کامياب باکسر ويلہيم اوٹ دائرہ اسلام ميں داخل
’’ميں فخر سے کہتا ہوں: ہاں! ميں مسلمان ہوں‘‘
جعفر تابش، جموں وکشمير
دنيا کا کوئي بھي شخص، چاہے وہ جھونپڑ پٹي ميں رہنے والا ہو يا کسي بلند وبالا عمارت ميں، اسکول ميں پڑھنے والا چھوٹا سا بچہ ہو يا يونيورسٹي ميں تعليم حاصل کرنے والا جوان، دوکاندار ہو يا معمار، افسر ہو يا مزدور۔ ايک خواب ہميشہ اس کي آنکھوں ميں رہتا ہے وہ يہ کہ وہ خود کو ہر محاز پر کامياب ديکھنا چاہتا ہے۔
کوئي شخص دنيا اور آخرت دونوں کي کاميابي چاہتا ہے اور کوئي آخرت کو بھلا کر ساري عمر دنياوي کاميابي کے پيچھے بھاگتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ دنيا کي رعنائيوں ميں اس قدر گم ہو جاتے ہيں کہ اسے ہميشہ رہنے والي شئے سمجھ ليتے ہيں اور اگر آخرت پر ايمان رکھتے بھي ہوں تو اپني خواہشاتِ نفس کے آگے ڈگيں ڈال ديتے ہيں اور آخرت کي کاميابي سے محروم ہو جاتے ہيں۔ کچھ لوگ دنيا کي کاميابي حاصل تو کر ليتے ہيں ليکن انہيں چين نہيں آتا اور وہ اصل حقيقت کي تلاش ميں لگ جاتے ہيں حالانکہ وہ ان سے کوسوں دور ہوتي ہے ليکن وہ اپني نيک نيتي اور اخلاص کي وجہ سے حقيقت تک رسائي حاصل کر ليتے ہيں۔آغازِ کائنات سے لے کر آج تک اس کرہ ارض پر ايسيے نہ جانے کتنے ہي واقعات رونما ہوئے ہوں گے اور آج تک بھي ہو رہے ہيں۔ اس کي تازہ مثال آسٹريا کے (Mixed Martial Arts) کے مشہور باکسر ويلہيم اوٹ (Wilhem Ott) ہيں۔
1982 ميں آسٹريا ميں پيدا ہونے والا ويلہيم اوٹ آج زندگي کے اس مقام پر پہنچا ہوا ہے جہاں پہنچنے کا کچھ لوگ صرف خواب ديکھ سکتے ہيں۔
اپني باکسنگ کے ليے مشہور ويلہيم کو لوگ ايک دوسرے نام دي اميزنگ (The Amazing) سے بھي جانتے ہيں۔
38 سالہ ويلہيم نے اپنے پرو باکسنگ کا پہلا ميچ 2008 ميں کھيلا اور جيت حاصل کي۔ اور ابھي تک اپنے آخري پانچ مقابلوں ميں سے چار ميں فتح حاصل کر چکا ہے۔ويلہيم کا شمار يورپ کے 615 باکسرز ميں 74 ويں نمبر پر ہوتا ہے۔ ابھي تک 37 مقابلوں ميں حصہ لينے والا ويلہيم 18 مقابلے جيت چکا ہے۔ جب کہ 18 مقابلوں ميں اسے شکست کا سامنا بھي کرنا پڑا اور ايک مقابلے کا نتيجہ برابر رہا۔ان تمام کاميابيوں اور شہرت کے باوجود ايک چيز تھي جو ويلہيم کو بے چين کيے ہوئے تھي اور وہ تھي حق کي تلاش۔ اسي حق کي تلاش ميں رہنے والا شخص آخر کار راہِ ہدايت پا گيا اور خود کو اسلام کے دائرے ميں شامل کر ليا۔ويلہيم ايک عيسائي گھرانے ميں پيدا ہوا تھا۔ ايک ايسے مذہب ميں جو اپني اصل کو گنوا کر شرک جيسے ہلاک کر دينے والے مرض ميں مبتلا ہو چکا ہے۔قرآنِ مجيد نے جنہيں اہلِ کتاب کہا، جنہيں دنيا کي بادشاہت عطا کي گئي تھي، جنہيں ايک مکمل نظامِ زندگي عطا کيا گيا تھا۔ ليکن افسوس کہ انہوں نے اسے چند ايک عبادات، اور رسومات تک محدود کر ديا اور اسے نہ صرف اپني اجتماعي زندگي سے دور کر ديا بلکہ اپني انفرادي زندگي ميں بھي مذہب کو صرف نکاح اور موت کے معاملات تک محدود کر ديا۔
بالکل وہي کام آج امتِ مسلمہ قرآن اور دينِ اسلام کے ساتھ کر رہي ہے کہ ايک مکمل نظامِ حيات کو چند ايک عبادات اور رسومات کي حد تک محدود کر کے زندگي کے ہر شعبے ميں نظامِ کفر کو قائم کرنے ميں اپني ساري قوتيں صرف کر رہي ہے۔ليکن اللہ تعاليٰ ہر دور ميں کعبے کي پاسباني کے ليے صنم خانوں سے بہادر، نيک اور پاک سيرت انسانوں کو نکالتا رہا ہے۔
