چھتیس گڑھ کے متعدد گاؤں میں عیسائی خاندانوں کو ’’دھمکی‘‘ دی گئی اور گاؤں سے نکل جانے کو کہا گیا
رائے پور، ستمبر 24: جنوبی چھتیس گڑھ کے ضلع کونڈاگاؤں میں اس وقت کشیدگی پھیل گئی، جب دیہاتی پنچایتوں کے باشندے جمع ہوئے اور مقامی عیسائی خاندانوں کو خبردار کیا کہ وہ ان کے گاؤں سے نکل جائیں۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق مبینہ طور پر مسیحی خاندانوں کے مکانات پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔
کونڈاگاؤں کے سنگن پور میں 1500 سے زیادہ دیہاتی جمع ہوئے اور ایک مظاہرہ کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے دھمکی دی کہ وہ کسی بھی عیسائی کو اپنے علاقے میں رہنے نہیں دیں گے۔
مقامی اہلکار موقع پر گاؤں والوں کو سمجھانے کے لیے پہنچ گئے لیکن وہ اپنے مطالبے پر ڈٹے رہے۔
دیہاتیوں نے مقامی عیسائی خاندانوں سے کہا تھا کہ وہ قبیلے میں واپس آجائیں اور اگر وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کریں۔
کچھ دن پہلے دیہات میں رہنے والے مسیحی برادری کے ممبروں نے کونڈاگاؤں میں پولیس شکایت درج کروائی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ مقامی لوگ انھیں بار بار ہراساں کررہے ہیں اور انھیں اپنی جان ومال کا خوف ہے۔
چھتیس گڑھ کرسچین فورم کے صدر ارون پنّا لال نے الزام لگایا کہ ’’کلکٹر اور ایس پی جیسے سینئر عہدیداروں کی موجودگی کے باوجود عیسائیوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، ان کی املاک میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے اور انھیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مختلف دیہاتوں کے 10 سے زیادہ عیسائی خاندانوں نے ہجوم سے تحفظ کے لیے پولیس اہلکاروں سے رجوع کیا۔ متاثرہ خاندان بالکل بے بسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
کونڈاگاؤں کے ضلع کلکٹر پشپندر مینا نے بتایا کہ وہ اس جگہ پر موجود تھے، جہاں تناؤ برقرار ہے لیکن انھوں نے صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
اخبار کے مطابق ایس پی سدھارتھ تیواری اپنے بیان کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ مقامی ایم ایل اے اور ریاستی کانگریس کے صدر موہن مارکم بھی اپنے تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