’’پولیس کو مسلح کرنے سے زیادہ متعصبانہ سوچ میں تبدیلی اہم‘‘
آئی پی ایس آفیسر و اتر پردیش کے سابق ڈائرکٹر جنرل وبھوتى نارائن سے خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
’’ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے مجھے کئی فرقہ وارانہ فسادات کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پولیس والوں کا رویہ میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث رہاہے۔ ہر مرتبہ یہی محسوس ہوا کہ پولیس والے ایک خاص قسم کے تعصب اور اقلیت مخالف ذہنیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس میں لازمی طور پر ان کی ناقص تربیت کا ہاتھ تو ہوتا ہی ہے، پولیس فورس میں اقلیتوں کی مناسب نمائندگی کا فقدان بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک کے تقریباً تمام بڑے فسادات کا مطالعہ کرنے کے بعد میرا یہ یقین پختہ ہوا ہے کہ پولیس فورسز میں عملہ کی تعداد، ہتھیار، گاڑیاں، مواصلاتی آلات جیسے’ لاجسٹکس‘ میں اضافہ کرنے سے زیادہ اہم ان کی سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ ایک بڑی اور مسلح پولیس فورس قوت ارادی اور سیکولر طرز عمل کے بغیر ویسا ہی مظاہرہ کرے گی جیسا کہ ہم نے 6دسمبر1992 کو دیکھا ہے، جب بیس ہزار سے زیادہ پولیس والوں کے سامنے بابری مسجد توڑ دی گئی اور وہ کسی مزاحمت کے بغیر خاموش تماشائی بنے رہے تھے۔ ‘‘
یہ باتیں 1975 بیچ کے آئی پی ایس آفیسر و اتر پردیش کے سابق ڈائرکٹر جنرل وبھوتى نارائن رائے نے اپنی کتاب ’’ فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس‘‘ کے دیباچہ میں لکھی ہیں۔ یہ کتاب در اصل ان کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کی کارکردگی پر ریسرچ کیا ہے۔ اس عنوان پر کام کرنے کے لیے انہیں 1994 میں نیشنل پولیس اکیڈمی کی جانب سے فیلوشپ ملی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب ہندی زبان میں لکھی تھی جس کا انگریزی ترجمہ پہلے شائع ہوچکا ہے۔ سال 2000 میں ان کی یہ کتاب ہندی زبان میں شائع ہوئی اور اب اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ وبھوتى نارائن رائے یوپی کیڈر کے حساس آئی پی ایس آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ہندی کہانی نویس کے طور پر بھی مشہور ہیں۔ وہ مہاتما گاندھی بین الاقوامی ہندی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور ان دنوں پرگتی شیل لیکھک سنگھ کے صدر ہیں۔
ہفت روزہ دعوت سے ایک خاص بات چیت میں وبھوتى نارائن رائے نے دہلی کے حالیہ فساد میں پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ’’یہ ایک ایسا فساد ہے جو ریکارڈ ہواہے جس میں ہزاروں گھنٹوں کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ چاہے وہ لوگوں کے موبائل کیمروں کی ریکارڈنگ ہو یا پھر کسی سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ ہو۔ ٹی وی چینلوں نے بھی لائیو رپورٹنگ کی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف پولیس نے چارج شیٹ بنائی ہے تو ظاہر ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ میں ان کے چہرے بھی آئے ہوں گے۔ پولیس کو عدالت میں ان کے خلاف ثبوت پیش کرنا چاہیے تھا۔ ایسے میں مجھے لگتا ہے کہ عدالت میں شاید ہی دہلی پولیس کی تھیوری ٹک پائے گی۔ کیونکہ پولیس کی یہ کارروائی یکطرفہ نظر آرہی ہے جبکہ اس فساد میں مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔
انہوں نے مزید کہا، ایک پل کے لیے مانا جا سکتا ہے کہ شروعات مسلمانوں کی طرف سے ہوئی ہوگی، لیکن اس کے بعد یہ فساد یکطرفہ نظر آنے لگا۔ فسادات میں ہندو اور پولیس ایک طرف ہوجاتے ہیں اور مسلمان دوسری طرف۔ کئی ویڈیوز سامنے آئے جس میں پولیس خود ہی پتھراؤ کرتی یا ہندو بلوائیوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے جبکہ پولیس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب پولیس نے ایک بار خاکی وردی پہن لی تب تو وہ نہ ہندو ہے اور نہ ہی مسلمان۔ بہرحال میرے خیال میں دہلی فساد پر پولیس کی رپورٹ جانبدارانہ اور تعصب پر مبنی ہے۔
تو کیا پولیس کا یہ تعصب آپ نے پہلی بار دیکھا ہے یا ہر فساد میں آپ یہی دیکھتے آئے ہیں؟ اس سوال پر وبھوتی نارائن رائے کہتے ہیں، یہ تو منظم تعصب ہے، یہ ہر فرقہ وارانہ فسادات میں دکھائی دیتا ہے۔ آپ ہر فساد کے بعد گرفتاریوں کو دیکھیں گے تو زیادہ تر مسلمانوں کی ہی گرفتاریاں نظر آئیں گی۔ پولیس کی تمام زیادتیاں انہی کے خلاف ہوتی ہیں۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنی کتاب میں بھی کیا ہے:
