کورونا وائرس اور مین اسٹریم میڈیا کی فرقہ ورانہ نفرت انگیزی

وبا کے دوران ہندوستانی میڈیا میں نفرت انگیزی کا کاروبار عروج پر ہے

افروز عالم ساحل

ان دنوں جبکہ ساری دنیا کورونا کے قہر سے پریشان ہے اور دن رات اس وبا سے چھٹکارے کی دعاؤں اور کوششوں میں مصروف ہے، وہیں ہندوستان کی نام نہاد مین اسٹریم میڈیا  ایک دوسری قسم کی وبا کی شکار ہے اور وہ وبا ہے فرقہ واریت کی۔ اس مشکل گھڑی میں بھی ان کا نفرت پھیلانے کا شغل بدستور جاری ہے۔

یوں تو فرقہ واریت کا زہر ملک کے ہر ادارے میں سرایت کرچکاہے، لیکن ہندوستانی میڈیا کچھ زیادہ ہی بیمار نظر آتی ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے موقر میڈیا اداروں نے بے بنیاد اور جھوٹی خبروں کی اشاعت کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایک مخصوص نظریے کے حامل میڈیا ادارے اسلاموفوبیائی ایجنڈے کے تحت مستقل اس کوشش میں لگے ہیں کہ اس بلائے ناگہانی کی ذمہ داری بھی کسی طرح مسلمانوں کے سر منڈھ دی جائے۔

نیوز 18 کی ہندی ویب سائٹ نے ایک خبر شائع کی ہے۔ سرخی ہے: ایک ہی خاندان کے 12 افراد کورونا وائرس سے متاثر، حج سے لوٹے تھے چار لوگ۔

اس خبر کو نام نہاد مین اسٹریم میڈیا اداروں کی درجنوں ویب سائٹوں نے جگہ دی۔ اس میں ہندی کے علاوہ انگریزی کی ویب سائٹ بھی شامل ہیں۔ ایک سائٹ نے یہ سرخی لگائی: ’حج کرنے گئے تھے ، کورونا لے کر لوٹے۔‘

ان خبروں کے مطابق، مہاراشٹر میں کولہا پور کے قریب سانگلی ضلعے کے اسلام پور گاؤں کے ایک ہی خاندان کے 12 افراد کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے۔ پہلے 23 مارچ کو اس خاندان کے 4 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ چاروں افراد حج کرکے لوٹے تھے۔ ہندی روزنامہ جن ستا نے کورونا سے متاثر لوگوں کی تعداد 20 بتائی ہے۔

ٹائمس آف انڈیا نے بھی اس خبر کو جگہ دی ہے۔ یہاں سرخی میں حج کے بجائے متحدہ عرب امارات لکھا گیا ہے، یعنی مذکورہ افراد امارات سے لوٹے تھے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ خبر کے اندر کہا گیا ہے کہ وہ چاروں سعودی عرب سے حج کرکے لوٹے تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹائمس آف انڈیا جیسے اخبار کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا فرق نہیں معلوم ۔

جب اس خبر کی تحقیق کی گئی تو اس سے بھی چونکانے والی باتیں سامنے آئیں۔ تمام سائٹوں پر اس خبر کو 27 مارچ کو شائع کیا گیا ہے۔ البتہ اس فرضی خبر کو سب سے پہلے ہندی روزنامہ ’ہندوستان ‘نے 25 مارچ کو شائع کیا تھا۔ اور اس خبر میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد صرف 5 بتائی تھی۔ مذکورہ خبر میں کہیں بھی ان افراد کے باہر جانے کی بات نہیں کہی گئی ۔ لیکن ایک افسر کا بیان ضرور شائع کیا گیا ہے کہ ’ہم یہ جانچ کر رہے ہیں کہ کیا یہ پانچ لوگ گذشتہ کچھ دنوں پہلے کسی دوسرے شہر یا بیرون ملک تو نہیں گئے تھے۔‘

