پنجاب کا خالصتان رشتہ اور سیاست کا فاشسٹ کنکشن

عام آدمی پارٹی پر سنگین الزامات سے سیاسی بھونچال

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

ہار کی راہ پر بی جے پی کیپٹن امریندر کے سہارے کیسے جیتے گی جنگ
داخلی خلفشارکا شکار کانگریس کو پنجاب اور گوا سے امیدیں
وطن عزیز میں انتخاب سے بڑا کوئی اور جنون نہیں ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہے کہ کورونا کا کوئی ویرینٹ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ الیکشن کے آتے ہی پرانا وائرس بے اثر ہوجاتا ہے اور نیا وائرس انتخابی مہم کے خاتمے کا انتظار کرتا ہے۔ بہار انتخاب کے وقت اس کا پہلا مظاہرہ ہوا تو لوگوں نے سوچا کہ یہ بی جے پی کی بدمعاشی ہے، وہ جان بوجھ کر حقائق کو چھپا رہی ہے اور اپنے مفاد میں عوام کو موت کے منہ میں جھونک رہی ہے لیکن اس معاملے سبھی پیش پیش تھے بلکہ تیجسوی کے جلسوں میں شرکاء کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی تھی اور وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر بھی ابھرے۔ آر جے ڈی نے ایک رن سے سہی بی جے پی کو ہرا دیا مگر جے ڈی یو کو کانگریس نہیں ہراسکی۔ اس کے نتیجے میں بادلِ ناخواستہ بی جے پی کو پھر سے نتیش کے سر پر تاج رکھنا پڑا۔ بہار کے بعد مغربی بنگال انتخاب سے قبل پھر سے کورونا غائب ہوگیا۔ دو مئی کو دیدی آگئیں تو ان کے پیچھے کورونا، مائکرون کا روپ دھار کر وارد ہو گیا۔ اتر پردیش میں کانگریس کے لیے مہم چلانا مشکل ہو رہا تھا اس نے کورونا کا بہانہ بناکر مہم معطل کردی۔ بی جے پی کے جلسوں میں عوام کی تعداد کم ہوئی تو اس نے الیکشن کمیشن سے پابندی لگوادی مگر پھر دیکھا کہ اس کے بغیر کام نہیں چل رہا ہے تو اسے اٹھوادیا۔ اس طرح گویا کورونا پر بھی انتخاب کا جنون چڑھ گیا۔
فی الحال پانچ صوبوں میں انتخاب ہو رہا ہے۔ ان میں ایک بہت بڑا دوسرا کم بڑا، ایک اوسط اور دو چھوٹے صوبوں میں انتخاب ہو رہا ہے۔ ان میں سے اتر پردیش پر اس قدر گفتگو ہورہی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہیں اور بھی الیکشن ہورہا ہے۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی کے اندر ہونے والی بغاوت معمولی بحث کا موضوع بنی لیکن ایک تو صوبہ اوسط اور دوسرے خبر بی جے پی کے خلاف ہونے کے سبب آئی گئی ہو گئی۔ پنجاب کے بارے میں سب سے بڑی خبر وزیر اعظم کے جان بچا کر لوٹنے کی تھی لیکن اس میں بھی بی جے پی کی بدنامی ہونے لگی تو اس کو بھی دبا دیا گیا۔ پنجاب کے اندر کانگریس نے اپنے کیپٹن امریندر سنگھ کو ہٹایا لیکن ابتداء میں بی جے پی اس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکی کیوں کہ بی جے پی پڑوس کے اتراکھنڈ میں پاو درجن وزرائے اعلیٰ بدل چکی تھی۔ پنجاب میں بی جے پی کو 35؍ سال بعد پہلی مرتبہ اکالی دل کے بغیر انتخاب لڑنے کی نوبت آئی ۔
آزادی کے بعد سے آر ایس ایس نے کانگریس کے خلاف سکھوں کو بھڑکا کر اپنے قریب کرنے کی لاکھ کوشش کی یہاں تک کہ راشٹریہ سکھ سنگت بھی بنائی لیکن اس کو کامیابی نہیں ملی۔ کسانوں کی تحریک کے سبب جب اکالی دل نے بی جے سے دامن چھڑایا تو پھر سے پہلے کی طرح لاوارث ہوگئی۔ اس صورتحال میں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند بی جے پی کو کانگریس کے برخواست شدہ وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کا ساتھ ملا کیونکہ وہ خود سیاسی یتیمی میں مبتلا تھے اس طرح ایک رام ملائی جوڑی وجود میں آگئی جس میں ایک اندھا تھا اور دوسرا کوڑھی تھا۔ بی جے پی کو معلوم ہوا ہو گا کہ امریندر سنگھ کو ساتھ لینے کے نتیجے میں ان کی ساری وعدہ خلافیوں کا غم و غصہ کانگریس کے بجائے ان کی جانب مڑ جائے گا مگر ’نہیں ماما سے اچھا کانا ماما‘ کی مصداق اس نے کپتان صاحب کا دامن تھام لیا اس لیے کہ پنجاب کے اندر سکھ چہرے کے بغیر دال نہیں گلتی اور پچھلے 95 سالوں میں سنگھ پریوار ایک بھی قابلِ اعتماد چہرا میدان میں نہیں لاسکا۔ یہ صرف مسلمان اور سکھوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پاس نہ کوئی دراوڈ چہرا ہے اور نہ ملیالی چہرا۔ شمال مشرقی اور گوا جیسے صوبوں میں بھی سابق کانگریسیوں کا محتاج ہے۔
یہ اس تنظیم کا حال ہے جو اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتی ہے۔ اتر پردیش کے رجو بھیا کو چھوڑ دیں تو آر ایس ایس پر مہاراشٹر کے برہمن چھائے رہے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت میں اپنے مفاد کی خاطر ملک بھر کے موقع پرست سیاستداں کیا جمع ہو گئے کہ یہ اپنے آپ کو شیر سمجھنے لگے ۔آر ایس ایس کے لیڈر آئے دن ہندوستان کو ہندو راشٹر کہتے رہتے ہیں ۔اس کا تازہ نمونہ دھرم سنسد سے پلہّ جھاڑتے ہوئے موہن بھاگوت کا یہ کہنا ہے کہ یہ ملک تو پہلے ہی ’ہندو راشٹر‘ ہے۔ اسی طرح کا ایک بیان انہوں نے تقریباً تین سال قبل دسہرہ کے خطاب میں دیا تھا جس کی مخالفت مسلمانوں کے علاوہ سکھوں کی جانب سے بھی ہوئی تھی۔ پنجاب کے بڑے اخبارات مثلاً ’پنجابی ٹربیون‘ اور ’نوا زمانہ‘ نے اپنے اداریوں کے اندر سخت الفاظ میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ سکھوں کے پرسنل لاء بورڈ یعنی شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے بھی اس پر غم و غصے کا اظہار کیا یہاں تک کہ بی جے پی کی سابق حلیف شرومنی اکالی دل نے بھی اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ اکال تخت کے کارگزار جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے اس بیان کو ملک میں انتشار کا سبب بتایا تھا۔ پنجاب لوک مورچہ کے سربراہ امولک سنگھ نے تو اسے بہت بڑی سازش قرار دے دیا کیونکہ اس کے ذریعہ سنگھ، سکھوں کا منفرد تشخص ختم کرکے انہیں کیش دھاری ہندو بنانے کے چکر میں تھا۔
سنگھ پریوار اس طرح کی حماقتوں سے سکھوں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر کے انہیں نہ صرف اپنی تنظیم سے دور بھگاتا ہے بلکہ ان کے اندر قوم دشمن جذبات کو بھی جنم دیتا ہے۔ آر ایس ایس کے خلاف سکھوں کی جانب سے اس طرح کا ردعمل پہلی بار ظاہر نہیں ہوا بلکہ ماضی میں جب اس ہندو قوم پرست تنظیم کے سربراہ سدرشن نے 2000ء میں سکھ مت کو ہندو مذہب کا فرقہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خالصہ کی تشکیل ہندوؤں کو مغل جبر واستبداد سے محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی تھی تب بھی اسی طرح کی مخالفت ہوئی تھی۔ آر ایس ایس کی ’راشٹریہ سکھ سنگت‘ نے سکھوں کو ہندو مت میں ضم کرنے کی خوب کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ اس کے خلاف پورے پنجاب میں احتجاج شروع ہو گئے، حالانکہ گرونانک کی تعلیمات تو برہمنیت کے خلاف ہیں۔ سکھ عقیدہ مساواتِ انسانی کی دعوت دیتا ہے جبکہ برہمنی نظام عدم مساوات پر قائم ہے۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ گرو نانک کو بالخصوص سنت کبیر اور بابا فرید سے تحریک حاصل ہوئی تھی۔ سکھوں کے سب سے بڑے گردوارہ ’گولڈن ٹمپل‘ کا سنگ بنیاد میاں میر نے رکھا تھا۔ سکھ گروؤں نے ذات پات، گاؤ پوجا اور مقدس دھاگے جیسے عقیدے کی مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود ساورکر نے دریائے سندھ کے اس طرف بسنے والے سارے لوگوں کو ہندو قرار دے کر انہیں جھانسا دینے کی کوشش کی مگر عمران خان نے گرونانک کے گرودوارا تک کاریڈور بنوا کر اس کا خواب چکنا چور کردیا۔ چرن جیت سنگھ چنی کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد الیکشن میں اچانک، سَنت روی داس کا یوم پیدائش یعنی ’روی داس جینتی‘ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ورنہ کون نہیں جانتا کہ اس چودھویں صدی کے سَنت اور شمالی ہند میں بھکتی تحریک کے بانی کو ملک نے بھلا دیا تھا۔
سنت روی داس سے منسوب دہلی کے تغلق آباد مندر کو سپریم کورٹ نے 19 اگست 2019 کے دن جنگلاتی علاقہ میں واقع ہونے کا بہانہ بنا کر توڑنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس زیادتی کے خلاف صرف بھیم آرمی کا راون میدان میں آیا۔ ان کے علاوہ مودی سے لے کر کیجریوال اور راہل سے سدھو تک کوئی رام بھکت گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن اس بار صدر جمہوریہ کے ساتھ ساتھ ان کے نائب نے بھی گرو روی داس کی جیتنی پر خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم مودی نے دلی کے قرول باغ میں ’گرو روی داس وشرام دھام مندر‘ پہنچ گئے اور شبد کیرتن میں حصہ لے کر عوام کی بہبود کے لیے دعا کی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ان کی حکومت نے ہر ایک قدم اور ہر ایک اسکیم میں گرو روی داس کے جذبے کو اخذ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ کاشی میں گرو روی داس کی یاد میں جاری تعمیراتی کام کا کریڈٹ بھی لے لیا۔اس موقع پر ان کے لکھے ہوئے پیغام پر قلم چلانے کی ویڈیو نے ان کا نام خوب روشن کیا۔
سنت روی داس جینتی کا فائدہ نہ صرف پنجاب بلکہ اتر پردیش میں بھی اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب کے وزیر اعلی چرنجیت سنگھ چنی اس کام کے لیے وارانسی کے سرگووردھن پور میں سنت روی داس مہاراج کی جائے پیدائش پر پہنچ گئے۔ انہوں نے وہاں پر سنت روی داس مہاراج مندر میں پوجا کی۔ ایسے میں وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کیسے پیچھے رہتے، انہوں نے بھی صبح دس بجے روی داس مندر میں ماتھا ٹیکا۔ اتر پردیش کانگریس کی انچارج پرینکا گاندھی نے بھی سنت روی داس کی 644ویں جینتی تقریبات میں حصہ لے کر سنت نرنجن داس کا آشیرواد لیا۔ مایاوتی کیسے خاموش رہ سکتی تھیں۔ انہوں نے بی جے پی اور سماج وادی پارٹی پر سنت روی داس کے احکامات کو نظرانداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ووٹوں کی خاطر ان کو ماتھا ٹیکتے ہیں لیکن ان کی ہدایت کے مطابق کروڑوں غریبوں کا بھلا نہیں کرتے۔
مایاوتی نے کہا کہ ’من چنگا تو کٹھوتی میں گنگا‘ کا لافانی پیغام دینے والے عظیم سنت روی کا پیغام مذہب اور سیاسی وانتخابی مفاد کے لیے نہیں بلکہ انسانیت اور خدمت خلق کے لیے وقف ہونے کا ہے۔ موجودہ حکومتوں نے اسے بھلا دیا۔ مایاوتی نے بی ایس پی کو اتحاد اور بیدار ی کرنے کا کریڈٹ دیا۔ مایاوتی نے کانگریس، بی جے پی اور دیگر مخالف پارٹیوں پر طرح طرح کی ناٹک بازی کرنے کا الزام لگایا۔ بی ایس پی سپریمو نے یاد دلایا کہ ان کی حکومت نے بھدوہی ضلع کا نام تبدیل کرکے سنت روی داس نگر رکھا تھا لیکن سماجوادی پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ذات برادری والی سیاست کے پیش نگر اس کا نام دوبارہ بھدوہی کر دیا تھا۔ سنت روی داس کی جینتی کے موقع پر بی ایس پی سپریمو نے زور دے کر کہا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آگئی تو بھدوہی کا نام ایک بار پھر سے’روی داس نگر‘ ہو جائے گا لیکن یہ تو نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی والی بات ہے۔
