کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنانا فرقہ واریت پر مبنی ہے اور اس وبائی مرض کے خلاف ہندوستان کی جنگ پر منفی اثر ڈال رہا ہے

30 مارچ کو دہلی شہر کے نظام الدین علاقے کو سیل کردیا گیا۔ وجہ تھی: تبلیغی جماعت کہلانے والی ایک مسلم مذہبی تنظیم کی ایک تقریب کا آغاز مارچ کے اوائل نظام الدین مرکز میں کیا گیا تھا، جس میں کچھ ایسے افراد نے بھی شرکت کی تھی جو کورونا وائرس سے متاثر تھے۔

تبلیغی جماعت کے ہندوستان بھر میں مضبوط نیٹ ورک (اس تقریب میں بھی 15 ریاستوں کے لوگ شامل تھے) کو دیکھتے ہوئے، اس کے نتیجے میں ملک کے متعدد حصوں میں کوویڈ 19 کے بڑے پیمانے پر معاملات کا تعلق جماعت سے پایا گیا۔

حالاں کہ تبلیغی جماعت کا دعوی ہے کہ اس نے 22 مارچ کو مرکزی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے بعد حکومت کے تمام رہنما خطوط پر عمل کیا۔ تاہم جب ہم دہلی حکومت کے قواعد پر نظر ڈالتے ہیں تو معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ دہلی پر حکمرانی کرنے والی عام آدمی پارٹی کے دعووں کے مطابق منتظمین 13 مارچ کو 200 سے زائد افراد کے اجتماعات پر پابندی عائد کرنے اور کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں سفر کی تاریخ رکھنے والے لوگوں کو قرنطین کرنے کی حکومت کی ہدایت پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ تبلیغی جماعت نے اس ہدایت پر عمل کیا یا نہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ تنظیم تھائی لینڈ جیسے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کے لوگوں کو مدعو کرنے میں لاپرواہ رہی۔

اس کے ازالے کے لیے ہندوستان میں ہر اس فرد کا سراغ لگا کر جس نے اس تقریب میں شرکت کی، ان کو قرنطین کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تاہم اس پیچیدہ مشق نے فرقہ وارانہ خرابی بھی پیدا کر دی ہے۔ تبلیغی جماعت کی مسلم شناخت کے نتیجے میں اسے سوشل میڈیا، مرکزی میڈیا اور کچھ سیاست دانوں کے ذریعے فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ایک ٹی وی چینل، جو مرکزی حکومت کی حمایت کرتا ہے، اس نے حد سے آگے بڑھتے ہوئے اس واقعے کو ’’کورونا جہاد‘‘ کا نام دے دیا۔ میڈیا کے ایک اور حصے نے مجموعی طور پر "مسلمانوں” کو مخاطب کرتے ہوئے تبلیغی جماعت پر تنقید کی ہے۔

وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلی رہنماؤں نے اس واقعے کو "اسلامی بغاوت” کے ساتھ ساتھ "کورونا دہشت گردی” بھی قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے ملک سے بغاوت کے قوانین کے استعمال کا مطالبہ کیا ہے جو حکومت کے خلاف "نااہلی کرنے والوں” کو سزا دیتی ہے۔

اس واقعے کے لیے ہندوستان کے 200 ملین مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ذمہ دار ٹھہرانا محض تعصب کے سوا اور کچھ نہیں۔ فرقہ وارانہ خلفشار کو جنم دیتے ہوئے میڈیا کا بڑا حصے مرکزی حکومت اور دہلی ریاست سے سوال نہیں کر رہا ہے کہ یہ واضح ہونے کے بعد کہ کوویڈ 19 کا خطرہ بڑھ رہا ہے، اس اجتماع اور دوسرے دیگر اجتماعات کی اجازت کیسے دی گئی۔

انتظامیہ سے سوال نہ کرنے کی جگہ 200 ملین ہندوستانیوں کو اس کے لیے مسلسل ذمہ دار ٹھہرانا ملک کی کوویڈ 19 کے خلاف لڑائی کو اور بھی مشکل بنا رہا ہے۔ ہندوستان کی غربت اور صحت عامہ کے کمزور انفراسٹرکچر کے پیش نظر اس سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے ملک کو متحد کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ خطوط پر انھیں لڑانا اپنے پیروں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

اس نفرت کا سب سے پہلا اور خطرناک اثر یہ ہوگا کہ جماعت کے رابطوں کا سراغ لگانا حکام کے لیے زیادہ مشکل ہوجائے گا، کیوں کہ تبلیغ کے پروگرام میں شرکت کرنے والے افراد اپنی شناخت سے ہچکچا رہے ہوں گے۔

(بشکریہ: اسکرول ڈاٹ اِن)

(انگریزی سے اردو ترجمہ)

مضمون نگار: شعیب دانیال

مترجم: سفیر صدیقی