پروفیسر صدیق حسن مر حوم ۔۔ شجرسایہ دار

ہمہ پہلو شخصیت سے وابستہ کچھ یادیں۔باقیات الصالحات بیک نظر

ایچ عبدالرقیب، چینئی

 

یہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوکر مرکز تشریف لائے تھے۔ چتلی قبر کے صحن میں میری ملاقات ہوئی اور میں نے یہ سوال پوچھا مولانا! بتائیے کہ تحریک کے پورے دورانیہ میں کس شخصیت سے آپ زیادہ متاثر ہوئے؟ پہلے تو مولانا نے اس سوال کو ٹالنے کی کوشش کی، میں نے اصرار کیا تو فرمایا: وہ تھے محمد، محمد علی ملیباری۔ میں نے پھر پوچھا محمد علی صاحب کی وہ کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے وہ یہ بات کہہ رہے ہیں؟ مولانا ابواللیثؒ نے کہا ’تقسیم ہند کے فوراً بعد کا زمانہ تھا پورا ملک پر آشوب دور سے گزر رہا تھ اور سفر کرنا آسان نہیں تھا لیکن مرکز کے اجلاس کے لیے محمد علی کیرالا سے دلی آئے۔ میں نے پوچھا۔ محمد علی صاحب! آپ اس خطرناک صورتحال میں اتنا طویل سفر کر کے یہاں تک کیسے پہنچ پائے؟ محمد علی مرحوم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے تہہ بند سے خنجر نکالا اور کہا کہ ان کے بھروسے پر۔
یہ تھے مولانا وی پی محمد علی صاحب جنہوں نے کیرالا کی سرزمین میں تحریک اسلامی کا بیج بویا تھا اور پھر ان کا ایک نوجوان جانشین صدیق حسن کی شکل میں کیرالا کے امیر حلقہ کی حیثیت سے 1990میں ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے کیرالا کی سرزمین میں ایک نئے انداز سے کام کا آغاز کیا اور نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ پورے کیرالا کے سماج میں تحریک اسلامی کو ایک شجر سایہ دار بنا دیا۔
یہ 1981کی بات ہے کہ کالی کٹ کیرالا میں پورے ملک سے طلبہ تنظیم کے نمائندوں کی نشست بلائی گئی تھی، مولانا محمد شفیع مونس صاحب اور مولانا سراج الحسن صاحب مرکز سے تشریف لائے تھے، سوال یہ تھا کہ کیا پورے ملک کے لیے ایک ہی تنظیم بنائی جائے اور کیا جماعت کی سرپرستی میں یا آزاد طلبہ تنظیم بنائی جائے۔ تمل ناڈو کی طرف سے میں نمائندگی کر رہا تھا اور صدیق حسن صاحب کیرالا کی جانب سے۔ عمر میں مجھ سے بڑے لیکن باتیں بہت آہستہ اور سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کرنے والے introvert نوجوان۔ بعض دوستوں سے اس وقت معلوم ہوا کہ کیرالا کے اس نوجوان میں بلا کی صلاحیت اور صالحیت ہے اور مستقبل میں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
اس کے بعد 1990 میں مولانا سراج الحسن صاحب کے دور میں صدیق حسن صاحب کیرالا کے لیے اور میں تمل ناڈو کے لیے امیر حلقہ کی حیثیت سے مقرر کیے گئے تو اس کے بعد رفاقت اور دوستی کا ایک چالیس سالہ رشتہ قائم ہوگیا۔ مزاجوں میں فرق کے باوجود تحریک کے وژن اور کام کو وسیع کرنے کے لیے نت نئے طریقوں کو اپنانے کے جنون نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کیا اور میں نے ہمیشہ ان کے کام اور کاز سے پڑوسی ریاست کے تجربات کے طور پر فائدہ اٹھایا اور خود تمل ناڈو حلقہ میں کیرالا کے طرز پر کئی کاموں کا آغاز کیا جس سے اپنے حلقہ میں تحریک کو آگے بڑھانے اور وسعت دینے میں بڑی مدد ملی۔
مرحوم صدیق حسن صاحب کے بارے میں لکھنے سے پہلے صوبہ کیرالا کی صورتحال اور وہاں کی خصوصیات کے بارے میں چند باتیں ضرور سمجھنا چاہیے۔
ریاست کیرالا پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ ہے اور مالی لحاظ بھی دوسری ریاستوں سے کافی آگے ہے۔ عورتوں کا تناسب مردوں سے قدرے زیادہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ہندو 55 فیصد، مسلمان27 فیصد اور عیسائی 15 فیصد ہیں۔ اور اس کو God’s own country کہا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے تعلق سے یہ خصوصیت بہت اہمیت کی حامل ہے کہ صوبہ میں اسلام براہ راست عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام کے دور اول میں ہی پہنچ گیا تھا اور عربی زبان ان تاجروں کی زبان تھی اور مقامی زبان اور اور کلچر سے خالص عربی اور اسلامی اقدار کے ساتھ تجارت میں سماج، امانت اور تاجرانہ دانشمندی نے بڑا گہرا اثر کیرالا کے عوام اور زبان و کلچر پر ڈالا اور خود مقامی زبان، کلچر اور معاشرت کے مثبت اور منافع بخش اجزا کو اپنے اندر جذب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ شمالی ہند میں فتوحات کے ذریعہ یا صوفیا کے ذریعہ اسلام پہنچا اور عربی کے بجائے فارسی زبان کا اثر تھا، فقہ میں بھی کیرالا میں فقہ شافعی کو قبولیت حاصل ہوئی اور شمال اور بقیہ ہندوستان میں فقہ حفی کو۔ اس پر قدرے تفصیل سے برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر Sebastian prange نے اپنی کتاب Monsoon Islam میں لکھا ہے۔ یہ بات عام مسلمانوں کے لیے باعث حیرت ہو گی کہ کیرالا کا مسلمان نماز کو ’نمسکارم‘ مسجد کو ’’پلی‘ اور عالم دین کو ’پنڈت‘ کہتا ہے۔