’’تقریباً سبھی بڑے فرقہ وارانہ حادثات کے دوران مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد نہ صرف زیادہ تھی ‘بلکہ بیشتر واقعات میں تو یہ 80 فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ تباہ شدہ املاک بھی زیادہ تر مسلمانوں کی ہی تھیں۔ ان حالات میں امن وقانون قائم کرنے والی ایجنسیوں سے یہ امید فطری ہی ہوگی کہ گرفتاریوں اور تلاشیوں کے دوران وہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں اور تناسب میں ہندوؤں کی زیادہ گرفتاریاں کریں اور ان کے گھروں کی زیادہ تلاشیاں لیں۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ ‘‘
غور طلب بات ہے کہ وبھوتى نارائن رائے جب فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کی کارکردگی پر ریسرچ کررہے تھے تب انہیں پولیس کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا اندازہ ہوا۔ وہ پولیس کی ذہنیت کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’ مجھے سب سے زیادہ مشکل ایک عام پولیس والے کی ذہنیت پر قابو پانے میں محسوس ہوئی۔ مجھے جن پولیس افسروں اور دیگر پولیس والوں سے ملاقات کرنے اور بات چیت کا موقع ملا، ان سب کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہی فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ ہاشم پورہ (1987) یا بھاگلپور (1989) جیسے واقعات پولیس کے اندر ذرا بھی احساس ندامت پیدا نہیں کرسکے۔ ہاشم پورہ میں پولیس نے تیس بے قصور مسلمانوں کو مارڈالا اور بھاگلپور میں پولیس کے اشارے پر اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے اقلیتی فرقہ کے 100 افراد کو ذبح کرڈالا۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے میری بہت سے ایسے پولیس دستاویزات تک رسائی حاصل نہ ہوسکی، جن سے تحقیقی جائزے میں مدد ملتی۔ ‘‘
وبھوتی نارائن رائے مزید کہتے ہیں کہ دہلی فساد سے پہلے خاص طور پر اسمبلی الیکشن کے وقت بی جے پی رہنماؤں نے جس طرح کے بیانات دیے، جس طرح سے کپل مشرا نے فساد سے قبل پولیس افسران کی موجودگی میں بھڑکاؤ بیان دیا، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسے میں انصاف تب تک نہیں ہوگا، جب تک دونوں طرف کے لوگوں پر قانونی کارروائی نہ ہو۔ آپ نے ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام معاملوں کو کافی قریب سے دیکھا ہے۔ اس میں آپ کا کیا تجربہ رہا؟ کیامتاثرین کو انصاف ملا ہے؟ اس استفسار پر انہوں نے کہا کہ ہاشم پورہ معاملے میں دیر سے ہی سہی کسی حد تک انصاف تو ملا۔ سب سے زیادہ فکر کی بات یہ تھی کہ حکومت ہند کو اس معاملے کو جتنی سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا نہیں لیا۔ اس معاملے میں تمام ارباب مجاز ناکام ہوگئے، جس میں پولیس، عدلیہ، سیاسی جماعتیں اور میڈیا سبھی شامل ہیں لیکن اس معاملے میں مسلسل 25 سالوں تک میں کچھ نہ کچھ کرتا رہا ہوں۔ حالانکہ ملیانہ ہاشم پورہ سے زیادہ خطرناک معاملہ ہے۔ اس واقعے کو پیش آئے تقریباً 35 سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ ہاشم پورہ سے 42 لوگوں کو پی اے سی کے غنڈوں نے غازی آباد لاکر انہیں گولیوں سے بھون دیا اور ان کی لاشوں کو ہنڈن ندی میں بہادیا تھا۔ تب غازی آباد کے ایس ایس پی وبھوتی نارائن رائے تھے اور اس خوں ریزی کے بعد وہ اس معاملے پر مسلسل کچھ نہ کچھ بولتے اور کرتے رہے ہیں۔ دہلی فساد میں جن لوگوں پر کارروائی ہورہی ہے اس پر ملک کے انصاف پسند لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال پر وبھوتی نارائن رائے کہتے ہیں، ہندوستان کا آئین جو حقوق دیتا ہے ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ سیکولر ڈیموکریسی کے لیے لڑنا چاہیے۔ اس کے لیے تمام جمہوری قوتوں کو ایک ساتھ مل کر سامنے آنا ہوگا۔ وہ مزید کہتے ہیں، مولانا آزاد کا ایک کافی مشہور انٹرویو جو شورش کشمیری نے ملک کے تقسیم کے فوراً بعد لیا تھا اس میں انہوں نے پوچھا تھا کہ مولانا! اب ہندوستانی مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ تو مولانا آزاد نے کہا تھا کہ جب تک آئین ہے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس لیے میں بھی کہتا ہوں کہ آئین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ابھی جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اس آئین کی پوری طرح عزت نہیں کرتے۔ سی اے اے مخالف مہم آئین کو بچانے کے لیے تھی اس لیے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کو یہ لڑائی لڑنی چاہیے کیونکہ آئین ختم ہوگیا تو صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ ہندوؤں پر بھی اس کا اثر پڑے گا، ان کا بھی بھاری نقصان ہوگا۔
آئین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ابھی جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اس آئین کی پوری طرح عزت نہیں کرتے۔ سی اے اے مخالف مہم آئین کو بچانے کے لیے تھی اس لیے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کو یہ لڑائی لڑنی چاہیے کیونکہ آئین ختم ہوگیا تو صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ ہندوؤں پر بھی اس کا اثر پڑے گا، ان کا بھی بھاری نقصان ہوگا۔