میڈیا کھلے طور پر سعودی عرب سے لوٹنے والے افراد پر حج سے لوٹنے کا الزام لگا رہا ہے۔ اس حوالے سے افواہیں بھی خوب پھیلائی جا رہی ہیں۔ راجستھان کے معروف روزنامے ’پتریکا ‘کے مطابق سعودی عرب سے سفر حج سے لوٹے 26 افراد سانچور پہونچنے پر افرا تفری مچ گئی۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے ان کے کورونا مریض ہونے کی افواہ پھیلا دی ۔ لیکن انتظامیہ نے اس افواہ کو جھوٹ قرار دیا۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گذشتہ حج جولائی 2019 میں ہوا تھا۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی ملک میں نوویل کورونا کا ذکر تو چو ڑیے ،کوئی نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس پورے معاملے سے میڈیا کی ذہنیت کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ یا پھر یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے موقر میڈیا اداروں کے صحافی اس بات سے بھی بالکل نابلد ہیں کہ حج کیا ہوتا ہے اور کب ہوتا ہے، حالانکہ انٹرنیٹ پر معمولی سرچ کرکے اس خبر کو بے بنیاد ثابت کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جب ذہنیت ایک مخصوص مذہب کے خلاف نفرت پر مبنی ہو اور نیت افواہںا گرم کرنے کی تو بنیادی صحافتی اخلاقیات کی پروا کسے ہوتی ہے۔

اب آئیے اس خبر سے آگے بڑھتے ہیں۔ دی ہندو جیسے معروف اور سیکولر سمجھے جانے والے اخبار نے 26 مارچ کو ایک کارٹون شائع کیا جس میں کورونا وائرس کا خاکہ ایک دہشت گرد کا کھینچا گیا، جس کے ہاتھ میں مشین گن ہے، اور وہ وضع قطع اور لباس سے مسلمان ہے، جبکہ بقیہ دنیا اس سے ڈری سہمی ایک جانب کھڑی ہے۔ یہ کارٹون دیپک ہریچندرن نے بنایا تھا۔

جب لوگوں نے مذکورہ کارٹون کے پیچھے مضمرپیغام پر احتجاج کیا، تو دی ہندو نے معذرت کرتے ہوئے کارٹون میں تبدیلی کردی اور پٹھانی لباس میں ملبوس ’دہشت گرد‘ کورونا وائرس کو بے لباس کردیا۔ تاہم مشین گن اس کے ہاتھ میں باقی رکھی۔

لیکن ٹھہریے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ ہندو کے ذریعے اپنی غلطی کے اعتراف اور ’اصلاح‘ کے بعد اب کچھ دیگر میڈیا ویب سائٹوں نے اس معاملے کو طول دینا شروع کیا۔ ایک ویب سائٹ نے سرخی لگائی: ’دی ہندو نے کورونا وائرس پر ایک کارٹون کیا ڈالا کہ لبرل اسلاموفوبیا کا راگ الاپنے لگے۔‘ اس خبر کے اندر کابل حملے کا ذکر کرتے ہوئے اس کارٹون کا مخالفت کرنے والوں کو اسلامسٹ بتایا گیا اور بہت اناپ شناپ باتیں کہی گئیں۔ ایک دیگر سائٹ نے چند سال پہلے فرانس میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکوں کو شیئر تک کردیا، اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس کے بعد کس طرح مسلمانوں نے دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا تھا۔

خبروں کی بعض سائٹیں نفرت پھیلانے کے کھیل کو یہیں ختم نہیں کرتیں، بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر کم و بیش ہر روز ایسی خبریں شائع کر رہی ہیں جن کے ذریعے کورونا کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے ، اور لوگوں کے دل و دماغ میں یہ بات ڈالی جا سکے کہ گویا اس وبا کو پھیلانے کے لیے مسلمان ہی ذمہ دار ہیں۔

