کلام اقبال میں شعری جمال کی قوس قزح
اقبال کی شاعری میں اخلاقیات کا درس ندرت بیان کی گل کاری کا نمونہ
ڈاکٹر محمد حسین فطرت
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کلام اقبال اور شعری جمال میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سچ پوچھیے تو شعری جمال کلام اقبال کی ایک مابہ الامتیاز خصوصیت ہے اور یہ چیز ان کی شاعری کے اندر بولتے ہوئے جادو کی طرح تسخیر قلوب واذہان کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ پروفیسر کلیم الدین احمد کے منفی انداز فکر سے کون واقف نہیں، انہوں نے اگر غزل کو نیم وحشی صنف قرار دیا ہے تو اقبال کو شعری جمال سے عاری تصور کیا ہے۔ سچ پوچھیے تو ان کے محسوسات کا یہ انداز حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ کلام اقبال پر انہوں نے غلط طور پر وعظ اور درس وتدریس کی بھپتی کسی ہے۔ اقبال کی شاعری کو پیغام زندگی اور درس حیات سے خالی میں بھی نہیں سمجھتا، لیکن تعلیم و تدریس میں بھی شعری جمال اس طرح پیوست ہے جیسے دودھ کے اندر شکر گھل مل جاتی ہے۔ اقبال نے شاعری کو جس انداز میں گہوارہ جدت و ندرت بنایا ہے اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ندرت بیان اور حسن تعبیر کی گل کاری حسب ذیل اشعار میں ملاحظہ ہوں:
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
دوسری جگہ لکھتےہیں
گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں
آہ یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں
ہم نشینِ نرگس شہلا ، رفیق گل ہوں میں
ہے چمن میرا وطن ہمسایہ بلبل ہوں میں
شام کی آواز چشموں کی سلاتی ہے مجھے
صبح، فرشِ سبر سے کوئی جگاتی ہے مجھے
بزم ہستی میں ہے سب کومحفل آرائی پسند
ہے دل شاعر کو لیکن کنج تنہائی پسند
علامہ اقبال کے خامہ معجز رقم کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے پیغام رسانی اور ترسیل وابلاغ کے عمل کو بھی شعری جمال کا قالب عطا کیا۔ حسب ذیل اشعار اس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں، میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تری زندگانی بے گداز آرزو
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنےوالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
اقبال کے کلام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ رنگ و آہنگ دونوں سے عبارت ہے۔ ان کے یہاں آہنگ بغیر رنگ نہیں اور رنگ بغیر آہنگ نہیں۔ ان کے کلام میں رنگ و بو کی مصوری کے ساتھ ساتھ داغ آرزو کا بھی سوزو گداز پایا جاتا ہے۔
عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے
مشت خاک ایسی نہاں زیرِ قبارکھتا ہوں میں
دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کی رستخیر
کیا خبر تجھ کو، درون سینہ کیارکھتا ہوں میں
بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز
سوز و سازِ جستجو مثلِ صبا رکھتا ہوں میں
جولوگ فن برائے فن ،ادب برائے ادب کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے آگے ادبی مشغولیت تضییع اوقات کے مترادف ہے جب کہ شعر وادب ترسیل وابلاغ کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ علامہ جیسے دانشور کے بارے میں اس کا ادنیٰ گمان بھی ممکن نہیں کہ شاعری کی قوت تسخیر کو فراموش کر کے اس کو بازیچہ اطفال بنا دیں گے، وہ ایسے نباض حرف وصوت اور حقائق آشنا ہیں کہ انہوں نے شاعری کو گلبانگ حیات بنادیا، ان کا یہ عمل نگینہ سازی کے عمل کے مترادف ہے،جیسا کہ ان کے کلام سے ظاہر ہے۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا
نقش ہوں اپنے مصور سے گلہ رکھتا ہوں میں
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
ہراک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو
کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو
کرمکِ ناداں طواف شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو
سچ پوچھیے تو اقبال کا پورا کلام شعری جمال کا آئینہ دار ہے، جب وہ اسپین میں آبِ رواں کبیر کے کنارے عہد رفتہ کا خواب دیکھتے ہیں تو اس وقت بھی یہ ذکر کرنا نہیں بھولتے۔
سادہ و پر کیف ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتی دل کےلیے اک سیل ہے عہد شباب
اس ضمن میں علامہ اقبال کے مزید چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں ماہرانہ روانی، سخنوری، شعریت اور تخیل کی جولانی قابل ذکر ہے ۔
ریت کے ٹیلے پر وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ خضر بے برگ و ساماں وہ سفر بے سنگ میل
وہ نمود اختر سیماب یا ہنگام صبح
یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل
وہ سکوت شام صحرا وہ غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہل ایماں جس طرح جنت میں گرم سلسبیل
تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش
اور آبادی میں تو زندانی کشت نخیل
پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی
ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی
***
جولوگ فن برائے فن ،ادب برائے ادب کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے آگے ادبی مشغولیت تضییع اوقات کے مترادف ہے جب کہ شعر وادب ترسیل وابلاغ کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ علامہ جیسے دانشور کے بارے میں اس کا ادنیٰ گمان بھی ممکن نہیں کہ شاعری کی قوت تسخیر کو فراموش کر کے اس کو بازیچہ اطفال بنا دیں گے، وہ ایسے نباض حرف وصوت اور حقائق آشنا ہیں کہ انہوں نے شاعری کو گلبانگ حیات بنادیا، ان کا یہ عمل نگینہ سازی کے عمل کے مترادف ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022