دہلی پولیس نے کشمیر میں میڈیا پر پابندیوں سے متعلق گفتگو کے لیے منعقد ہونے والے ایک پروگرام کی اجازت دینے سے انکار کیا

نئی دہلی، مارچ 15: دہلی پولیس نے بدھ کے روز کشمیر میں میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن پر بات کرنے کے لیے ایک پروگرام کے انعقاد کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

’’کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ اور ریاستی جبر‘‘ کے عنوان سے یہ پروگرام بدھ کو دوپہر 2 بجے گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں منعقد ہونے والا تھا۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج حسنین مسعودی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ایم وائی تاریگامی، فلم ساز سنجے کاک، یونائیٹڈ پیس الائنس کے میر شاہد سلیم اور دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر نندِتا نارائن اس پروگرام کے مقررین میں شامل تھے۔

ایک بیان میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس تقریب کی منصوبہ بندی ایک گمنام گروپ نے کی تھی اور اس کے ارکان کے بارے میں معلومات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس عوامی جلسے کے انعقاد کے پیش نظر امن و امان کی صورت حال میں خلل پڑنے کا ان پٹ ملا ہے۔‘‘

تاہم دیپک کمار نے، جو اس تقریب کی آرگنائزنگ ٹیم کا حصہ تھے، بتایا کہ پولیس نے گاندھی پیس فاؤنڈیشن کے ایک گیٹ کو بند کر دیا تھا اور دوسرے پر رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ حکومت اور پولیس کی جانب سے ایسے احتجاج اور ایسے واقعات کو روکنے کی کوششوں کا تسلسل ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

اسکرول کے مطابق میر شاہد سلیم نے بتایا کہ پولیس کی بھاری نفری پنڈال میں تعینات کی گئی تھی اور اہلکار مقررین کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

پروفیسر نندِتا نارائن نے کہا ’’مقررین کو پروگرام کی منسوخی کے بارے میں اس وقت مطلع کیا گیا، جب وہ پروگرام کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔ یہ کوئی احتجاج نہیں تھا بلکہ ایک عوامی جلسہ تھا۔ یہ ایک ہال میں کیا جا رہا تھا اور پولیس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’آخری لمحات میں اشتعال انگیز منسوخی‘‘ نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان میں آزادی اظہار کو دبانے کے حقائق کو تقویت دیتی ہے۔