کسانوں کا ایم ایس پی پر قانون سازی کا مطالبہ کتنا واجبی ؟
23 زرعی پیداواروں پراقل ترین امدادی قیمت کے دعوے کاغذی
زعیم الدین احمد حیدرآباد
سمجھا جارہا تھا کہ تین زرعی قوانین کی منسوخی کے بعد کسانوں کا احتجاج ختم ہو جائے گا اور کسان اپنے اپنے گھروں اور کھیتوں کو واپس ہو جائیں گے لیکن قانون کی منسوخی کے بعد بھی کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالے قوانین تو منسوخ ہو گئے مگر ان کا دیرینہ ’’کم از امدادی قیمت‘‘ کا مطالبہ ابھی باقی ہے، وہ اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ حکومت اس پر قانون بنائے۔ جب تک حکومت ایم یس پی پر قانون سازی نہیں کرتی وہ اپنے احتجاج کو ختم نہیں کریں گے ۔ متحدہ کسان تنظیم (یس کے یم) نے جملہ تین مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک مطالبہ، تین قوانین کی منسوخی تھا جسے حکومت نے تسلیم کرلیا اور اسے منسوخ کر دیا لیکن ان کے دو مطالبات ابھی باقی تھے جیسے کم از کم قیمتِ خرید پر قانون سازی اور برقی ترمیمی بل کی واپسی۔ یہ وہ تین مطالبات تھے جسے لے کر کسانوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔ کمیشن فار ایئر کوالٹی مینجمنٹ کی جانب سے لگائے جانے والے جرمانوں کی دفعات کی منسوخی، مختلف ریاستوں میں احتجاج کے دوران جن جن کسانوں پر بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں ان مقدمات کی واپسی، مملکتی وزیر داخلہ اجے کمار مشرا کی برطرفی اور گرفتاری، احتجاج کے دوران فوت ہونے والے کسانوں کو معاوضہ کی ادائیگی اور مقامِ احتجاج سنگھو بارڈر پر ایک قطعہ اراضی تاکہ اس پر فوت ہونے والے کسانوں کی یاد میں ایک یادگار قائم کی جا سکے۔
جس وقت احتجاج شروع ہوا تھا بنیادی طور پر ان کے یہی تین مطالبات تھے۔ لیکن بعد میں ان کے مطالبات کی فہرست میں تین اور مطالبات کا اضافہ ہوا۔ متحدہ کسان تنظیم کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران جو واقعات رونما ہوئے اس کی وجہ سے ان مطالبات کو شامل کرنا پڑا مثلاً احتجاج کے دوران سات سو سے زائد کسانوں کی موت، پھر اسی دوران لکھیم پور کھیری کا واقعہ اور فصلوں کی کٹائی کے بعد گھاس پھوس کے جلائے جانے پر جرمانے۔ کسانوں کے دو مطالبات اوپر آ چکے ہیں اس کے علاوہ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جرمانوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور آئندہ سے ان پر جرمانے نہ لگائے جانے پر قانون سازی کی جائے۔ یہ بہت اہم مسائل ہیں جن سے کسان پریشان ہیں ان کو حل کرنا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ متحدہ کسان تنظیم کا یہ ماننا ہے کہ اگر ابھی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالا گیا تو وہ ہمارے مطالبات کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی اور مستقبل میں بھی کسانوں کی صورت حال سابق کی طرح جوں کی توں برقرار رہے گی لہٰذا یہی وقت ہے کہ حکومت پر دباؤ برقرار رکھا جائے اور مطالبات کو منوایا جائے۔
کسانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کی پیداوار کی جملہ لاگت پر مبنی ایم ایس پی دی جائے جو تمام زرعی پیداوار کے لیے ہو اور اس کو تمام ہی کسانوں پر لاگو کیا جائے اور اس کو قانونی حق بنایا جائے تاکہ ملک کے ہر کسان کو اس کی پیداوار کا جائز حق مل سکے۔ وہ جو بھی فصل اگاتا ہے اس کی پوری فصل حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ایم ایس پی پر بیچے جانے کی ضمانت دی جا سکے۔ کسانوں کا یہ مطالبہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور نہ ہی اس پر قانون سازی کی کوشش کی چاہے وہ کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی یا اپنے آپ کو کسان دوست کہنے والی جنتا دل کی۔ کسی نے بھی کوشش نہیں کی کہ ایم یس پی پر قانون بنے۔ موجودہ حکومت کے تو کیا کہنے وہ اقتدار پر کسانوں کی مدد سے ہی آئی لیکن کسانوں کو تباہ وبرباد کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
