پروفیسر صدیق حسنؒ :وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے
ملک و ملت ایک درد مند شخصیت اورعظیم خدمت گزار سے محروم
وسیم احمد ، دلی
پروفیسر کے اے صدیق حسنؒ ایک ایسے با کمال انسان تھے جو کئی پہلووں سے ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے آج کے دور میں ایک نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حوصلہ مندی، عالی ظرفی، مہارت و صلاحیت کی قدردانی، منصوبہ بندی و دور اندیشی اور بلند نگاہی یہ وہ اوصاف ہیں جن سے ان کی شخصیت مزین تھی۔ انہوں نے اپنی ان خصوصیات سے مسلمانان ہند کو بے پناہ فائدہ پہنچایا۔ نڈر پن و بے خوفی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ اس کا عکس ان کے ملیالم زبان کے اخبار ’’مادھیمم‘‘ میں خوب نظر آتا ہے۔ اس اخبار کے ذریعہ انہوں نے حق و انصاف کی آواز کو ایک نئی قوت عطا کی اور میڈیا کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ویژن 2026غمازی کرتا ہے کہ ان کا دل و دماغ ہمہ وقت ملک و قوم کی تعلیمی، سماجی اور معاشی ترقی و ترویج کے لیے سوچتا رہتا تھا۔ ملک کے طول و عرض میں ان کے دسیوں قائم کردہ ادارے ہیں جن میں سے ایک’ ہیومن ویلفیئر فائونڈیشن‘ بھی ہے جس کے ذریعہ انہوں نے ملت اسلامیہ ہند کے شمالی و جنوبی بازووں کے درمیان مومنانہ اخوت اور تعاون باہمی کے جس سلسلے کا آغاز کیا آج وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ان کا عزم بلند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مشکل ترین منصوبے جس کی انجام دہی میں بڑی قوت و استعداد رکھنے والوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں، انہوں نے ہمت و حوصلہ کے ساتھ کر کے دکھا دیا۔ انہوں نے درس و تدریس کے ذیعہ نوجوانوں میں جہاں تحریک کی اسپرٹ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہیں ریاست کیرالا میں ملیالم زبان میں میڈیا کو مزید آگے بڑھانے میں بھی بڑا کام کیا۔
جماعت سے ان کی والہانہ وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تدریسی خدمات کے دوران کئی بار لمبی چھٹی لے کر جماعت کی سرگرمیوں میں لگ جاتے تھے۔ یہ جذبہ دور طالب علمی سے ہی آپ کے اندر موجزن تھا۔ مرحوم 1977 میں ہی جماعت کے رکن بن چکے تھے اور انہیں پہلی ذمہ داری جو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ انہیں ’’مادھیمم ٹرسٹ‘‘ کا سکریٹری مقرر کیا گیا۔ انہوں نے 1995 سے 2005 تک ریاست کیرالا میں امیر حلقہ کی حیثیت سے جماعت کے لیے خدمات انجام دیں۔ اس دوران انہوں نے ملک و بیرون ملک جماعت کے وابستگان، متفقین اور اراکین کو منظم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
پروفیسر صدیق نے 2005 سے 2012 تک جماعت میں بحیثیت نائب امیر اپنی بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اس عظیم ذمہ داری کے دوران انہوں نے دیگر کاموں کے علاوہ خدمت خلق کے شعبے میں کلیدی سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور شعبہ خدمت خلق کے تحت ہی ’’ہیومن ویلفیر فاونڈیشن‘‘ قائم کیا۔ دراصل ان کی خواہش تھی کہ شمالی ہند میں مسلمانوں میں جو پسماندگی ہے وہ دور کی جائے چنانچہ اسی ہدف کو لے کر وہ اپنی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتے رہے۔ پروفیسر صاحب 2012 میں علیل ہوئے لیکن علالت کے باوجود جب بھی جیسی بھی ضرورت پڑی حتی المقدور جماعتی کام کو انجام دینے میں کوتاہی نہیں ہونے دی۔ گزشتہ کچھ دنوں سے علالت نے جسم میں نقاہت پیدا کردی تھی جس کی وجہ سے تحریکی سرگرمیوں میں عملی طور پر قدرے سست رفتاری دیکھی گئی مگر ذہنی طور پر وہ پوری طور پر تیار رہتے تھے۔ بیماری کے سلسلے میں ملک و بیرون ملک علاج کرایا مگر موت سے کس کو رستگاری ہے؟ اپریل کی چھ تاریخ کو ظہر کے وقت بروز منگل راہی ملک عدم ہوئے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے۔