وزیر اعظم مودی کی پنجاب سے بے رنگ واپسی کے بعد کانگریس کے اندرونی چپقلش کی خبریں ذرائع ابلاغ پر چھائی رہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو اس امید میں اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کی مخالفت کرتے رہے کہ کانگریس کی اعلیٰ کمان ان کے دباو میں آکر انہیں وزیر اعلیٰ کا چہرا بنادے گی۔ دراصل کچھ دن بی جے پی میں رہنے کے سبب نوجوت سدھو کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ جو اعلیٰ کمان امریندر سنگھ جیسے وزیر اعلیٰ کے دباو میں نہیں آیا اور نوجوت سدھو کے بجائے چرن جیت سنگھ چنیّ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا وہ بھلا کسی اور کی کیا سنے گا؟ چرن جیت سنگھ چنیّ کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپنا کانگریس کی سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اس فیصلے کے ذریعہ اس نے پہلی بار ایک دلت کو وزیر اعلیٰ بناکر 35 فیصد آبادی کو اپنے ساتھ لینے کی ایک کوشش کی جو اس کو دوبارہ کامیاب سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ اس لیے کانگریس نے چنیّ کو ہی وزیر اعلیٰ کا چہرا بنا دیا۔
اتر پردیش کے مقابلے میں پنجاب کا الیکشن بہت پھیکا تھا مگر اس میں کمار وشواس کے اروند کیجریوال پر الزام نے تڑکا لگا دیا۔ کسی کو خالصتان کا حامی کہہ دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کیجریوال پر دوسری بار یہ الزام لگا۔ 2017 میں پہلی بار عام آدمی پارٹی پنجاب کا انتخاب لڑ رہی تھی۔ دس سال تک اکالی دل اور بی جے پی کا اتحاد حکومت کر چکا تھا اور اس کا کانگریس سے مقابلہ تھا کہ اچانک عآپ داخل ہوئی اور لوگ یہ توقع کرنے لگے کہ وہ بی جے پی کو دہلی کی مانند شکست فاش سے دوچار کر دے گی ۔ پارٹی کی ایک مرکزی رہنما الکا لامبا نے کہا تھا : ’اگر ہم پنجاب میں جیت گئے تو ہمیں قومی پارٹی کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ ہم گوا کا بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 2017 کا گجرات انتخاب بھی ہمارے نشانے پر ہے۔ پنجاب کی جیت کے بعد ہماری نظر سیدھے 2019 کے پارلیمانی انتخابات پر مرکوز ہوگی۔‘اس میں شک نہیں کہ عآپ اکالی بی جے پی اتحاد کو تیسرے مقام پر دھکیل کر دوسرے نمبر پر آگئی مگر کانگریس کو ہرا نہیں سکی۔ پنجاب کی جملہ 117 نشستوں میں سے کانگریس نے 77 نشستیں جیت لیں جبکہ اکالی دل اور بی جے پی کے اتحاد کو 18 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا اور عام آدمی پارٹی نے 20 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔
پچھلے انتخاب میں اکالی دل کے صدر اور نائب وزیر اعلی سکھبیر سنگھ بادل نے رائے دہندگان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کیجریوال ایک خطرناک آدمی ہے۔ اس نے دلی میں کچھ نہیں کیا ہے۔ اسے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے حمایت مل رہی ہے۔‘ اروند کیجریوال پر یہ نہایت سنگین الزام بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ممکن نہیں تھا۔ ہوا یہ تھا کہ اپنے پنجاب دورے کے دوران اروند کیجریوال نے موگا میں گردیپ سنگھ کے گھر پر قیام کیا تھا۔ وہ ایک زمانے میں خالصتان لبریشن فرنٹ کا چیف تھا۔ پنجاب میں دہشت گردی کے دور میں اس پر ہندو-سکھ فسادات بھڑکانے کے الزامات لگے تھے۔ ایک شخص کے قتل اور بم دھماکے کے معاملات میں وہ گرفتار بھی ہوا تھا۔ آگے چل کر ان مقدمات سے بری ہو کر وہ انگلینڈ چلا گیا مگر اب بھی انگلینڈ میں بیٹھ کر وہ مبینہ طور پر خالصتان لبریشن فرنٹ کے لیے کام کر رہا ہے۔