گزشتہ کچھ دنوں سے اخبارات اور ٹی وی مباحثوں میں یہی موضوع زیر بحث ہے کہ ایم یس پی پر قانون بننا چاہیے یا نہیں؟ اگر قانون سازی ہوتی ہے تو حکومتی خزانے پر بھاری بوجھ پڑے گا، ملک کی معیشت برباد ہو جائے گی، حکومت دیوالیہ کا ہو جائے گی، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایم یس پی پر کوئی قانون سازی ہو۔ کارپوریٹس کے پروردہ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اتھارٹی اداروں پر حکومت کو مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے وہ کیوں اس پر قانون سازی کرے گی اگر وہ اس میں مداخلت کرتی ہے تو بازار مندی کا شکار ہو جائیں گے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ کسانوں کا احتجاج تھا کہ تین قوانین کو منسوخ کیا جائے اور حکومت نے اسے مان لیا ہے تو پھر نئے مطالبات کا کیا جواز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ کسان تنظیم کے شروع ہی سے تین مطالبات رہے ہیں یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔ غور کیا جائے تو یہ مطالبہ راجیو گاندھی کی دور حکومت میں ہی کیا گیا تھا۔ احتجاج کے مرکزی قائد راکیش ٹکیٹ کے والد نے اُس وقت ہونے والے احتجاج کی رہنمائی کی تھی۔ پھر 2011ء میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جو اُس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ان کی قیادت میں وزرائے اعلیٰ کے ایک وفد نے منموہن سنگھ کو رپورٹ پیش کی تھی جس میں مطالبہ تھا کہ ایم یس پی کو قانونی حیثیت دی جائے۔ پھر 2017ء میں کمیشن فار اگریکلچر کاسٹ اینڈ پرائسز نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا کہ ایم یس پی کو قانونی حیثیت دی جائے۔
یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ کم ازکم قیمت خرید تو اب بھی لاگو ہے پھر اس پر قانون سازی کی کیا ضرورت ہے؟ کے لیے پر تو عمل آوری ہو رہی ہے پھر یہ مطالبہ کیوں؟ یہ بات درست ہے کہ ایم یس پی ورق پر تو لکھا ہوا ہے حکومتی لحاظ سے تیئیس زرعی پیداواروں پر یہ ایم یس پی لاگو ہے، مرکزی حکومت (سی اے سی پی) کی سفارش پر تیئیس فصلوں کے لیے ایم ایس پی کا اعلان تو کرتی ہے جیسے دھان، گیہوں، مکئی، جوار، موتی جوار، جو، راگی، چنا، تور، مونگ، اُڑد دال، مونگ پھلی، سرسوں، سویا بین، تل، سورج مکھی، زعفران کاذب (جس سے تیل نکلتا ہے)، نائجر کے بیج (سفید تل)، کھوپرا، گنا، کپاس اور کچا جوٹ۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ سوائے دھان اور گیہوں کے یہ ایم یس پی کسی پر بھی لاگو نہیں ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ دو فصلوں پر بھی ایم یس پی ساری ریاستوں میں یہ لاگو نہیں ہے۔ پنجاب، ہریانہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور مدھیہ پردیش صرف ان ہی چار پانچ ریاستوں میں یہ لاگو ہے۔ پھر ان دونوں فصلوں میں بھی انتیس فیصد دھان اور گیہوں چوالیس ہی ایم یس پی پر خریدی ہوتی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق ملک میں صرف اور صرف چھ فیصد کسان ہی ایم یس پی سے فائدہ اٹھاتے ہیں باقی چورانوے فیصد کسانوں کو ایم یس پی حاصل ہی نہیں ہوتا۔ نریندر مودی نے کبھی چیخ چیخ کر کہا تھا کہ ’’ایم یس پی تھا ہے اور رہے گا‘‘ لیکن اعداد وشمار سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایم یس پی نہ کبھی تھا نہ آج ہے، اسی لیے حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس پر قانون سازی کرے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایم یس پی کو قانونی درجہ ملنے سے ماحولیاتی خرابی پیدا ہو سکتی ہے، پانی کا استعمال زیادہ ہو گا جس کی وجہ سے ملک میں پانی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، کسان دھان اور گیہوں کی فصلیں ہی اُگائیں گے کیوں کہ اس میں آسانی ہے اور اس کا فائدہ چند ریاستوں کو ہی ہو گا وغیرہ۔ بات تو واجبی نظر آتی ہے۔ ہمارا ملک دالوں کی پیداوار میں خود مکتفی نہیں ہے اسے دیگر ممالک سے دالیں درآمد کرنی پڑتی ہیں، اسی طرح خوردنی تیل کی پیداوار میں بھی وہ خود مکتفی نہیں ہے وہ بھی ملک میں درآمد ہوتا ہے، پھر کیوں حکومت کسانوں کو یہ نہیں کہتی کہ وہ متبادل فصلیں اُگائیں؟ کیوں کسان متبادل فصلیں اُگانے میں دلچسپی نہیں دکھاتے؟ کیوں کسان صرف دھان اور گیہوں کی فصلیں ہی اُگاتے ہیں؟ میری نظر میں اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ حکومت ان دو فصلوں پر ہی ایم یس پی دیتی ہے۔ اسی لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام فصلوں پر ایم یس پی کا قانون مدون کرے اور اسے لاگو کرے پھر دیکھیں کہ کسان کس طرح متبادل فصلیں اُگائیں گے۔ جب تک کسانوں کو یہ یقین نہیں دلایا جاتا کہ ان کی کسی بھی پیداوار کو ایم یس پی مل سکتا ہے اس وقت تک وہ متبادل فصلوں کو اُگانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائیں گے۔ ایم یس پی کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ ساری پیداوار حکومت خریدے، کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ ساری فصلیں حکومت خرید لے تو پھر اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کسانوں کو کم از کم لاگت کی قیمت دلانے کے لیے ایک نظام بنائے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا کام یہ ہو کہ وہ قیمتوں پر نظر رکھیں، اس کے بڑھنے اور کم ہونے پر کنٹرول رکھیں، جب کبھی یہ محسوس ہو کہ قیمتیں کم ہو رہی ہیں تو اس معاملہ میں مداخلت کر کے قیمتوں کو مستحکم کریں، ایک ایسا نظام ترتیب دیں کہ قیمتیں مستحکم رہیں، اس کے لیے ایک فنڈ مختص کیا جائے، اس نظام کو چلانے والے بھی ایمان داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کریں اور مستقل قیمتوں پر نظر رکھیں۔ درآمدات پر بھی کنٹرول کیا جائے تاکہ قیمتیں مستحکم رہ سکیں اور کسان کو اس کی پیداوار کی مناسب قیمت مل سکے۔
***
***
مرکزی حکومت (سی اے سی پی) کی سفارش پر تیئیس فصلوں کے لیے ایم ایس پی کا اعلان تو کرتی ہے جیسے دھان، گیہوں، مکئی، جوار، موتی جوار، جو، راگی، چنا، تور، مونگ، اُڑد دال، مونگ پھلی، سرسوں، سویا بین، تل، سورج مکھی، زعفران کاذب (جس سے تیل نکلتا ہے)، نائجر کے بیج (سفید تل)، کھوپرا، گنا، کپاس اور کچا جوٹ۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ سوائے دھان اور گیہوں کے یہ ایم یس پی کسی پر بھی لاگو نہیں ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ دو فصلوں پر بھی ایم یس پی ساری ریاستوں میں یہ لاگو نہیں ہے۔ پنجاب، ہریانہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور مدھیہ پردیش صرف ان ہی چار پانچ ریاستوں میں یہ لاگو ہے۔ پھر ان دونوں فصلوں میں بھی انتیس فیصد دھان اور گیہوں چوالیس ہی ایم یس پی پر خریدی ہوتی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق ملک میں صرف اور صرف چھ فیصد کسان ہی ایم یس پی سے فائدہ اٹھاتے ہیں
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021