کارکن ہرش مندر نے کپل مشرا اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر کے مطالبے کی درخواست واپس لی، جمعیت نے عدالت سے اقلیتی کمیشن کی حقائق کی رپورٹ پر غور کرنے کی درخواست کی
نئی دہلی، جولائی 27: دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز حقوق کے کارکن ہرش مندر کو بی جے پی کے کپل مشرا، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسے دیگر سیاستدانوں کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست واپس لینے کی اجازت دے دی۔
ہائی کورٹ نے یہ اجازت مندر کے وکیل کپل سبل کی جانب سے عدالت کو مطلع کرنے کے بعد دی کہ مندر سیاسی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے CRPC کے سیکشن 156 (3) کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنی درخواست منتقل کر رہے ہیں۔
لائیو لا ڈاٹ اِن کے مطابق چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس پرتیک جلان نے مندر کو اپنی درخواست واپس لینے اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کرنے کی اجازت دے دی۔
جمعیت نے عدالت سے دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر غور کرنے کی درخواست کی
سماعت کے دوران جمعیت علمائے ہند نے کچھ دن قبل جاری کردہ دہلی اقلیتی کمیشن کی حقائق کی رپورٹ کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کروائی اور اس پر غور کرنے کی اپیل کی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فسادات میں نہ صرف مسلمانوں کے رہائشی اور کاروباری مقامات فسادیوں نے تباہ کردیے تھے بلکہ ایک درجن سے زیادہ مساجد اور متعدد دیگر مذہبی مقامات کو بھی تباہ کیا گیا تھا۔
جمعیت ان سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے درخواست گزاروں میں سے ایک ہے، جنھوں نے فسادات سے قبل فرقہ وارانہ اشتعال انگیز تقریریں کیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد معاملات میں پولیس نے مسلم متاثرین کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔ مزید یہ کہ مسلمان اس کا نشانہ بنے، اس کے باوجود ان کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ پولیس کے ذریعے ملزم بنائے جانے والے ہر 10 افراد میں سے نو مسلمان ہیں۔ اور فسادات کے دوران ہلاک ہونے والے 53 میں سے 40 افراد مسلمان ہی تھے۔