کشمیر: التجا مفتی نے کہا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی

سرینگر، 8 جنوری— التجا مفتی اور جموں و کشمیر حکومت کے مابین جاری بحث نے منگل کے روز ایک حیرت انگیز رخ اختیار کیا جب سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی بیٹی نے الزام عائد کیا کہ سیکیورٹی عملہ نے میرے دادا مفتی محمد سعید کی چوتھی برسی پر ان کے مزار پر جانے کی کوشش کرتے وقت ان کے ساتھ زیادتی کی۔

التجا نے انڈیا ٹومورو کو بتایا ’’انھوں نے (سکیورٹی عملہ) نے مجھے میرے دادا کے مزار پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ انھوں نے مجھے حراست میں لیا۔ گیٹ پر میرے ساتھ جسمانی طور پر دھکا مکی کی گئی کیوں کہ میں میڈیا سے بات کرنا چاہتی تھی۔ میڈیا نے سب کچھ ریکارڈ کیا ہے۔ انھوں نے مجھے کیسے ڈھکیلا۔ انھون نے مجھے جانے نہٰیں دیا۔ اور جسمانی طور پر دھکا دیا۔‘‘

دو بار کے وزیر اعلی اور سابق مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سید 7 جنوری، 2016 کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ انھیں ان کے آبائی شہر جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں بیج بیہرا میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔

التجا نے کہا کہ اس نے اپنے حفاظتی احاطے سے دستبرداری کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

زیر حراست سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی بیٹی نے بتایا کہ وہ اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ تبادلہ خیال کررہی ہیں کہ کس عدالت درخواست داخل کی جائے۔ انھوں نے کہا "میں اپنے وکیلوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہوں اور ہم تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ کون سی عدالت میں جاؤں۔ دریں اثنا میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس کو ایک خط لکھنے جارہی ہوں جس میں ان سے گزارش ہے کہ وہ میرا حفاظتی احاطہ ختم کردیں۔‘‘

یہ دوسرا موقع ہے جب التجا کو اپنے دادا کے مقبرے پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 2 جنوری کو بھی التجا کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کے بانی مفتی محمد سعید کی قبر پر حاضری دینے کی خواہش کے بعد سے نظربند رکھا گیا تھا۔

التجا نے پچھلے ہفتے کہا تھا "مجھے حراست میں لیا گیا ہے کیونکہ میں نے اپنے دادا کی قبر پر جانے کی اجازت طلب کی تھی۔ انھوں نے مجھے ان کے مزار پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ایک نجی کار لے جاؤں گی اور نجی سامان کے ساتھ جاؤں گی۔ میں نے ان سے کہا کہ براہ کرم مجھے جانے دو۔ انھوں نے کہا کہ آپ کہیں نہیں جا سکتیں اور ہم آپ کو گھر میں قید رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

آرٹیکل 370 کے خاتمے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کرنے کے بعد تین سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور فاروق عبد اللہ سمیت پوری سیاسی قیادت کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد سیاستدانوں سمیت 5،161 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