اروند کیجریوال کے گردیپ سنگھ کے گھر ٹھہرنے کو لے کر پنجاب کی سیاست میں ہنگامہ مچ گیا۔ کانگریس اور اکالی دل نے اروند کیجریوال پر پنجاب مخالف اور خالصتان حامی شدت پسند گروپ کے ساتھ سازباز اور ان سے مدد اور فنڈ لینے کا الزام لگا دیا۔ پنجاب کی ہندو تنظیم جونا اکھاڑہ کے پنچانند گری مہاراج نے بھی اروند کیجریوال پر خالصتان حامی شدت پسند گروپ سے سانٹھ گانٹھ کا الزام لگا کر پوچھا کہ پروٹوکول کے تحت اروند کیجریوال دہلی کے وزیر اعلی کی حیثیت سے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں رک سکتے تھے، کسی عام آدمی پارٹی کے لیڈر کے گھر ٹھہر سکتے تھے لیکن پھر بھی شب گزاری کے لیے گردیپ سنگھ کے گھر کو منتخب کیا، جو پنجاب میں خالصتان کے لیے مسلسل کام کرتا رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ اب انگلینڈ میں بیٹھ کر سب کچھ کر رہا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے پنجاب انچارج سنجے سنگھ نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اروند کیجریوال کے موگا میں گردیپ سنگھ کے گھر رکنے کی پنجاب پولیس کو معلومات دے دی گئی تھیں پھر بھی اگر وہ دہشت گرد تھا تو پولیس نے کیوں نہیں روکا؟
سنجے سنگھ بولے اروند کیجریوال تو گردیپ سنگھ کو جانتے ہی نہیں۔ سنجے سنگھ نے اس کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت گردیپ سنگھ کو تمام الزامات سے بری کر چکی ہے تو ایسے میں اسے دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس گھر میں اروند کیجریوال ٹھہرے تھے وہ گروندر کی بیوی كرمجيت کور کے نام پر ہے۔ وہی پرانی کہانی اس بار عام آدمی پارٹی کے سابق رہنما کمار وشواس نے دہرائی۔ انہوں نے وزیر اعلی اروند کیجریوال پر ہلہ بولتے ہوئے ان پر ملک دشمن عناصر سے رابطہ کرنے کے سنسنی خیز الزامات عائد کردیے۔ کمار وشواس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اروند کیجریوال پنجاب میں علیحدگی پسندوں کے حامی تھے۔ وشواس نے کہا، ’’ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ یا تو وزیر اعلیٰ (پنجاب) بنیں گے یا ایک آزاد ملک (خالصتان) کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے۔‘‘کمار وشواس نے اپنے پرانے ساتھی کو یہ نصیحت کی کہ، ’’اروند کیجریوال کو سمجھنا چاہیے کہ پنجاب صرف ایک ریاست نہیں ہے۔ میں نے پہلے ان سے کہا تھا کہ وہ علیحدگی پسند اور خالصتانی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کو پارٹی میں شامل نہ کریں تو کیجریوال نے مجھ سے کہا کہ تم فکر نہ کرو۔‘‘ پنجاب اسمبلی انتخابات کی پولنگ سے چار دن قبل یہ دھماکہ ہو گیا ۔
کمار وشواس کے مطابق کیجریوال کی سوچ میں تخریب کاری ہے، وہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی کو اس سے اچھا موقع مل گیا انہوں نے پنجاب میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہ ’’پنجاب کو ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ یاد رکھیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، آپ کو کسی دہشت گرد کے گھر میں کانگریس کا لیڈر نہیں ملے گا، بلکہ جھاڑو والا سب سے بڑا لیڈر وہاں ملتا ہے۔ کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے الیکشن کمیشن پر بھی تنقید کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کمار وشواس کی ویڈیو اور ان کے جاری کردہ مواد کی اشاعت اور نشریات پر پابندی لگا دی تھی۔ جب کمار وشواس نے اس پر اعتراض کیا تو کمیشن نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیجریوال اس پورے معاملے میں ملوث ہیں۔ اگر کیجریوال ملوث نہیں ہیں تو وہ سامنے آکر جواب دینے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟ کمار وشواس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟ یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے۔
