کورونا سے بچنے کے لیے توہم پرستی کا سہارا!

میڈیا کے بعض گوشے ٹوٹکے پھیلانے میں مصروف!

افروز عالم ساحل

آج کے دورِ جدید میں جب کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی عروج پر ہے ہندوستان میں توہم پرستی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ توہم پرستی کی اس ناپاک فصل کو سائنس اور ٹکنالوجی کے سہارے ہی اگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج توہم پرستی پھیلانے میں ’’میڈیا‘‘ ہی سب سے آگے ہے، جب کہ میڈیا کو عوام کو بیدار کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

میڈیا میں ان دنوں ہر روز ایسی خبریں آ رہی ہیں جس میں مذہب کے راستے کورونا وائرس کا علاج بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان خبروں کے مطابق ہندوستان کے کچھ ’سوپر سائنسداں‘ ٹائپ کے لوگ کورونا وائرس کا علاج بہت پہلے ایجاد کر چکے ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسی کے ذریعے کورونا وائرس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ بہت خوب!

یہ سب کچھ اس دور میں ہو رہا ہے، جب کہ دنیا بھر کے سائنسداں رات دن ایک کر کے کورونا ویکسین بنانے میں مصروف ہیں پھر بھی انہیں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ آج کل میڈیا کے ذریعے کورونا سے بچاؤ کے نام پر عوام کے دماغوں میں کیسے کیسے توہم پرستی کے بیج بوئے جا رہے ہیں:

آن لائن دنیا میں ایسا بہت سا مواد موجود ہے جس میں کورونا وائرس سے بچنے کے عجیب وغریب طریقے بتائے جا رہے ہیں۔ جادو ٹونا جنتر منتر ٹوٹکے لٹکے اور نہ جانے کیا کیا طریقے سکھائے جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ’شنی گرہ’ ہے اور ’راہو’ نے اس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کورونا وائرس کی ’جنم پتری’ میں شنی، راہو اور کیتو کا خاص اثر ہے وغیرہ۔

ان کے ہر مضمون اور ہر جیوتش کے پاس کورونا وائرس سے بچاؤ کا الگ الگ طریقہ ہے۔ کچھ کے نزدیک منتر اور تدابیر کرنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ کچھ یہ بتاتے ہیں کہ روزانہ ’سورج دیوتا’ کو پانی چڑھانا چاہیے، غروب آفتاب کے بعد روزانہ کچا دودھ کتے کو پلانا چاہیئے۔ بعض کا یقین ہے کہ گوموتر اور گائے کا گوبر کورونا سے لڑنے کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار ہے چنانچہ لوگوں کو گائے کا پیشاب پینے اور گوبر سے نہانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

سدرشن آسٹرولوجی سنٹر سے تعلق رکھنے والے آچاریہ انوپم گپتا کے مطابق جسم کے بائیں جانب نیلے قلم سے 6681443 لکھنا چاہیے کیونکہ یہ نئے زمانے کا کوڈیفائڈ منتر ہے۔ اس کے علاوہ ہنومان چالیسہ کے باقاعدگی سے پاٹھ کے ساتھ روزآنہ بجرنگ بان پڑھنا چاہیے اور سندر کانڈ کا پاٹھ کریں تو اور بھی اچھا ہے اس سے کورونا وائرس فوری دم دبا کر بھاگ جائے گا۔

— ایک مشہور اخبار کی ویب سائٹ پر بتایا گیا کہ مہامرتنجئے منتر کا جاپ اپنے گھر میں شروع کر دیں اور 108 یا پھر کم سے کم 27 بار جاپ کیا جائے تو یہ منتر جاپ کرنے والے کو شدید سے شدید بیماری سے بچاتا ہے۔ یہی نہیں اس مضمون میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی کورونا کا مریض ہوچکا ہے تو اس منتر کے جاپ بعد گائے کے گھی سے ہون کرنے سے مریض بستر سے فوراً اٹھ کر بیٹھ جائے گا۔

ایک مشہور اخبار نے یگیہ پیتھی کے ذریعہ کورونا کا علاج بتاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اخبار یگیہ پیتھی کو طب کے ایک سائنسی طریقہ کے طور پر مانتا ہے۔ ایک مضمون میں مصنف ونییت نارائن کا ماننا ہے کہ سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شنکھ کے گولوں کی آواز سے ماحول میں موجود منفی توانائی اور بیکٹیریا تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ویدک ثقافت میں ہر گھر، صبح و شام پابندی کے ساتھ شنکھ بجائے جاتے ہیں۔ اسی لیے مودی نے شنکھ بھجوایا اور تالی تھالی پٹوائی تھی۔ کچھ لوگوں کے نزدیک خطرناک انفیکشن سے لڑنے کے لیے ’کورونا چالیسہ’ پڑھنا چاہیے۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی عجیب وغریب اور مضحکہ خیز ٹونے ٹوٹکے اور افواہیں ہیں جن کو پڑھ کر عقلوں پر سوائے ماتم کرنے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ان کا ذکر یہاں قارئینِ ہفت روزہ دعوت کی نفیس طبیعتوں کا لحاظ کرتے ہوئے نہیں کیا جا رہا ہے۔

میڈیا کا ایک رنگ یہ بھی کہ جہاں وہ ایک خاص مذہب کی مذہبی توہمات اور ٹوٹکوں کو مسلسل فروغ دے رہا ہے وہیں دوسرے مذہب کے مجوزہ اقدامات کو بیوقوفی سمجھتا ہے۔