صوبہ کیرالا کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ سماج کے ہر طبقہ سے اور خاص طور پر مسلمانوں کے ہر خاندان سے کم سے کم ایک فرد اپنی معاش کے لیےبیرون ملک(بلاد عرب) میں رہتا ہے۔
ریاست کیرالا میں سماج کا ہر طبقہ فعال، متحرک اور حالات میں Involve رہتا ہے۔ اور اپنی بات کو شدت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں میں سنی العقیدہ اور صوفی طریقت کا گروپ سب سے طاقتور ہے اور سلفی عقیدہ کے لوگ بھی اپنے افراد اور اداروں کے ذریعہ سرگرم عمل ہیں۔
ہندووں اور عیسائیوں کے مختلف گروپس اور ذات برادری پر مشتمل ادارے بھی بڑے پیمانہ پر کام کرتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی پارٹیوں میں کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کا بھی کافی اثر و نفوذ ہے یہاں تک کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ریاست میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بھی بنی۔
جناب صدیق حسن سے اکثر ملاقاتیں مرکز میں امراء حلقہ کے اجلاس میں ہوتی تھیں۔ موصوف ملیالم اور عربی میں بولنے اور لکھنے کی اچھی صلاحیت تھی لیکن انہیں اردو میں اپنی رپورٹ پیش کرنا یا اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنا کافی مشکل ہوتا تھا۔ ہم اردو بولنے والوں کی یہ بری عادت ہے کہ کسی کے اظہار خیال میں تذکیر و تانیث میں تھوڑا بھی فرق ہوتا تو اس کا مذاق اڑانا یا کم از کم فوری اصلاح کرنا ضروری خیال کیا جاتا۔ صدیق حسن صاحب اپنے حلقے میں بڑے نمایاں کام کر کے آتے لیکن رپورٹنگ ٹھیک نہیں ہوتی، مختصر رپورٹ کو اردو میں پیش کرنے میں دقت کی وجہ سے کام کا پورا نقشہ سامنے نہیں آتا۔ حسن اتفاق کہ انڈمان سے ملیالی دوست یم کے محمد عمری ہر دو چار مہینہ میں جزائر انڈمان سے کیرالا آتے اور واپسی میں چینئی سے ہو کر گزرتے۔ ان سے کیرالا کے حالات وہاں کے تجربات، مادھیم اور پربھودنم کے مضامین وغیرہ پر تفصیلی گفتگو ہوتی اور میں کیرالا کے کاموں کی واقفیت اور اردو میں اپنی بات پیش کرنے کی وجہ سے صدیق حسن صاحب کی مختصر رپورٹنگ کے بعد مزید تفصیلات سناتا اور ان کے کاموں کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتا۔ جماعت کے ذمہ داروں میں اور خاص طور پر مولانا شفیع مونس صاحب کہتے کہ تم کب سے کیرالا کے نمائندہ ہو گئے ہو۔
ایک اور بات عرض کرنا چاہوں گا کہ فسطائیت کے خلاف ملک میں وسیع طور پر کام کرنے کے لیے جب
Forum for Democracy & Communal Amity -FDCA
کا قیام عمل میں آیا تو تحریکی حلقوں میں جمہوریت کے لفظ کی شمولیت پر کافی بحث شروع ہو گئی۔ انڈمان کے دوست محمد صاحب نے بتایا کہ پربھو دانم میں اس موضوع پر کافی دلچسپ مضامین شائع ہو رہے ہیں جس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ سورۃ الروم کی ابتدائی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے روم اور ایران کی سلطنتوں کے درمیان جنگ میں ابتدا میں روم کو شکست ہوئی تھی اور کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پھر چند ہی سالوں میں روم غالب آئیں گے۔ مکہ میں مقیم مسلمان ایرانی آتش پرست جنہیں رومیوں کے ساتھ جو اہل کتاب تھے ہمدردی تھی، اس پیشن گوئی سے خوش ہوئے کہ عنقریب روم شکست کے بعد پھر کامیاب ہوں گے۔ اس قرآنی حوالہ سے جمہوری قوتوں کی فتح اور فسطائی قوتوں کی شکست سے موازنہ کیا گیا۔ ہم نے اپنے پندرہ روزہ تمل جریدہ سمرسم میں بھی اس مضمون کو شائع کیا تو عوام وخواص نے اس کو بہت پسند کیا۔یہاں اس تذکرہ سے اس بات کو اجاگر کا مقصود ہے کہ حلقہ کیرالا میں عربی زبان میں دسترس اور قابل قدر علما کرام کی موجودگی سے حالات حاضرہ پر قرآن وسنت کے پس منظر میں غوروفکر کر نے اورمسائل کو صحیح تناظر میں سمجھنے کا مادہ موجود ہے جو ملک کے دوسرے علاقوں میں بظاہر نہیں پایا جاتا۔
کیرالا میں روزنامہ مادھیم کا اجرا اگرچہ محترم کے سی عبداللہ مولوی کے دور امارت میں ہو چکا تھا لیکن اس کی نشو ونما اور تیز رفتار ترقی صدیق حسن صاحب کے دور امارت میں ہوئی۔ صوبہ کیرالا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہر دن نئے نئے ایشوز پیدا ہوتے ہیں اور ان پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مادھیم نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کیا۔ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام پارٹیوں کے زعما صبح سویرے اپنی پارٹی کے اخبار کو دیکھنے سے پہلے مادھیم کے اداریہ کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔ اسی طرح مادھیم (voice of voiceless) بن کر کیرالا کی سوسائٹی کے ترجمان کی حیثیت سے ابھرا۔ بلاشبہ اس میں صدیق حسن مرحوم کی قیادت کا بڑا حصہ ہے۔
