتی ہے اور اس نے اس کے لیے نئی نئی راہیں تلاش کرلی ہیں اسی طرح کا معاملہ پی یم کیر ریلیف فنڈ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ مودی سرکار زبان قال سے تو شفافیت کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو اس طرح دھوکا دینا کسی بھی ایماندار و شفاف حکومت کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں عوام کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرے اور اس کی مکمل تحقیقات کرائے اور خاطیوں کو کیفر کردار کے پہنچائے، ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ عوام کی ذاتی معلومات کا غلط استعمال نہ ہو۔

اکنامک ٹائمز نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس ایپ کے شرائط و ضوابط کی ایک شق میں کہا گیا ہے کہ صارف اس سے اتفاق اور تسلیم کرتا ہے کہ اس کی ذاتی معلومات تک کسی کی غیر مجاز رسائی یا اس کو کوئی حاصل کرتا ہے تو اس کے لیے بھارت سرکار ذمہ دار نہیں ہوگی‘‘۔ حکومت کا ایک طرف اس ایپ کے استعمال کو لازم کرنا اور دوسری طرف اس کے ڈیٹا کی حفاظت کی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرنا کھلی دھوکا دہی ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020