اہم شخصیات کے تاثرات
سید سعادت اللہ حسینی، امیر جماعت اسلامی ہند
پروفیسر صدیق حسنؒ صاحب نا ممکن کو ممکن بنا دینے کا فن جانتے تھے۔ان سے میرا قریبی تعلق دو دہائیوں پر محیط ہے۔ میں نے متعدد دفعہ دیکھا ہے کہ جب وہ کوئی منصوبہ پیش کرتے تو عام طور پر لوگوں کا فوری تاثر یہی بنتا کہ یہ ناممکن ہے یاہماری قوت و استعداد سے پرے ہے ،لیکن بہت جلد وہ اسے ممکن کر دکھاتے۔خود مجھے بھی تحریک کی مرکزی صفوں میں متعارف کرانے میں ان کا بڑا اہم رول ہے۔ تحریک کے جن بزرگوں سے میں نے حرکت و سرگرمی ، ثابت قدمی و استقلال و حسن انتظام اور سلیقہ مندی سیکھی ہے، ان میں صدیق حسن کا نام سرفہرست ہے۔انہوں نے اے آئی سی ایل (الٹر نیٹیو انوسٹمنٹ کریڈٹس لیمیٹیڈ) کے نام پر ایک ایسا ادارہ قائم کیا جسے ادارہ سے زیادہ ملک میں بلا سودی قرضوں کی ایک طاقتور تحریک کی بنیاد کہنا زیادہ موزوں ہے۔
پروفیسر محمد سلیم انجینئر، نائب امیر جماعت اسلامی ہند:
مرحوم پروفیسر صدیق حسن صاحب دور اندیش شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کا ویژن کافی وسیع تھا۔ ان میں بہت آگے تک کے حالات کا اندازہ لگانے کی خصوصی صلاحیت تھی جس کی وجہ سے حلقہ کیرلا اور مرکز میں بہت غیر معمولی کام انجام پائے۔وہ پختہ عزم و ارادہ والے تھے۔ ہر کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔ صلاحیتوں کو پہچاننا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کو تحریک کے لیے استعمال کرنے کی زبردست قدرت ان میں تھی۔ وہ لوگ جو تحریک کا حصہ نہیں ہوتے ، ان کو بھی مختلف کاموں میں شریک کر لینے کا ہنر جانتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے تحریک کے دائرے کو بہت وسیع کیا۔
سید جلال الدین عمری، سابق امیر جماعت و موجودہ صدر شریعہ کونسل
خدمت خلق اور تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات وسیع ہیں۔مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کی کوششوں میں ان کی جو حصہ داری ہے، اسے بھلایا نہیں جاسکتا ،اس سلسلے میں ’ الشفا‘ اسپتال کا قیام ان کا عظیم کارنامہ ہے۔تعلیم کے میدان میں کیرلا سمیت ملک کی دیگر مسلم کثیر آبادی والے علاقوں میں ان کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔
محمد جعفر، نائب امیر جماعت اسلامی ہند
پروفیسر صدیق حسنؒ نے اپنی زندگی میں کئی اہم کارنامے انجام دیئے۔صحافت میں’ میڈیا وَن‘ اور ’ مادھیہ مم‘ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔اے آئی سی ایل کی شکل میں بلا سودی کاروبار کو فروغ اور فلاحی کاموں کے اثرات آج بھی بخوبی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ملت کی خدمات میں انہوں نے کسی بھی دشواریوں کو آڑے نہیں آنے دیا۔انہوں نے مختصر مدت میں ہی کارہائے نمایاں انجام دے کر مثال قائم کی۔ ان کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے ہی کیرلا سے دہلی مرکز میں انہیں بلا لیا گیا تھا
پروفیسر منظور احمد (آئی پی ایس) فائونڈیشن کے بانی چیئرمین
مرحوم صدیق حسن نے اپنی زندگی عوامی خدمت کے لئے وقف کردی تھی۔ ان کی دلچسپی فلاحی کاموں میں بہت زیادہ تھی۔شمالی ہند میں مسلمانوں کی صورتحال پسماندہ تھی لہٰذا انہوں نے اس خطے پر فوکس کیا اور یہاں کے مسلمانوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے ہیومن ویلفیئر فائونڈیشن قائم کیا جس کے تحت بڑی خدمات انجام دیں۔ آج یہ ادارہ ملک کا سب سے اہم فلاحی ادارہ بن چکا ہے۔