سرجے والا نے مرکزی حکومت سے مداخلت کرتے ہوئے کیجریوال کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت چاہے تو این آئی اے کے ذریعے کیجریوال کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی کر سکتی ہے۔ پنجاب پہلے ہی تاریک دور کا سامنا کر چکا ہے۔ اب اگر اسی طرح پنجاب کو تباہ اور الگ کرنے کی سازشیں جاری رہیں تو اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے مہیلا کانگریس کی نیشنل کوآرڈینیٹر اور پنجاب کانگریس کی ترجمان ڈاکٹر جسلین سیٹھی نے جالندھر پولیس کمشنر کو کمار وشواس کے انٹرویو کا حوالہ دے کر شکایت درج کرائی ۔ڈاکٹر جسلین سیٹھی نے کہا کہ اروند کیجریوال نے اعتراف کیا کہ وہ پنجاب اسمبلی انتخابات کے لیے علیحدگی پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ ان کے مطابق کیجریوال کے خلاف بغاوت یا ملک سے غداری کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔
اس طرح مرکزی حکومت پر بھی دباو آیا اور اسے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی (عآپ) کےخلاف کارروائی کا موقع مل گیا۔ اس نے الیکشن کمیشن کے ذریعہ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ فی الحال وزیر اعلیٰ کیجریوال اور عآپ پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام ہے لیکن اس میں آگے چل کر اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے چیف الیکٹورل آفیسر نے معاملہ درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اکالی دل کے نائب صدر کے ذریعہ انتخابی کمیشن کو سونپی گئی ایک ویڈیو کی بنیاد پر یہ ہدایت دی گئی ہے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ کیجریوال نے اپوزیشن لیڈروں کو غدار کہا ہے اس لیے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ بنتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کو کانگریس اور بی جے پی دونوں اپنے مخالف کی بی ٹیم کہتے ہیں حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن انتخابی نتائج اس بابت بہت کچھ بتا دیں گے۔ ویسے اس معاملے نے پنجاب کی انتخابی مہم کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان ماحولیاتی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں
ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 بی جے پی کو معلوم ہوا ہو گا کہ امریندر سنگھ کو ساتھ لینے کے نتیجے میں ان کی ساری وعدہ خلافیوں کا غم و غصہ کانگریس کے بجائے ان کی جانب مڑ جائے گا مگر ’نہیں ماما سے اچھا کانا ماما‘ کی مصداق اس نے کپتان صاحب کا دامن تھام لیا اس لیے کہ پنجاب کے اندر سکھ چہرے کے بغیر دال نہیں گلتی اور پچھلے 95 سالوں میں سنگھ پریوار ایک بھی قابلِ اعتماد چہرا میدان میں نہیں لاسکا۔ یہ صرف مسلمان اور سکھوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پاس نہ کوئی دراوڈ چہرا ہے اور نہ ملیالی چہرا۔ شمال مشرقی اور گوا جیسے صوبوں میں بھی سابق کانگریسیوں کا محتاج ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 فروری تا 05مارچ  2022