آج نہ صرف کیرالا میں اس کے کئی ایڈیشن نکلتے ہیں بلکہ کرناٹک میں بھی دو ایڈیش شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلاد عرب کے کئی شہروں میں اس کے متعدد اڈیشن کی وجہ سے یہ ایک بین الاقوامی سطح پر شائع ہونے والا اخبار بن چکا ہے اور بلاد عرب میں بسنے والا لاکھوں کی تعداد میں ملیالی طبقہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے۔
اس اخبار کی کئی اور خصوصیات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ روز اول ہی سے مادھیم کے ادارت میں اور اس کے مختلف کاموں میں غیر مسلموں کی ایک خاصی تعداد شامل رہی ہے۔ آج بھی شری رادھا کرشنن مادھیم ویکلی کے ایڈیٹر ہیں۔ اس کے رپورٹرس اور اسٹاف میں غیر مسلم ہی نہیں مختلف الخیال جرنلسٹوں کو جگہ دی گئی ہے اور صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ Professionally یہ افراد Competent ہیں یا نہیں۔
میڈیا ون ٹی وی کے اجرا اور اس کے لائسنس کے حاصل کرنے میں صدیق حسن صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اپنے تمام ہی سیاسی سماجی تعلقات کو صحیح طور پر اور موثر طور پر استعمال کر کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کروایا جسے آج ملیالی حلقہ میں ایک معتبر اور مستند آواز مانا جاتا ہے۔
پروفیسر صدیق حسن کا خواب یہ بھی تھا کہ اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی کے پیغام کو تمام ہندوستانی سماج اور انسانی سوسائٹی میں پھیلانے کے لیے مادھیم کا ہندی اور دوسرے علاقائی زبان میں بھی آغاز ہونا چاہیے جو ہنوز باقی ہے۔
AICL
جن دنوں صدیق حسن صاحب امیر حلقہ تھے پورے کیرالا میں سودی لین دین کا بڑا زور تھا اور ان قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے اور بھاری شرح سود کی وجہ سے سینکڑوں قرض داروں نے خود کشی کرلی تھی۔ اس موقع پر کیرالا کی جماعت نے سود کے مضر اثرات کے خلاف ایک عوامی مہم چلائی اور لاکھوں لوگوں کے دستخط حاصل کیے جس میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ بالآخر ایک میمورنڈم حکومت کیرالا کو پیش کیا کہ اس خطرناک مصیبت سے بچنے کے لیے بلاسودی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ 1990 میں ملک میں پہلی بار ایک Non Banking Financial Crop (NBFC) سود سے پاک بنیادوں پر
Alternative Investments and Credits Limited (AICL(
کے نام سے شروع ہوا جس کا اجرا اس وقت کے وزیر اعلیٰ اے کے انٹونی نے کیا۔ اس موقع پر صدیق حسن صاحب اور وزیر اعلیٰ نے جو تقاریر کیں وہ سود کے بارے میں آنکھیں کھول دینے والی ہیں۔
بد قسمتی سے جب کیرالا حکومت نے کیرالا کے NRI’s کے ساتھ مل کر ایک بڑے پیمانہ پر (NBFC) بنانے کا منصوبہ البرکۃ فائنانشیل سرویس کے نام سے شروع کیا تو ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اس کے خلاف مہم چلائی اور کیرالا ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا تو بعض تکنیکی وجوہات کی بنا پر AICL کو نوٹس دے دیا گیا اور ابھی وہ محدود پیمانہ پر کام کر رہا ہے اور جو کام اس کے پیش نظر تھا وہ ہو نہ سکا۔
بیت الزکوٰۃ کیرالا
اجتماعی نظم زکوٰۃ کے لیے کیرالا میں بیت الزکوٰۃ کا قیام اکتوبر 2000 میں صدیق حسن صاحب کے زیر قیادت ہوا اور الحمدللہ اس نے کئی سالوں سے سماج کے امیروں سے زکوٰۃ کی رقم حاصل کر کے مستحقین اور معذورین کی ایک باقاعدہ طریقہ سے شناخت کر کے ان کی مدد کا ایک اچھا میکانزم تیار کیا۔ تعلیم، مکانات کی تعمیر وفراہمی، بیماروں کے علاج ومعالجہ، مقروضوں کو قرض سے چھڑانا، پینے کے پانی کی فراہمی، صحت وصفائی، شادی بیاہ اور افراد کو خود کفیل بنانے کی اسکیمیں اس ادارہ کی جانب سے عمل میں لائی جاتی ہیں۔
2018 میں اپریل 27 تا 29 تین روزہ انٹرنیشنل زکوٰۃ کانفرنس کا انعقاد شہر کوچین میں ہوا جو ملک کی تاریخ میں اجتماعی نظم زکوٰۃ کی راہ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی نظم زکوٰۃ اور اسکی ضرورت، افادیت اور اہمیت پر کئی سیشن ہوئے۔ کانفرنس کا افتتاح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور نے کیا۔ کئی موضوعات پر مختلف سیشن ہوئے اور دنیا بھر سے Delegates کی شرکت نے اسے بڑی اہمیت کا حامل بنا دیا۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف sustainable development goals(SDG)
اور زکوٰۃ کے رول اور مقاصد شریعہ سے اس کے مماثلت پر بھی فکر انگیز Presentation دیے گئے۔ اس کانفرنس کی روداد، تقاریر اور پیپرس کو مرتب کر کے پورے ملک کے سامنے پیش کرنے ک ضرورت ہے جس کا شدت کے ساتھ انتظار ہے۔
MARAD ماراڈ کا قضیہ
