ڈیجیٹل انڈیا: کیا دیہی رسائی اور فراہمی روزگار کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا؟
2024تک ای۔ کامرس کاحجم 100ارب ڈالرہوسکتا ہے۔ ڈیجیٹل معیشت سے توقعات لیکن درپیش چیلنجز سے نمٹنا ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
حالیہ عام بجٹ میں ڈیجٹلائزیشن کا بڑا چرچا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معیشت کو مہمیز دینے کے لیے روزگار سے متعلق کئی ایسی باتیں ہورہی ہیں جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ڈیجیٹل معیشت 2025تک تقریباً چھ کروڑ روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔ اس کے ساتھ تقریباً 4کروڑ روایتی روزگار ختم بھی ہوسکتے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی انقلاب کے اس دور میں بھارت میں اس منصوبہ کا بڑی تیزی سے آغاز ہوچکا ہے۔ ملک کے گاوں گاوں کو آئی ٹی اور انٹرنیٹ کے ذریعہ جوڑنے کے لیے ڈیجیٹل انڈیا مہم شروع ہوچکی ہے جس سے خاص طور سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ آئی ٹی کے میدان میں بھارت کی نئی اڑان سے ملک کی ترقی کو نئی رفتار ملے گی۔ عالمی پیمانے پر آٹومیشن روبوٹکس اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کی وجہ سے کئی شعبوں میں لوگ روزگار سے بے روزگاری کی طرف جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈیجیٹل شعبوں میں روزگار کے مواقع تیزی سے پیدا ہورہے ہیں۔ اس لیے حالیہ بجٹ میں معیشت کو پٹری پر لانے کی بڑی تیزی سے کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ ڈیجیٹل لین دین کے فروغ کے لیے ملک بھر کے 75اضلاع میں 75ڈیجیٹل بینکوں کو قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ساتھ ہی دیڑھ لاکھ پوسٹ آفسوں کو کور بینکنگ سے جوڑا جائے گا۔ موبائل کے لیے 54اسپکٹرم کی نیلامی ہوگی اس سے موبائل کے ذریعہ لوگ اپنے فائیو جی۔ اسمارٹ فون کو زیادہ ہی بہتر طریقے سے کام میں لگاسکیں گے جس سے ہائی اسپیڈ نیٹ سرفنگ اور فاسٹ ویڈیواسٹریمنگ کو بہتر ڈھنگ سے استعمال میں لایا جاسکے گا۔ تعلیم کے میدان میں پی ایم ای ودیا کے ون کلاس ون ٹی وی چینل پروگرام کو 20سے 200ٹی وی چینلوں تک بڑھایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ ایک ڈیجیٹل یونیورسٹی بھی بنائے جانے کا منصوبہ ہے۔ معلوم نہیں یہ سب اعلانات میڈیا میں سرخی بٹورنے میں لگ جائیں گے یا زمین پر حقیقت بنیں گے؟ ASER اسٹڈی کے مطابق حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ کورونا قہر کے درمیان 15کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم رہے اور بہت سوں نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ زراعت کے شعبہ میں ڈرون ٹکنالوجی کو کام میں لگاکر جراثیم کش کیمیکلس کے چھڑکاو، فصل کی کیفیت کا اندازہ اور زمینوں کی پیمائش میں استعمال کیا جاسکے گا۔ کسانوں کو زراعت کے متعلق نئی جانکاریاں دی جاسکیں گی جس سے سبھی شعبوں میں پیپر لیس اینڈ ٹو اینڈ ای ۔ بل کی شروعات بھی ہوسکے گی۔ یہ بجٹ 2022-23کے مجوزہ ڈیجیٹل مالیاتی نظام، ڈیجیٹل معیشت اور فن ٹیک شعبوں کو سرعت سے آگے بڑھائے گا۔ ان تمام شعبوں میں لین دین کے لیے آر بی آئی کے ذریعہ ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) کے استعمال کو بڑھاوا دیا جائے گا جس سے ڈیجیٹل کرنسی کو فزیکل کرنسی کے متبادل کے طور پر کام میں لگایا جاسکے گا۔ اس سے محض مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی لین دین کو بھی بڑھاوا ملے گا۔ گزشتہ سات سالوں سے ڈیجیٹل معیشت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ ڈیجیٹل شناخت اور ڈائرکٹ بینفٹ ٹرانسفر(DBT)، ملکی ڈیجیٹل معیشت کی بنیاد بھی مستحکم کرے گی۔ حکومت کے 9بڑے منصوبوں میں ڈیجیٹل انڈیا پورٹل ، موبائل ایپ ، سوچھ بھارت ایپ اور آدھار ایپ وغیرہ جیسی سہولتیں دی جائیں گی۔ اس کے ذریعے لوگ حکومت سے جڑیں گے۔ اس سے بدعنوانی کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا۔ دور سنچار بھارت کے لیے 11 ریاستوں میں انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سہولت میسر کروائی جائے گی۔ نیکسٹ جنریشن ٹیک کے علاوہ الکٹرانکس ٹکنالوجی کے میدان میں ملک کی خود کفالت کا ہدف بھی ہے۔ سبھوں کے لیے موبائل کنکٹیویٹی بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا میں صنعت کاروں نے سرمایہ کاری کے لیے کافی بھروسہ دلایا ہے۔ ریلائنس انڈسٹریز کے صدرنشین مکیش امبانی نے 2.5لاکھ روپے بھارتی انٹر پرائزیز کے سی او سنیل بھارتی نے ایک لاکھ کروڑ روپے، ادتیہ برلا گروپ کے صدرنشین کمار منگلم برلا نے 54 ہزارر کروڑ روپے ویدانتا ریسورس کے انل اگروال نے 40ہزار کروڑ روپے اور ریلائنس گروپ کے صدرنشین انل امبانی نے 10 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی بات کہی ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اول الذکر سرمایہ کاری سے 5لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ مکیش امبانی کی کمپنی وائرلیس براڈ بینڈ اور موبائل ہینڈ سیٹ میں سرمایہ کاری کرے گی۔ دوسرے صنعت کار سنیل بھارتی متل کی کمپنی فائیو جی کنکٹیویٹی، ای تعلیم و صحت پر سرمایہ کاری کرے گی۔ برلا گروپ نیٹ ورک رول آوٹ، براڈ بینڈ اور وائی فائی پر سرمایہ کرنے والی ہے۔ اس طرح انل امبانی کی کمپنی ڈیجیٹل کلاوڈ اور ٹیلی کام پر دھیان دے گی۔ ٹاٹا گروپ نے اعلان کیا کہ فوراً ہی ان کی کمپنی ٹاٹا کنسلٹینسی سرویس 60ہزار لوگوں کو روزگار دے گی۔ ویدانتا گروپ نے ای تعلیم کو زمین پر اتارنے کا بھروسہ دلایا ہے۔
واضح رہے کہ اسی ٹکنالوجی کے ذریعہ 44کروڑ سے زیادہ جن دھن اکاونٹس میں رقم کورونا کے قہر کے دوران منتقل کیا گیا۔ اسی مدت میں کاروباری سرگرمیاں تیزی سے آن لائن ہوتی ہیں۔ ورک فرم ہوم اور آوٹ سورسنگ کو تقویت ملنے سے بھارت میں ڈیجیٹل کاروبار اونچائی پر پہونچتا ہے۔
دنیا کے ممالک کی کئی کمپنیاں، تعلیم ، صحت ، زراعت اور خوردہ شعبوں کے ای کامرس مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے آگے آئی ہیں جو دراصل انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کو بڑھتی تعداد موبائل اور ڈاٹا پیکیج میں سہولت ہونے سے کاروبار تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ موبائل براڈ بینڈ انڈیا ٹریفک (ایم بی ٹی) انڈیکس 2021کے مطابق ملک میں ڈیٹا استعمال کی رفتار سب سے زیادہ ہے۔ براڈ بینڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد 2021میں 79کروڑ ہوگئی ہے جبکہ 2014کے مقابلے ڈیجیٹل ادائیگی 202425تک تین گنا ہوجائے گی۔ 2020میں بھارت میں سب سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین 25.5ارب ہوئے وہیں چین میں 15ارب، امریکا میں 1.2ارب اور برطانیہ میں 2.5ارب ڈیجیٹل معاملتیں ہوئیں۔ گلوبل پروفیشنل سروسز فرم الواریج اینڈ مارسل انڈیا اور سی آئی آئی انسٹی ٹیوٹ آف لاجسٹکس کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ای کامرس (آن لائن طریقے سے تجارت) جو 10ارب ڈالر سے بھی کم تھی وہ 2019میں 30ارب ڈالر سے زائد ہوگئی ہے جبکہ اندازہ ہے کہ 2024تک یہ 100ارب ڈالر سے بھی زائد ہوسکتی ہے۔ اس لیے اب توقع کی جاسکتی ہے کہ بھارت میں ڈیجیٹل انڈیا مہم بڑی سرعت سے آگے بڑھے گی۔ اور اسی دہائی میں عالمی ڈیجیٹل کی شراکت حیران کن ہوگی جس سے ملک میں نئے روزگار اور معاش کے مواقع بڑی تعداد میں ہمارے نوجوانوں کے دسترس میں ہوں گے۔
فی الوقت بڑی آبادی کو انٹرنیٹ سے جوڑنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملک میں اس کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں بن پایا ہے نہ ہی کسی طرح کی تیاری دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت ڈھائی لاکھ گرام پنچایتوں میں سے محض ایک لاکھ 10ہزار گرام پنچایتوں تک انٹرنیٹ پہونچ پایا ہے کیونکہ بجلی کی سپلائی کافی نہیں ہے۔ ملک میں 3000میگاواٹ سے زیادہ بجلی کی کمی رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی کے قابل بنانا ہوگا۔ ڈیجیٹل لین دین کے لیے بھی عام لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انہیں اسمارٹ فون کی خریداری کے لیے آسان قسطوں پر قرض بھی فراہم کرنا ہوگا۔ اسی طرح سائبرکرائم اور ہیکنگ کو قانون سازی کے ذریعے قابو میں کرنا ہوگا تاکہ لوگوں کا یقین مستحکم ہو۔ اس نئی معیشت کے تحت تعلیم، زراعت اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت(آرٹیفیشل انٹلیجنس) کا استعمال بہتر طریقے سے کرنا ہوگا۔
***
***
فی الوقت بڑی آبادی کو انٹرنیٹ سے جوڑنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملک میں اس کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں بن پایا ہے نہ ہی کسی طرح کی تیاری دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت ڈھائی لاکھ گرام پنچایتوں میں سے محض ایک لاکھ 10ہزار گرام پنچایتوں تک انٹرنیٹ پہونچ پایا ہے کیونکہ بجلی کی سپلائی کافی نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022