ڈاکٹر علی محی الدین القرضافی: جنرل سکریٹری ، انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرس ، قطر
ڈاکٹر صدیق کی وفات نے عالم اسلام اور تحریک اسلامی کی ایک عظیم شخصیت کو چھین لیا ہے۔وہ قرآن کی اس آیت کے مصداق تھے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ مومنوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا اسے پورا کر دکھایا ‘‘۔ وہ اسلام و مسلمین کے لیے جیتے تھے۔ہم نے مختلف اسلامی منصوبہ جات پر ان سے بات کی تو انہیں ہر معاملے میں بہت پختہ اور گہری فکر کا حامل پایا ۔اللہ ان کے کارناموں کا انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔
پروفیسر محبوب الحق، چانسلر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی ، میگھالیہ
پروفیسر صدیق جیسا انسان کم پیدا ہوتا ہے۔سماجی اصلاحات میں ان کے بڑے کارنامے ہیں۔تعلیمی میدان میں بھی ان کے کارناموں کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔میری ان سے بارہا ملاقات ہوئی ،ان سے جب بھی ملا،ہر ملاقات میں ان کی علمی گہرائی کا ایک نیا راز عیاں ہوا اور جب بھی کسی موضوع پر گفتگو ہوئی تو حیرت انگیز مشورے سامنے آئے۔
پروفیسر عمر فاروق کورکماز، چیف ایڈوائزر منسٹر آف ایجوکیشن، ترکی
پروفیسر صدیق کی وفات کی خبر نے مجھے بہت صدمہ پہنچایا۔وہ دعوت اسلامی کے ایک عظیم سپاہی تھے۔ انسانی خدمات میں ان کے کارنامے بے شمار ہیں۔ انہوں نے انگریزی اور عربی کی متعدد اہم کتابوں کا ملیالم زبان میں ترجمہ کرکے عظیم علمی ذخیرہ چھوڑا ہے ۔مسلمانوں بالخصوص ہندی مسلمانوں کے لئے ان کی وفات ایک عظیم خسارہ ہے ۔ان سے گفتگو کے دوران اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک عظیم اسلامی مفکر تھے۔وہ جماعت اور جماعت سے باہر ہر ایک میں عزیز تھے۔
سی رادھا کرشنن، مصنف ، محقق اور سابق چیف ایڈیٹر ’ مادھیہ مم‘
سیاسی و سماجی ہر معاملے میں پروفیسر صدیق کی رائے بہت مضبوط اور کارآمد ہوتی تھی۔ ہم نے ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔وہ ایک ایسے استاد تھے جن سے ان کا ہر شاگرد دلی محبت کرتا ہے۔
ڈاکٹر ناصر الثانیہ، سابق ممبر پارلیمنٹ ، کویت
پروفیسر صدیق کے اس تعزیتی پروگرام میں مجھے ان کی یادیں رلا رہی ہیں۔ ان کا ویژن 2026 ان کے کمالات کو بتاتا ہے۔ ان سے میری متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں گفتگو سے ان کی عبقریت کا اندزہ ہوتا تھا۔وہ ہر موضوع پر خاص طور پر فلاحی امور اور تعلیمی مسئلوں میں بڑی دقیق نظر رکھتے تھے۔
ڈاکٹر محمد فاروق، صدر : میڈیکل سروس سوسائٹی
پروفیسر صدیق مختلف الجہات کمالات کے مالک تھے۔برسوں میرا ان سے رابطہ رہا ۔ سچر کمیٹی رپورٹ آنے کے بعد مسلمانوں کی ابتر حالت سے وہ دکھی ہوئے اور ٹرسٹ قائم کرکے ان کی بہتری کے لئے کئی کام انجام دیئے۔ان میں سے ایک کام ’ الشفا‘ اسپتال کا قیام بھی ہے۔ان کے کارناموں کو مختصر وقت میں ذکر کرنا مشکل ہے۔
ٹی کے ابراھیم ، صدرمسیج آف مرسی فائونڈیشن، کینڈا
پروفیسر صدیق کے ویژن 2026 سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا دل و دماغ ہر وقت قوم کے لئے دھڑکتا تھا۔منصوبوں کو پورا کرنے میں خطیر فنڈ جمع کرنے میں بڑی ہمت و حوصلہ دکھاتے تھے اور منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے تھے۔
محمد سلمان احمد،صدر: ایس آئی او
جب ہم پروفیسر صدیق حسن ؒ کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک زندگی میں ہزاروں زندگیوں کا کام کردکھایا۔یہ ان کے بلند ہمت و حوصلہ کی وجہ سے ممکن ہوسکا ۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021