یہ 2003کا واقعہ ہے۔ کالی کٹ کے قریب ماراڈ میں دو گروپس ہندو اور مسلمانوں میں شدید جھڑپ ہوئی اور تناو کا عالم تھا یہاں تک کہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کو بھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہاں کا دورہ کریں۔ صدیق حسن صاحب نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جان پر کھیل کر فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا، دونوں گروپس سے بات چیت کی، امن کا ماحول قائم کیا اور پھر وزیر اعلیٰ کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی تشریف لا کر مسئلہ کو پر امن طریقہ سے سلجھائیں۔ اس طرح ایک حوصلہ مند لیڈر شپ کی مثال صدیق حسن مرحوم نےپیش کی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
Solidarity Youth Movement
سالیڈارٹی یوتھ مومنٹ کیرالا کے منفرد نوجوانوں کی تحریک ہے جس نے کارپوریٹ سرمایہ داروں کے استحصال کے خلاف جدوجہد کی ایک تاریخ کیرالا میں مرتب کی ہے۔ Pachimadaکے آدی باسی علاقہ میں کوکا کولا کی فیکٹری کے آغاز کےبعد وہاں پانی کی کمی اور ماحول میں کثافت کی مضبوط اور متواتر احتجاجات کے بعد اس فیکٹری کو بند کرنے پر مجبور کیا۔ بقول انڈیا ٹوڈے دنیا کی تاریخ میں کارپوریٹ سرمایہ کاری کے خلاف ایک کامیاب اور نتیجہ خیز تحریک کی مثال کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ پانی اور ہوا سب کے لیے ہے کے عنوان پر ماحولیات کو باقی اور برقرار رکھنے کی مہم چلائی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ محترم ٹی کے عبداللہ صاحب نے مرکز میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ہم اللہ کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں اس کے مالکیت کے تصورکو بھی اجاگر کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ہوا پانی اور دیگر عام قدرتی وسائل اللہ کی ملکیت ہیں اور اسے سارے انسانوں کی ضرورت کے لیے عام قرار دینے کی ضرورت ہے اور اس کے استحصال کے خلاف جدوجہد اسی طرح زرخیز زمینوں کو قبضہ کرکے ایکسپریس وے کے منصوبہ کو روکنے کی کامیاب کوشش کی گئی جو صرف کیرالا کی تحریک اسلامی کا خصوصی کام ہے جبکہ دوسرے کسی بھی علاقہ میں اس قسم کی مہم نہیں چلائی گئی حالانکہ بدنام زمانہ اور دنیا کی سب سے خطرناک زہریلی گیس کا واقعہ بھوپال کی Union Carbide فیکٹری میں پیش آیا تھا جس کا شکار مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آج دو تین نسلوں کے بعد بھی سزا بھگت رہی ہے۔ اس کے خلاف کوئی موثر اقدام نہیں کیا گیا۔
تعلیمی اداروں کا قیام
یوں تو کیرالا میں مختلف مقامات پر دینی اور سیکولر تعلیم کے مراکز قائم ہیں لیکن شانتا پورم کا جامعہ الاسلامیہ اس میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ صدیق حسن مرحوم اپنے نوجوانی کے ایام میں جامعہ سے وابستہ تھے، اس کو بین الاقوامی ادارہ بنانے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ جہاں صرف کیرالا نہیں بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے طلبہ اور طالبات مختلف فیکلٹی میں داخلہ لیتے ہیں اور ایک کھلی فضا میں مسلکی تعصبات سے پاک قابل قدر اساتذہ کی زیر نگرانی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ الحمدللہ ملک کے کئی علاقوں کے نوجوانوں نے یہاں کی بہترین فضا میں تعلیم وتربیت حاصل کرکے جامعہ کے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جو آگے چل کر نہ صرف تحریک اسلامی کے لیے بلکہ امت مسلمہ اور ملک کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوں گے۔
اسی طرح کے Safi Institute of Advanced Studyقیام اور انصرام میں بھی پروفیسر صدیق حسن کا ہاتھ رہا اور آگے اسے ایک deemed university بنانے کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ Centre for Information and Guidance Indiaکے تحت ہونہار طلبا وطالبات کے Careerکے لیے رہنمائی کا ایک مثالی ادارہ صدیق حسن صاحب کی سرپرستی میں قائم ہوا جس سے بلا مبالغہ کئی ملین نوجوانوں نے فائدہ حاصل کیا۔ مزید تفصیلات کے لیے اس کے ویب سائٹ کو visit کیجیے ۔ (https://cigi.org)
حرا کانفرنس
کیرالا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی تاریخ میں جماعت اسلامی ہند کا ایک تاریخی اور یادگار اجتماع کالی کٹ کے قریب ایک بہت بڑے میدان میں 1998میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع سے پہلے اس کے تعارف کے لیے کئی مقامات پر launching کے لیے بڑے بڑے اجتماعات کیرالا کے مختلف اضلاع میں کیے گئے اس کے سب سے پہلے لانچ کے موقع پر کچی کے میری ڈرائیو کے ہزاروں کے اجتماع میں اس کے افتتاحی خطاب کا مجھے موقع ملا جو میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔
حرا کانفرنس کی خصوصیت یہ تھی کہ مردوں سے زیادہ خواتین اپنے بچوں اور بڑی عمر کے خواتین کے بشمول پورے پورے خاندان کے ساتھ شرکت کر رہی تھیں اور اسٹیج پر بیٹھ کر میں دیکھ رہا تھا کہ نوجوان لڑکیاں تقاریر کے نوٹس بھی لے رہی ہیں۔ اس اجتماع میں ملک کے نامور شخصیات کے علاوہ بین الاقوامی شہرت کے حامل علما ودانشوران نے بھی شرکت کی جس میں سید قطب کے شہید کے بھائی محمد قطب، امریکہ سے امام سراج وہاج، علامہ یوسف القرضاوی کے ساتھی اور اسلامی معیشت کے ماہر شیخ علی قرہ داغی اور امریکہ کے معروف اسکالر john l esposito بھی شامل تھے۔
اجتماع میں ایک خاص بات یہ ہوئی کہ اس میں غیر متوقع طور پر کثیر تعداد میں شرکت کی وجہ سے دوپہر کے کھانے میں تمام شرکا کے لیے کھانے میں کمی واقع ہوگئی۔ فوراً امیر حلقہ صدیق حسن صاحب نے اعلان کیا کہ جماعت کے ارکان، کارکنان اور ان کے خاندان کے لوگ آج دوپہر کا کھانا نہیں کھائیں گے بلکہ مہمانوں کو کھلانے کے بعد ہی ان کی باری آئے گی۔ ہمارے ہاں اس قسم کا اعلان ہوتا تو افراتفری ہو جاتی لیکن کسی ہنگامہ کے بغیر یہ مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔
میں نے رات کے وقت ایک نوجوان کارکن سے جو دبئی یا قطر سے صرف خاص طور پر اجتماع میں شرکت کے لیے آئے تھے پوچھا کہ کیا دوپہر کھانا نہ کھانے سے انہیں کوئی دقت پیش آئی تھی۔ اس نوجوان کارکن کا جواب حیران کن تھا۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ مہینوں سے اس اجتماع میں شرکت کی آرزو لیے بیٹھے تھے اور چٹھی لے کر میں اس میں شریک ہوا ہوں۔ بھائی صاحب بتایے اپنے گھر میں اپنے رشتہ دار کی شادی ہو تو کیا ہم مہمانوں کو پہلے کھلا کر بعد میں گھر والے نہیں کھاتے؟ کیا ہوا کہ دوپہر کے ایک وقت کا کھانا نہیں ملا یہ کوئی غیر معمولی بات میرے لیے نہیں ہے۔اسی نوعیت کا ایک واقعہ غالباً ایس آئی او یا جماعت کے ایک بڑے اجتماع کے وقت پیش آیا تھا مہمان خصوصی جرمنی کے مشہور دانشور اور مسلم لیڈر مراد ہاف مین تھے۔ اجتماع کے دوران زبردست بارش ہوئی ایسا لگتا تھا کہ اب سارے شرکا تتر بتر ہو جائیں گے لیکن امیر حلقہ نے مائک سنبھالا اور کہا کہ جو جہاں ہے وہیں رک جائیں ۔ ہزاروں کا مجمع تیز بارش میں کھڑا رہا۔ مراد ہاف مین نے اجتماع کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ منظر ان کے ذہن میں تازہ ہے۔ نظم وڈسپلن کا جو مظاہرہ کانفرنس کے شرکا نے کیا ہے ان کو وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔
(IRW) آئیڈیل ریلیف ونگ
خدمت خلق کا یہ شعبہ بھی 1992میں جناب صدیق حسن مرحوم کے دور امارات میں شروع ہوا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ خذمت خلق کے مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ والنٹیرس مہیا کیے جائیں اور فوری طور پر رضاکار جائے وقوع پر پہنچ جائیں۔ IRW کے والینٹرس نے نہ صرف کیرالا میں بلکہ مختلف حصوں میں مثلاً گجرات کشمیر اور تمل ناڈو کے حوادث کے دوران بے مثال خدمات کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
ان کے کام سے متاثر ہو کر حلقہ تمل ناڈو کے بعض رفقا نے خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی IRW کے ٹریننگ کیمپ شامل ہو کر اپنی تربیت حاصل کریں۔ لیک ٹریننگ اتنی سخت تھی اور کھانے میں سادگی اور مختلف قسم کے ورزشوں سے دوچار دنوں ہی میں وہ سب واپس آگئے۔ کیرالا کے رفقا سے معلوم ہوا کہ وہاں اچھے خاصے امیر گھرانوں کے مرد اور جوان بھی درخواست دے کر منظوری حاصل کر کے کورس میں داخل ہوتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ جب بھی ضرورت پڑے وہ اپنے کاموں کو چھوڑ کر خدمت کے لیے حاضر ہو جائیں گے۔
اسلامک پبلشنگ ہاوس (IPH) اس اشاعت گھر سے نہ صرف تحریکی کتابیں بلکہ دنیا بھر میں جو نئے موضوعات اور دلچسپ امور پر کتابیں شائع ہوتے ہیں اس کے تراجم بھی طبع کیے جاتے ہیں اور ایسا نادر اسٹاک ملک کے کسی تحریکی اشاعتی ادارہ میں نہیں ہے۔ تقریباً 500 سے زیادہ موضوعات اور کئی کتابیں 50 ہزار کی تعداد بھی شائع ہوتی ہیں۔ ان کتابوں کے ای بک ورژن بھی دستیاب ہیں۔
اسلامک پبلشنگ ہاؤس کا ایک عظیم کارنامہ اس کا شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا تیار کرنا جو ایک بہت بڑا کام ہے جو ایک حکومت کا ادارہ ہی کر سکتا ہے لیکن اسلامک پبلشنگ ہاؤس کے ذمہ دار قابل مبارک باد ہیں کہ اب تک 13 جلدیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ الحمدللہ
تنمیہ کلا ساہتیہ ویدی، صدیق حسن کا خیال تھا کہ آرٹ اور فنون لطیفہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور سماج کے بیشتر افراد اور باصلاحیت طبقہ اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں میں جو ادیب، شاعر اور فلم ساز ہوتے ہیں ان سب کو انسانی اقدار کی بنیاد پر جوڑنا اور ایک Plural سوسائٹی میں ان کے talent and teachings سے فائدہ اٹھا کر مثبت اور متبادل فکر پر ابھارنا بہت ضروری ہے۔ مسجد نبویؐ کے منبر پر ادب اور شعر وشاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر اصحاب رسول حمد خدا، مدح رسول، توصیف اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔
تینمہ میں نہ صرف مختلف مذاہب کے ماننے ولوں بلکہ یہاں تک کہ مذہب پر یقین نہ رکھنے والے ملحدین سے بھی گفت وشنید، تبادلہ خیال اور ملیالی کلچر کے مختلف پہلووں پر تنقیدی نظر ڈالنے والے احباب جمع ہوتے اور سماج کو بنانے کے موضوع پر اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ڈرامہ، فلم اور دیگر اصناف کو سوسائٹی کے لیے فائدہ بنانے میں تمام مکاتب فکر کے افراد کی ملی جلی کوشش کا مرکز بنانا بھی صدیق حسن صاحب کے پیش نظر تھا۔ سینما جو آج انسانی ذہن وفکر کی تبدیلی کے علاوہ تفریح (Entertainment) کا اہم ذریعہ ہے اس میں مثبت تبدیلی کا رجحان پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ایرانی فلموں نے دنیا بھر میں اپنے فن کے لحاظ سے بھی اور پیغام کو صاف ستھرے انداز سے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کئی بین الاقوامی فلم ایوارڈس بھی حاصل کیے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ تینمہ کے اثرات اب نہ صرف ادبی اور فنی میدانوں میں بلکہ فلموں میں بھی نئے ٹرینڈس لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حالیہ دنوں میں بعض نوجوانوں نے سماج میں موجود مسلم خاندان کے منفی سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے sudani from nigeria اور نئے انداز سے halal love story نامی فلمیں تیار کیں اور کیرالا میں ایک نئے سوچ کی ابتدا کی ہے۔ آئندہ اس کے ذریعہ سے آرٹ کلچر اور سینما جیسے رائے عامہ کو ہموار کرنے والے ذرائع سے سماج کے سوچ اور سمجھ میں مثبت تبدیلی کا آغاز ہو گا جو پورے ملک میں تحریک حلقوں میں ایک منفرد کاوش ہے اور وقت کی ضرورت ہے اور صدیق حسن صاحب نے اس فرض کفایہ کو سر انجام دیا ہے۔
مردم شناسی
مرحوم صدیق حسن کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سماج کے باصلاحیت اور صالح افراد مرد وخواتین اور نوجوانوں سے ربط رکھتے ان کے کاموں کی تعریف کرتے اور انہیں مسلسل مختلف میدانوں میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتے۔
مرکز میں شعبہ خواتین کی سکریٹری رحمت النسا صاحبہ کہتی ہیں کہ صدیق حسن کے دور امارات میں وہ حلقہ کے جی آئی او کی ذمہ دار تھیں ایک موقع پر انہوں نے کالی کٹ میں ایک Feminist مباحثے میں حصہ لیا جس میں ایک مشہور نکسلائٹ Feminist اجیتا سے ان کے بحث کے انداز کو سراہا اور خود ان سے مل کر مبارکباد دی جس سے انہیں تقریر کرنے کی صلاحیت کو ابھارنے میں بڑی مدد ملی۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کی باتوں کو غور سے سنتے ایسا لگتا تھا کہ وہ کانوں سے نہیں دل سے ان باتوں کو سن رہے ہیں۔ کیرالا سے باہر اور اندر اس قسم کے متعدد افراد اور نوجوانوں کی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے جو صدیق حسن صاحب سے متاثر ہو کر آگے بڑھے ہیں۔
پورے ملک میں کیرالا کا کام
مولانا سراج الحسن کے دور میں کیرالا کے کاموں کو اور خاص طور پر صدیق حسن کے منفرد لیکن متفرق کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ مولانا محترم نے مختلف حلقوں میں جو جوان سال امرا حلقہ جات کو مقرر کیا گیا تھا انہوں نے کیرالا کے خصوصی دورہ کا ایک ہفتہ کا تفصیلی دورہ کروایا اور مختلف جہتوں میں جو پیش رفت ہوئی انہیں دیکھنے اور اگر ہو سکے تو اپنے حلقوں میں رائج کرنے کی ہدایت کی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس قافلے میں مجتبیٰ فاروق صاحب، عبدالباسط انور صاحب، انجینئر سلیم صاحب، شفیع مدنی صاحب اور مجھے جانا تھا۔ میں اپنے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے غیر ملکی دورے پر چلا گیا تھا اس لیے میں اس قافلے میں شامل نہیں ہو سکا لیکن جو احباب اس دورہ سے لوٹے وہ بڑے ہی مثبت انداز میں متاثر ہو کر لوٹے تھے۔
انہیں محسوس ہوا کہ اپنے ہاں تحریک ہفتہ واری اجتماعات اور میقات میں ایک دو مہم چلانے اور خدمت خلق کے مخصوص کام کرنے والی تحریک کیرالا کی نہیں ہے بلکہ صدیق حسن صاحب نے اسے سارے معاشرہ کے لیے باعث خیر تحریک کے طور پر اٹھایا ہے جو نہ صرف ملکی و انسانی مسائل میں دلچسپی لیتی ہے بلکہ خیر امت کا حصہ ہونے کے ناطے پوری سوسائٹی کو نفع پہنچاتی ہے۔
مسلم سورھا ودھی
تمام مسلم تنظیموں کے وفاقی تنظیم کی بنیاد صدیق حسن صاحب نے رکھی جس کے ذریعہ ملت کے اختلافی مسائل مثلاً رمضان اور عید کا تعین وغیرہ ہوتا تھا تقریباً ۲۰سال تنظیم کامیابی کے ساتھ کام کرتی رہی۔
ہیومن ویلفیر فاونڈیشن اور Vision 2016
