اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ
1857ء کی پہلی جنگ آزادی جسے بغاوت ہند بھی کہا جاتا ہے، کی ناکامی کے بعد سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہوئے۔ چونکہ اس جنگ آزادی کی قیادت اکثر مسلمانوں نے کی تھی، انگریزوں نے ہر اعتبار سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے ہر وہ گُر اپنائے جو وہ اپنا سکتے تھے۔ بہادر اور صاحبِ سیف وقلم مسلمانوں کو پھانسی دے دی یا توپ کے دہانے سے باندھ کر اُڑا دیا۔ مسلمانوں کا جو تعلیمی نظام تھا اُسے ختم کرکے اپنا تعلیمی نظام تھوپا۔ حکومت کی زبان جو مسلمانوں کے زیر اثر فارسی تھی اُسے اردو سے بدل ڈالا۔ چونکہ اس جنگ میں ہندو اور مسلمان ایک صف میں کھڑے حکومت کو للکار رہے تھے اس بھائی چارے کو ختم کرنے کے لیے دونوں طرف اپنے کرائے کے پٹھو لگوائے، جنہوں نے جھوٹی تاریخ سنا کر، ایک دوسرے کے خلاف دونوں جانب نام نہاد ظلم و ستم کی کہانیاں پھیلا کر آپسی دشمنی کو ہوا دی اور ان دونوں کے بیچ نفرت کی وہ آگ جلائی کہ آج تک اس کی تپش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ برعکس زمانے کے ساتھ ساتھ اور تیز ہوتی چلی گئی۔ اتنا سب سہنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان فوراً خود احتسابی کی طرف متوجہ ہوتے، اپنے صفوں کو درست کرتے اور دشمن کے خلاف متحدہ محاذ تیار کرتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔اس ناکام جنگ آزادی کے بعد جتنا انتشار اور آپسی تفرقہ بازی بر صغیر کے مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کی مثال انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ ایک طرف شیعہ سنی کے نام پر گروہ بندی اور فساد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تو دوسری طرف سنیوں میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کے نام سے دیڑھ اینٹ کی مسجدیں بننی لگیں اور وہ ہنگامہ برپا ہوا کہ الامان و الحفیظ، ایک دوسرے کے خلاف دھڑلے سے کفر کے فتوے داغے گئے، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دے دیا گیا، شای بیاہ کی ممانعت کردی گئی، سماج میں آپسی دشمنی کو قائم رکھنے اور بڑھانے کے لیے جتنا کچھ ہوسکتا تھا وہ کر دیا گیا اور یہ سب دین کے نام پر، اسلام کی خدمت کے نام پر کیا گیا افسوس اس بات پر ہے کہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اتنا ہی نہیں اس بیچ کئی گمراہ فرقے بھی وجود میں آگئے جو اسلام کے مسلمہ اصولوں کی غلط تعبیر پیش کر کے اپنے آپ کو حق کا داعی بتانے لگے، عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے جھانسے میں آگئی۔ ان فرقوں کو بڑھاوا دینے میں ہمارے نام نہاد مصلحین کا بڑا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے رائی کو پَربت بنا دیا۔ ایسا نہیں کہ کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ تھم گیا، اس تفرقہ بازی کے خلاف جس نے بھی آواز اُٹھائی اس کو گمراہ قرار دے کر وہ ہنگامہ مچایا گیا کہ دانشور اور فکر مند لوگ ان اختلافات کو ختم کرنے لیے سنجیدہ کوششوں سے کترانے لگے۔ اس بیچ تقسیم وطن کا عظیم سانحہ پیش آیا، اس میں بھی سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہی ہوئے، جنہوں نے مذہب کے نام پر اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرلیا لیکن وہ بھی اپنے آپ کو متحد نہیں رکھ سکے، روحانی اعتبار سے کئی ٹکروں میں بٹے ہوئے تو تھے ہی اپنی جغرافیائی اکائی بھی ثابت نہ رکھ سکے۔ چند صدیوں میں ہی دو لخت ہو کر جس اصول کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی مانگ رکھی تھی اسی کو ختم کر دیا۔ جو مسلمان وطن عزیز میں ہی رہ گئے وہ اس سانحے کے بعد اگر سنبھل جاتے تو بہت کچھ بہتری آسکتی تھی لیکن اس بار بھی ایسا نہیں ہوا، جو تفرقات پیدا ہوگئے تھے انہیں اور ہوا دی جانے لگی، فرقوں کے اندر فرقے، مسجدوں کے بیچ دیواریں، مدرسوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو نصاب کا حصہ بنا کر آپسی فساد کا زہر اتنا سرایت کر دیا گیا ہے کہ فطرتِ سلیم بھی ان کی اصلاح کرنے سے عاجز نظر آرہی ہے۔آزادی کے ان ستر سالوں میں ہمارے آس پاس جو قومیں بستی ہیں ان کا جائزہ لیں اور پھر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کو جی کرتا ہے۔ وہ لوگ علم کے میدان میں معاشرت کے میدان میں اصول و ضوابط کے میدان میں کہیں سے کہیں بڑھ گئے اور ہم آ ج بھی،”تو کافر، میں جنتی“ کے گردان میں پھنسے رذیل سے رذیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ان ستر سالوں میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہم پر مسلط کیا گیا، ہماری تمام معاشی اکائیاں منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کردی گئی، ہمارے تعلیمی اداروں پر ہمارے اختیارت صفر کے برابر کردیے گئے، لیکن پھر بھی ہمارے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے ہمارے دلوں سے کھونے کا احساس ہی ختم ہوگیا ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔“ ابھی حال میں ایک فرقے کے عالم دین کی موت پر دوسرے فرقے کے نام نہاد علماء دین کے سوشل میڈیا پر تبصروں سے ہماری ذہنیت کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ہم کس مٹی سے بنے ہیں ”تو کافر میں مومن“ کا یہ کھیل نہ جانے کب ختم ہوگا اور ختم ہوگا بھی کہ نہیں،۔ افسوس صد افسوس!! ہماری ترجیحات کبھی بھی تعلیم اور معاشی استحکام نہیں بنے، اگر کسی نے اس طرف توجہ دلائی تو اسے دنیا پرست کہہ کر خاموش کر دیا گیا، جنت اور آخرت کی زندگی کو اصل کہہ کر دنیا کو ہیچ بتا کر ایسا بیانیہ تیار کیا گیا کہ عوام غور و فکر سے ہی فارغ ہو جائیں حالانکہ آخرت کی جس لامتناہی زندگی کا فیصلہ دنیا کی جس مختصر زندگی پر رکھا گیا ہے وہ زندگی اور اس سے منسلک نظام ہیچ کیسے ہوسکتا ہے؟ وطن عزیز میں آنے والا دور ہمارے لیے کتنا سخت ہوگا اس کا بھر پور اندازہ ہوتے ہوئے بھی ہم جس غفلت میں مبتلا ہیں، جس لاپرواہی کے ساتھ حالات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کے مسجدوں اور مدرسوں میں مشغول ہیں اس کا خمیازہ یقیناً اور زیادہ بھگتنا ہوگا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ واپسی کے تمام راستے مسدود ہوں گے۔ ہم چاہ کر بھی اپنی صفیں سیدھی نہیں رکھ سکیں گے، اس وقت اتحاد ایک ایسا خواب ہو جائے گا جس کی تعبیر ناممکن ہو گی۔ ابھی بھی وقت ہے، اگر ہم سنبھلنا چاہیں تو وقت ہمیں موقع دینے کے لیے تیار ہے۔ حالات بدل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی ہوگی، ترجیحات کو بدلنا ہوگا، تعلیم، معاشی استحکام اور سیاست پر منصوبہ بند طریقے سے لائحہ عمل مرتب کرکے ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یقین جانیے ہماری قسمت بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
افسوس صد افسوس!! ہماری ترجیحات کبھی بھی تعلیم اور معاشی استحکام نہیں بنے، اگر کسی نے اس طرف توجہ دلائی تو اسے دنیا پرست کہہ کر خاموش کر دیا گیا، جنت اور آخرت کی زندگی کو اصل کہہ کر دنیا کو ہیچ بتا کر ایسا بیانیہ تیار کیا گیا کہ عوام غور و فکر سے ہی فارغ ہو جائیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21