ایک ویب سائٹ نے اپنی ایک خبر کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت اس ملک میں کورونا کو پھیلانے کے لیے ’کورونا جہاد‘ کررہی ہے۔ اس سائٹ نے سرخی یہ لگائی: ’تبلیغی جماعت: کورونا جہاد پھیلا رہی ہے یہ مسلم تنظیم، اس کے رکن ہر ملک میں جاکر کورونا پھیلاتے ہیں۔‘

خبر کی تمہید کچھ اس طرح باندھی گئی ہے:’جیسے جیسے کورونا کے معاملے بڑھتے جارہے ہیں، بہت سی چیزیں بھی واضح ہوتی جارہی ہیں۔ اس کورونا وبا نے پوری دنیا میں ایک تنظیم کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، اور وہ تنظیم ہے تبلیغی جماعت۔ اس تنظیم کے وابستگان نے نہ صرف ملیشیا بلکہ بہت سارے ممالک میں کورونا کو پھیلادیا ہے۔ ایران سے لے کر ہندوستان تک تبلیغی جماعت کے جلسوں میں شامل افراد کورونا پھیلارہے ہیں۔ اب اس تنظیم کے لوگوں نے پاکستان میں تباہی مچا دی ہے۔ ان کی نقل و حرکت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس جماعت کے لوگ کسی خاص منصوبے کے تحت کورونا وائرس لے کر مختلف ممالک میں بے خوف گھوم رہے ہیں، تاکہ اس ملک میں کورونا پوری طرح پھیل جائے۔‘

اس خبر کے مطابق 80 سے زیادہ ملکوں میں کورونا اسی جماعت کے افراد نے پھیلایا ہے۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ’ہم میں سے کوئی کورونا سے نہیں ڈرتا، ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘

کئی دیگر ویب سائٹوں نے بھی اسی طرح کی خبریں اور مضامین شائع کیے ہیں۔ ایک ویب سائٹ نے اپنے مضمون کی سرخی کچھ اس طرح لگائی ہے: ’کورونا جہاد سے کیسے لڑے گا بھارت۔‘

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ترجمان اخبار پانچ جنیہ تو ان اخباروں سے بھی چار قدم آگے ہے۔ اس اخبار نے ایک مضمون شائع کیا جس کی سرخی ہے: ’کورونا وائرس: تاریخ یاد رکھے گی کہ کٹرپنتھی مسلمانوں نے نہیں کی ملک کی فکر۔‘

پانچ جنیہ نے مزید لکھا ہے کہ ’جب مستقبل کا مورخ موجودہ ہندوستان کی تاریخ لکھے گا تو یہ ضرور لکھے گا کہ کہ تباہی کی گھڑیوں میں ملک کے بنیاد پرست مسلمانوں کو سو کروڑ ہندوستانیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ انہوں نے ملک کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور اپنی ضد اور حماقت کی وجہ سے بے گناہ اکثریت والی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔‘

سچ تو یہ ہے کہ میڈیا کہ انہی اداروں کی فرقہ ورانہ نفرت انگیزی کی وجہ سے آج ہندوستانی معاشرہ خانوں میں بٹا ہوا ہے جو ملک کی سالمیت کے لیے اصل خطرہ ہیں۔ ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ مستقبل کا مورخ مسلمانوں کے تعلق سے کیا لکھے گا، لیکن یہ بات طے ہے کہ سچائی اور حق پر خواہ کتنے ہی دبیز پردے ڈالے جائیں، وقت کی آندھی  انھیں اڑا لے جاتی ہے اور جھوٹ کا چہرہ بے نقاب ہوکر رہتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی دیکھے تو اسے ان افواہوں کے پیچھے کی حقیقت آسانی سے نظر آسکتی ہے، شرط صرف یہ کہ ہے تعصب اور نفرت سے اوپر اٹھ کر دیکھا جائے۔