ويلہيم اوٹ جيسے کامياب باکسر کا اسلام قبول کرنا بظاہر ايک عام سي بات لگتي ہے ليکن ايسے دور ميں جب کہ باطل اپني پوري کوشش اور وسائل اس بات پر صرف کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو دين کے اصل مقصد سے دور رکھا جائے تو ايسے ميں کسي شخص کا فرعون کے قافلے سے نکل کر موسيٰ کے قافلے ميں شامل ہو جانا کفر کے ايوانوں ميں ہلچل پيدا کر ديتا ہے۔ويلہيم نے اسلام قبول کرنے کي خبر کو اپنے انسٹاگرام اکاونٹ کے ذريعے لوگوں تک پہنچائي ہے۔ اپنے پيغام ميں انہوں نے لکھا کہ وہ بہت عرصے سے اسلام کے بارے ميں جاننے کي کوشش کر رہے تھے ليکن مصروفيات کي وجہ سے وہ اسلام سے مکمل طور پر روشناس نہيں ہو پار رہے تھے۔موجودہ لاک ڈاؤن ميں انہيں موقع ملا کہ وہ اسلام کے بارے ميں جانيں چنانچہ انہوں نے اسلام کے بارے ميں پڑھا سمجھا اور اس کے بعد اسلام قبول کر ليا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد ويلہيم نے اپنا نام خالد رکھ ليا۔
ويلہيم نے ايک ويڈيو پيغام ميں کلمہ شہادت پڑھا جب کہ وہ ويڈيو اب تک ايک کروڑ سے زائد افراد ديکھ چکے ہيں۔ ويلہيم نے اپنے پيغام ميں لکھا کہ جب کبھي ان پر برے حالات آئے تو اسلامي تعليمات نے انہيں بہت زيادہ مدد فراہم کي اور ان کے ليے اس مشکل سے نکلنا بہت آسان ہو گيا۔
انہوں نے لکھا:
"My faith is now strong enough that I can recognize the only true God and speak the Shahadah to be able to say proudly, yes I am a Muslim”
’’ ميرا ايمان اب اس قدر مضبوط ہو گيا ہے کہ ميں خدائے واحد کو پہچان سکتا ہوں اور شہادت کا اعلان کر سکتا ہوں تاکہ ميں فخر سے يہ بات کہہ سکوں کہ ہاں ميں مسلمان ہوں‘‘
ويلہيم نے اسلام قبول کرنے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ جمعہ کي نماز بھي ادا کي اور اس کي تصاوير سوشل ميڈيا پر بھي نشر کيں جہاں انہيں بہت زيادہ محبت اور عزت کي نگاہ سے ديکھا گيا۔
کلمہ شہادت ادا کرنے سے پہلے ويلہيم نے فيس بک پر ايک پيغام شائع کيا تھا جس ميں انہوں نے عيسائيت سے دوري کا باضابطہ اعلان کيا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ آج کے بعد عيسائيت سے ان کا کوئي تعلق نہيں ہوگا۔
ويلہيم اوٹ کا اسلام قبول کرنا امت مسلمہ کے نوجوانوں کے ليے چراغِ راہ کي مانند ہے۔ويلہيم کے بيانات پر غور کيا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ويلہيم نے اپنے وقت کا بہترين استعمال کيا۔ فرصت کے لمحات ميں اپنے رب کو پہچاننے کي کوشش کي۔ يہي عمل نبي ﷺ نے غارِ حرا ميں کيا تھا، آپ اپنا اکثر وقت وہاں غور وفکر ميں گزارتے تھے۔
وقت کا زياں ہر دور اور ہر معاشرے ميں برا سمجھا جاتا رہا ہے۔ وقت کا ہر حال ميں بہترين استعمال کيا جانا چاہيے۔سوشل ميڈيا کے اس دور ميں وقت کا بہترين استعمال ايک بہت بڑا چيلنج بنتا جا رہا ہے۔
تاريخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے وقت کے نشيب وفراز کو نہيں پہچانا وہ قوميں دنيا سے ہميشہ ہميشہ کے ليے مٹا دي گئيں۔