2003 میں نئے میقات کے لیے ڈاکٹر عبدالحق صاحب انصاری کو امیر جماعت منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب حالانکہ ایک صوفی مزاج فلسفی تھے لیکن اپنی تعلیم کے دوران امریکہ کے قیام اور بعد کے سالوں میں سعودی عرب کے طویل قیام میں انہوں نے محسوس کیا کہ ملک سے باہر تعلیم یافتہ مرد وخواتین کا ایک بڑا طبقہ رہتا ہے جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے بھی اور مالی اعتبار سے بھی آسودہ حال ہے۔ انہیں متحرک کرانا اور ملکی سماج اور ملت اسلامیہ ہند کے لیے نافع بنانابہت ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں کیرالا کے سارے ادارے اور بالخصوص کیرالا کی تحریک نے خاص طور پر صدیق حسن مرحوم کی قیادت میں کافی پیش رفت کی تھی۔
نئی میقات کی پالیسی وپروگرام کے ترتیب دینے سے پہلے ڈاکٹر انصاری نے مرکزی شوریٰ کے ارکان اور دیگر سوچنے اور سمجھنے والے افراد سے ملت کی موجودہ بے وقعتی اور بے وزنی کو دور کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے کئی نشستیں منعقد کیں۔ پہلی بار جماعت کے میقاتی منصوبہ میں پس منظر، حالات کے تجزیہ کا حصہ شامل کیا گیا اور خاص طور پر سیاسی لیول پر شرکت اور سماجی معاشی سطح پر اونچا اٹھانے کی ضرورت پر اتفاق ہوا۔ چونکہ سیاسی فعالیت ملک کے تناظر میں لانے کے لیے دستور جماعت میں ترمیم وتبدیلی ضروری تھی اس پر بھی توجہ دینے کا کام شروع ہوا۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب نے اپنا مختصر کتابچہ بنام ’سیکولرازم، جہوریت اور انتخابات، کے نام سے لکھا اور اپنی بات مدلل انداز میں پیش کی۔
سچر کمیٹی کے رپورٹ کے پس منظر میں ملکی سطح پر کام کرنے کے پیش نظر صدیق حسن صاحب کو دعوت دی کہ وہ مرکز تشریف لائیں اور سماجی اور خاص طور پر معاشی سطح پر ملک کو اور بالخصوص ملت اسلامیہ کے کمزور اور کچلے ہوئے طبقات کو اونچا اٹھانے کے لیے ایک بلو پرنٹ تیار کریں۔ الحمدللہ صدیق حسن صاحب کے زیر نگرانی ملک کے سربرآوردہ سماجی قائدین اور جماعت کے نمائندوں پر مشتمل ایک ادارہ Human Welfare Foundation کا آغاز 2006 میں کیا گیا۔ صدیق حسن صاحب نے شمالی ہندوستان کے کئی صوبوں خاص طور پر مغربی بنگال، بہار، آسام اور نارتھ ایسٹ کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں غریب عوام اور خاص طور پر مسلم عوام بنیادی انسانی ضروریات، غذا، پینے کے پانی، صحت و علاج، تعلیم وغیرہ میں جنوبی ہندوستان کے مقابلہ میں خاصے افسوسناک ہیں۔ اس لیے HWF کے تحت کئی نئے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ مثلاً مائکرو فائنانس کے لیے سہولت مائکرو فائنانس سوسائٹی، حقوق انسان کے لیے
Association for Protection of Civil Rights(APCR)
اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے میڈیکل سرویس سوسائٹی اور ناگہانی حادثات کے لیے society for bright future ۔صدیق حسن صاحب کے پیش نظر صنف نازک کو اونچا اٹھانے کے لیے ایک علیحدہ ادارہ اور تجارت اور سرمایہ کاری کی طرف متوجہ کرانے کے لیے انٹرپرونر شپ کے لیے خصوصی توجہ کے ساتھ ایک فعال ادارہ کا قیام تھا۔ تجارت اور انٹرپرونر شپ کے نقشہ بنانے کے لیے انہوں نے خصوصی ورکشاپ بھی کرائے، کئی ملکی اور بیرون ملک ماہرین کو دعوت دی اور اچھا خاصا پلان بھی ترتیب دے ڈالا لیکن مرکز کی منظوری نہ ملنے پر خواتین کے لیے خصوصی ادارہ اور انٹرپرونر شپ کی ترویج کے لیے علیحدہ این جی او ابتدا ہی میں بنایا نہیں جا سکا۔ مجھے یاد ہے کہ انٹرپرونر شپ کے دو روزہ پروگرام میں عالم اسلام کی معروف شخصیت ڈاکٹر سمیر فخرو تشریف لائے تھے ۔انہوں نے بہت اچھے انداز میں پرزنٹیشن دیا۔ پروفیسر صدیق حسن نے اس تجارتی فروغ کے ادارہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی مجھے پیشکش کی لیکن میرے ذہن میں اسلامی سرمایہ کاری اور بلا سودی بنکاری کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی دھن سوار تھی،اس لیے میں نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی اور پھر جب مرکز نے اس ادارہ کے قیام کی منظوری نہیں دی تو ابتدا ہی سے اس اہم کام میں پیشرفت نہیں ہو سکی اور نہ خواتین کے امپاورمنٹ کاخصوصی ادارہ تشکیل پاسکا۔ لیکن ایچ ڈبلیو ایف اور ویژن 2016 میں راقم نے بھرپور دلچسپی لی اور ان کا ساتھ دیا۔الحمدللہ بلا سودی سرمایہ کاری اور سوشل فائنانس مثلاً زکوٰۃ، اوقاف، انشورنس (تکافل) کی ملک میں شمولیت کے لیے انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس (ICIF) 2008 میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم اور دیگر معروف شخصیات پر مشتمل ایک این جی او کا قیام2008 میں عمل میں آیا تھا۔
