کرناٹک پولیس نے سی اے اے مخالف اسکولی ناٹک پر ملک غداری کا مقدمہ درج کیا، صدر مدرس اور بچے کی ماں کو بھیجا جیل
بنگلور، جنوری 31: کرناٹک کے بیدار ضلع میں واقع ایک اسکول کی صدر مدرس اور ایک بچے کی ماں کو جمعرات کے روز پولیس نے اسکول کے سالانہ تقریب میں سی اے اے کے خلاف ناٹک کے لیے ان پر ملک غداری کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرنے کے بعد جیل بھیج دیا۔
جمعرات کی سہ پہر کم از کم تین بچوں، ان کے والدین اور اسکول کے اساتذہ کو تفتیش کے لیے پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا۔ گھنٹوں پولیس اسٹیشن میں رکھنے کے بعد انھیں شام کو ساڑھے سات بجے کے قریب باضابطہ طور پر گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس نے الزام لگایا کہ چوتھی، پانچویں اور چھٹی کلاس کے بچوں نے شہریت ترمیمی قانون مخالف اس ڈرامے میں حصہ لیا تھا، جس میں وزیر اعظم کو تھپڑ مارنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس ڈرامے کو 21 جنوری کو اسکول کے پروگرام میں پیش کیا گیا تھا۔ پولیس نے دائیں بازو کے کارکن کی شکایت پر پانچ دن بعد کارروائی کی۔
گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بیدار پولیس سپرنٹنڈنٹ سریدھارا ٹی نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا: "ملزم- شاہین اسکول کی انچارج ہیڈ مسٹریس فریدہ بیگم اور مکالمہ پیش کرنے والی طالبہ کی والدہ انوجا منسہ، جنھوں نے مبینہ طور پر وزیر اعظم کو تھپڑ مارنے کا ذکر کیا تھا، کو پولیس نے 26 جنوری کو دائر مقدمے کے بعد جمع کیے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر گرفتار کر لیا ہے۔”
تاہم اسکول کے حکام نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں وزیر اعظم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ڈرامے میں ایک خاص لائن موجود تھی جس نے انھیں مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
اسکول کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر (سی ای او) توصیف میڈیکری نے دی وائر کے حوالے سے بتایا "ایک لڑکی نے اس ڈرامے کے مکالمے کے ایک حصے میں ایسے کسی بھی شخص کو چپل سے مارنے کی بات کی تھی جو کبھی بھی اس سے اس کے دستاویزات مانگنے کی ہمت کرے گا۔ یہ لائن عمومی تھی اور اس میں کسی کو نشانہ بنانے کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اس کی غلط ترجمانی کی گئی ہے۔”
انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے میڈیکری نے کہا کہ بچوں کے والدین نے پولیس کے ذریعہ بچوں کے حقوق سے متعلق قومی تحفظ کمیشن میں بچوں کو دماغی تشدد کا شکار بنانے کی شکایت درج کروائی ہے۔ پولیس اسٹیشن کے اندر پوچھ گچھ کی تصویر کے ساتھ شکایت میں کہا گیا تھا کہ پولیس اہلکار یونیفارم میں تھے اور کچھ بندوقیں چلارہے تھے۔”
شکایت میں کہا گیا ہے "سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ متعلقہ پولیس افسران نے بچوں کے ساتھ دوستانہ طریقہ کار کے قواعد کی مکمل طور پر خلاف ورزی کی ہے کیونکہ سوالات کرنے والا پولیس افسر رنگین قمیض پہنے ہوئے ہے تاہم دیگر دو اس کے ہمراہ افسران مکمل وردی میں ہیں اور ہتھیار لے کر جارہے ہیں جو دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کے اثرات بچوں کے لیے تکلیف دہ ہیں۔”
اسکول نے بچوں اور ان کے والدین کو سی اے اے اور مرکزی حکومت کے دو دیگر متنازعہ منصوبوں، قومی آبادی کے اندراج کے لیے ملک گیر مشق اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے بارے میں روشنی ڈالنے کے لیے یہ پروگرام ترتیب دیا تھا۔
11 دسمبر کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