پاکستان کی ایک ویب سائٹ نے اپنے ایک مضمون میں قرآن مجید کے حوالے سے اس مہلک وائرس سے لڑنے اور اس سے نجات پانے کا طریقہ بتایا ہے۔ مزید لکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ نے ’’تقویٰ‘‘ اور ’’توکل‘‘ پر زور دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کچھ چیزوں پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ اسلام کے مطابق خوشی غم اور موت سبھی کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر کورونا وائرس سے بچنا ہے تو نمازیں پڑھیں اللہ کو یاد کریں وغیرہ۔ اس مضمون میں لوگوں کو نماز کا پابند بنانے کی تلقین کی گئی ہے۔

لیکن اب ہندوستانی میڈیا کا اسلامو فوبیا دیکھیے کہ کس طرح اس نے اس مضمون کو ڈھونڈ کر اس پر اسٹوری لکھی۔ ایک ویب سائٹ نے اپنی خبر کی سرخی اسی طرح لگائی ہے کہ ‘پاکستان نے ڈھونڈھا کورونا وائرس کا بیوقوفی بھرا علاج: مسجد میں نماز پڑھو صبح شہد کھاؤ اور وائرس بھگاؤ‘

یہ ویب سائٹ لکھتا ہے، اب پاکستانی میڈیا نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کورونا وائرس کا علاج بتایا ہے۔ اس تدبیر کو اپنا کر پاکستان کورونا پر کنٹرول پا لے گا اس کی تو کوئی گارنٹی نہیں ہے لیکن کورونا وائرس پھیلانے میں مدد گار ثابت ہوگا اس کی گارنٹی ضرور ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویب سائٹ نے پاکستانی میڈیا کے ایک چھوٹے سے مضمون میں بہت ساری خامیاں نکالی ہیں اور سوال کھڑے کیے ہیں۔ یہ ویب سائٹ اپنی خبر میں لکھتا ہے، ’سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ مضمون میں کہیں بھی ماسک پہننے یا سوشل ڈسٹنسنگ کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں لوگوں سے نماز پڑھنے اور اللہ کو یاد کرنے کو کہا گیا ہے کہ اس سے کورونا کا مریض ٹھیک ہو جائے گا اور اللہ سب کو بچالے گا۔ ‘

ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایران کی ایک ویڈیو خوب وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو کو امریکی میگزین اکونومسٹ نے شیئر کیا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک مولوی کورونا مریضوں کے بے حد نزدیک نظر آیا۔ اس نے نہ دستانے پہنے تھے اور نہ ہی ماسک لگایا تھا۔ مولوی مریضوں کو پانی جیسی چیز سونگھاتے نظر آیا۔ مولوی کا دعویٰ ہے کہ اس کو سونگھتے ہی مریض ٹھیک ہو جائے گا۔

ہمارے ملک کے میڈیا کے ساتھ ساتھ لوگوں میں کس قدر اسلامو فوبیا پھیلا ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انوج باجپائی نامی شخص نے 10 فروری کو ٹویٹ کر کے لکھا کہ ’ یاد رکھنا! کورونا وائرس سے زیادہ خوفناک ہے، قرآن وائرس ہے۔ بھارت میں 20 کروڑ سے بھی زائد متاثرہ!

اگرچہ بعد میں اس نے اس ٹویٹ کو ہٹا دیا، لیکن تب تک لوگوں نے اس کا اسکرین شاٹ لے لیا تھا۔ 11 فروری کی رات تک اس کا یہ ٹویٹ وائرل ہو گیا۔ لوگوں نے ٹویٹر پر اس کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں انوج باجپائی ٹویٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ لوگ انوج باجپائی کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے۔ وہیں کچھ لوگ انوج کی طرفداری میں بھی آ گئے۔ وہ اس کے سپورٹ میں ٹویٹ کرنے لگے۔

اس طرح ٹویٹر پر ’کیپ اٹ اپ انوج باجپائی’ بھی ٹویٹر ٹرینڈ میں تھا۔ لیکن معاملہ بڑھنے پر انوج باجپائی نے ٹویٹر پر اپنی صفائی پیش کی اور لکھا: ’’میرے کورونا وائرس والے ٹویٹ کو غلط سمجھا گیا ہے، میرا اسے قرآن سے جوڑنے کا مقصد کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ مسلمان گوشت زیادہ کھاتے ہیں اس لیے چوکنا رہیں کیونکہ گوشت کھانے سے ہی وائرس زیادہ پھیل رہا ہے۔ اگر میرے اس ٹویٹ سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہوں تو معذرت چاہتا ہوں۔

یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہی ہے کہ پورا سرکاری عملہ توہم پرستی پھیلانے میں مصروف ہے۔ خود وزیر اعظم بھی کئی مرتبہ یہی کام کرتے نظر آئے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ کورونا وائرس جیسی وبا سے لڑنے کے نام پر گھروں کی لائٹس بجھا کر ’دیا‘ جلانے کی وزیر اعظم کی اپیل کتنی غیر سائنسی اور توہم پرستی پھیلانے والی ہے۔ کورونا وائرس کا مقابلہ ’دیا‘ جلانے سے نہیں، بلکہ صحیح جانچ، صحیح علاج، وسائل کے صحیح استعمال، معیاری حفاظتی سامان اور لوگوں کو مالی امداد فراہم کرنے سے ہوگا۔


 

میڈیا اور خاص طور پر آن لائن و پرنٹ میڈیا میں ان دنوں ہر روز ایسی خبریں و مضامین سامنے آرہے ہیں، جس میں مذہب کی راستے سے کورونا کا ہر ممکنہ علاج بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان خبروں و مضامین کے مطابق ہندوستان کے کچھ ’سوپر سائنسداں‘ ٹائپ یہ لوگ کرونا کا علاج نہ جانے کب کا نکال چکے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ہندوستان میں صرف اور صرف اسی سہارے کورونا کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