اب Entrepreneurship کو مرکز جماعت نے براہ راست اپنے پروگرام کا حصہ بنایا ہے اور خواتین کے میدان میں کام کے لیے TWEET نام کا ادارہ HWF کے تحت 2019 میں قائم کیا ہے۔ ہیومن ویلفیر فاونڈیشن اور ویژن 2016دراصل ڈاکٹر عبدالحق صاحب انصاری اور مرحوم صدیق حسن صاحب کا ملک و ملت کو بے وزنی اور بے وقعتی سے نکال کر ایک توانا، تعلیم یافتہ، طاقتور اور خود کفیل معاشرہ تشکیل دینے کا ایک خواب تھا۔ اس کے لیے ملک کے 20 صوبوں میں اور خاص طور پر آسام بنگال اور شمال مشرقی صوبوں میں سیکڑوں مقامی اداروں اور افراد سے مل کر تفصیلی پروگرام بنائے گئے۔ صدیق حسن صاحب نے شب و روز اس کو کامیاب کرانے کی جدوجہد کی۔ کئی غیر ملکی دورے کیے۔ دنیا کی معروف خدمت خلق کی تنظیموں سے روابط قائم کیے اور ان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی۔خاص طور پر بلاد عرب میں مقیم کیرالا کے این آر آئیز سے باقاعدہ وعدہ لیا کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ ویژن کے کاموں کے لیے مختص کریں گے اور ملک وملت کو تبدیل کرنے کے اس عظیم منصوبہ کے حصہ دار بن کر دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت حاصل کریں گے۔ صدیق حسن کی سحر انگیز شخصیت اور ان کے خلوص نے نہ صرف تحریکی حلقوں کو بلکہ دیگر اداروں کے ذمہ داروں کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا۔
اس کام کے کرنے کے لیے مختلف اداروں کو چلانے کے لیے باصلاحیت افراد کا انتخاب بھی ایک مشکل کام تھا لیکن موصوف نے دور جدید کے مینجمنٹ کے نئے اصول اور طریقے disruptive innovation کے ذریعے نئے طرز سے کام کا آعاز کیا اور later entrey کے جدید طرز عمل کے ذریعہ اپنے حلقوں سے باہر کے صاحب صلاحیت اور قابل افراد مرد اور خواتین کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔ مرکز میں ان کا دفتر ہمیشہ سرگرم عمل رہتا تھا اور ایسی سرگرمی مرکز کے کسی ادارہ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ خاص طور پر کیرالا سے مرد وخواتین کا تانتا لگا ہوا ہوتا اور ملک بھر سے لوگ اپنے مسائل اور منصوبے لے کر ان کے دفتر آتے اور وہ اپنے مخصوص انداز میں ان سب سے ملتے اور ان کی سنتے اور مطمئن ہو کر لوٹتے۔جناب نجم الحق ڈھاکہ بنگلہ دیش کے تعزیتی پیغام نے پروفیسر صدیق حسن کے ساتھ ایک ہفتہ کے بنگلہ دیش کے دورہ کی یاد تازہ کردی۔ یہ 2007 کی بات ہے جب بنگلہ دیش میں cyclone sidr سے پورا ملک اور اس کی معیشت متاثر ہوئی تھی۔
صدیق حسن صاحب کی قیادت میں ایک وفد نے جس میں جناب مجتبیٰ فاروق، ڈاکٹر سلیم مولوی اور راقم شامل تھے ایچ ڈبلیو ایف کی ایک ٹکنیکل ٹیم ساتھ بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ یہ سفر اس لحاظ سے یادگار تھا کہ ہم نے مسلم ایڈ یو کے ریلیف کاموں کا معائنہ کیا اور وہاں کے دوسرے موقر ادارے اسلامک بنک آف بنگلہ دیش اور اس کے مختلف فلاحی پراجکٹس، گرامین بیک اور مسلم ایڈ کے آفس کا معائنہ کیا، مفید معلومات حاصل کیں اور اپنے ملک میں بھی اس قسم کے کاموں کے آغاز کا عزم کیا۔
اسی دورہ میں پروفیسر غلام اعظم مرحوم، جناب مطیع الرحمن نظامی شہید اور دیگر متعدد رہنماوں سے تبادلہ خیال کا زرین موقع میسر آیا۔ یہ حیرت انگیز معلومات بھی حاصل ہوئیں کہ ہمارے ملک اور پڑوسی ملک کے علی الرغم بنگلہ دیش کی تحریک کو بڑے ہی قابل قدر اور سماج اور انتظامیہ کے اونچی صلاحیتوں کے حامل افراد ملے جس کی وجہ سے تعلیم، معیشت، بینکنگ اور خدمت خلق کے میدانوں میں انہوں نے غیر معمولی کام کیا اور اب نامساعد حالات میں بھی کر رہے ہیں۔میں اپنے اس مضمون کا اختتام ان کے ایک عزیز ڈاکٹر حبیب رحمن اسسٹنٹ پروفیسر سوشل ورکس جامعہ ملیہ کے تعزیتی مضمون کے ابتدائی پیراگراف سے کرتا ہوں۔
Many more millions to, all across the length and breadth of this country who remained marginalised, voiceless and directionless for generations and whom he had fed, clothed, educated, empowered and equipped with dreams and vision to move ahead in life, I am sure, must have been crying and praying silently all along, since the sad news of his demise has reached them.
He was like a strong and gigantic friend- bearing tree, the roots of which firmly fixed on the ground and the branches touching the skies, even yielding its fruits and shades all across the seasons, providing shelter to millions and feeding many more regardless of any man made considerations of cast, creed or colour.
He was the man of simplicity, kindness and compassions and visionary par excellence ۔ Prof. Siddique Hassan.
(مضمون نگار انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس نئی دلی کےجنرل سکریٹری ہیں)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021