پانچ ریاستوں کے انتخابات اور سیاسی ہلچل
نئے سیاسی افق پرمکل رائے، رجنی کانت ،کمل ہاسن اوراسد الدین اویسی نمایاں
آسیہ تنویر،حیدرآباد
ہندوستان کے سیاسی افق پر ہر انتخابات میں نئی صف بندی کا ظہور ایک عام بات ہے۔ ملکی مفادات سے قطع نظر شخصی مفادات ہمیشہ سے سیاست دانوں کی اولین ترجیحات رہی ہیں۔ اب تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سیاسی قائدین ملک کی خدمت کے لیے پنجہ آزمائی نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی و معاشرتی ساکھ کو قائم رکھنے کے آسان اور مختصر راستے کے طور پر سیاسی میدان کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ اسی سیاست کو سیڑھی بنا کر ترقی، دولت اور مقبولیت کے اہداف کو آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں۔ اب کوئی بھی سیاست دان شہرت و نام و نمود کی خاطر کسی وعدہ، کسی اصول اور کسی روایت کو توڑتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ علی الاعلان انتخابات جیتنے کے بعد ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو اپنی وفاداریاں سونپنے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ اب جس طرح سیاست صرف پیسے اور دھوکہ دہی کا کھیل بن چکی ہے ایک عام آدمی جوباوجود یہ کہ ملک کی ترقی میں تعاون کاعزائم رکھتا ہے وہ اس مکروہ تماشے کا تا دیر حصہ نہیں بن پاتا۔
ویسے آزادی کے بعد کافی عرصے تک ہندوستان میں حکومت بنانے کے لیے کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے اصول پسندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا لیکن اسی اور نوے کی دہائی میں اس طرح کی گٹھ جوڑ کی سیاست کا آغاز ہونے لگا اور یہ تماشا اس وقت اور زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے جب انتخابات کا موسم آتا ہے یا پھر انتخابات کے بعد کوئی پارٹی حکومت بنانے کے لیے درکار سیٹوں سے پچھڑ جاتی ہے۔ یہ سیاست انتخابات سے پہلے کی ہو یا بعد کی، اس میں چھپی مفاد پرستی کی قباحت، اس کے مکروہ کھیل کو اجاگر کر ہی دیتی ہے ۔
الیکشن کمیشن نے آئندہ سال اپریل اور مئی میں کسی بھی وقت منعقد ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مغربی بنگال، تمل ناڈو، آسام، کیرالا اور پوڈوچیری اسمبلیوں کی معیاد آئندہ سال مئی اور جون کے درمیان ختم ہونے والی ہے لیکن ان ریاستوں میں ایک طرح ابھی سے انتخابی بگل بج چکا ہے۔ آثار و قرائن کے مطابق ان میں سے بیشتر ریاستوں میں زبردست سیاسی لڑائیاں ہونے والی ہیں۔
مغربی بنگال میں سیاسی درجہ حرارت خاصا گرم ہے۔ جیسا کہ یہاں بی جے پی، ترنمول کانگریس کے اقتدار کو ختم کرنے کے مقصد سے میدانِ عمل میں خاصی متحرک ہو گئی ہے اور اسی کشمکش میں مغربی بنگال کی سیاسی صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ ریاست کی حکم راں جماعت ترنمول کانگریس کی پہلی صف کے لیڈروں میں شامل شوبھیندو ادھیکاری کے بعد جتیندر تیواری نے بھی پارٹی اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ ان کے ساتھ پارٹی کا ایک بڑا حصہ ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ یہ منظر نامہ بتا رہا ہے کہ ترنمول پارٹی میں بھگدڑ شروع ہو چکی ہے۔ ترنمول قیادت ہر چند کہ معاملہ کی سنگینی کا اعتراف نہیں کر رہی ہے لیکن بظاہر عام سی نظر آنے والی یہ صورت حال اپنے اندر واقعی بڑی سنگینی رکھتی ہے کیوں کہ ترنمول کانگریس کے اندر وہ دراڈ پڑ چکی ہے جس کے ذریعہ پارٹی کے مقبول عام اور اصیل سمجھے جانے والے رہنما ایک ایک کر کے باہر جانے لگے ہیں۔ زیادہ تر لیڈروں کا ترنمول کانگریس سے اور ممتا بنرجی کے لیے ان کی بے پناہ وفاداری اور اندھے اعتماد کا زور ٹوٹنے لگا ہے جس کی وجہ سے کئی رہنما پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور بی جے پی بھی ان کا والہانہ استقبال کے لیے بے چین ہوئی جا رہی ہے۔ کیوں کہ ہندوستان کی ہر ریاست میں بی جے پی، اپنی زمینی عددی طاقت مضبوط کرنے کے لیے کانگریس اور دیگر مقامی پارٹیوں کے لیڈروں پر ہی تو انحصار کرتی ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کی مثال کیا ہوگی کہ بی جے پی کے 167 ارکان پارلیمنٹ، سابقہ کانگریسی ہیں۔ ریاستوں میں بھی بی جے پی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر بھی کانگریس اور مقامی پارٹیوں کی موروثی سیاست نے اپنے اپنے قلعہ مضبوطی سے قائم کر رکھے ہیں۔ جب کہ ان مقامات پر جہاں بی جے پی کوئی زمینی عددی تائید نہیں رکھتی وہاں وہ صرف ایک آئیڈیالوجی ہے لیکن اس کے پیچھے وہ ایک طاقتور کیڈر رکھتی ہے۔ اسی لیے ریاست کی مقامی پارٹیوں کے دیگر قائدین یا دوسرے درجے کے قائدین اپنے نشو ونما کے لیے بی جے پی میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ممتا بنرجی کے دھمکی والے بیان کا پس منظر کہ سیاسی قائدین حکومتی اداروں میں رہ کر بے شمار دولت بٹورتے ہوئے ای ڈی کے دائرے میں راست طور پر آسکتے ہیں۔ بی جے پی بالواسطہ طور پر اس خط کو بھی ذریعہ بنا کر انہیں اپنی پارٹی میں شامل کر رہی ہے۔
بی جےپی کی جانب سے یہی حربے مغربی بنگال میں بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ دو درجن سے زائد ترنمول کانگریس کے بڑے لیڈر بی جے پی کے نائب قومی صدر مکل رائے اور انچارج کیلاش وجے ورگیہ کے رابطے میں ہیں۔ ترنمول سپریمو، ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ بی جے پی ان کی پارٹی کے لیڈروں کو پیسہ اور دھمکیوں کے ذریعے اپنی پارٹی میں شامل کر رہی ہے۔ لیکن خود ان کی پارٹی کے اندر، ممتا بنرجی کا اپنی مقبولیت کے زعم میں اپنے بھتیجے ابھیشیک بنرجی کو پارٹی کے تنظیمی امور میں غیر معمولی اہمیت دینا اور ان کی اپنی آمریت، ہٹ دھرمی اور ناقدری کی وجہ سے سب سے پہلے مکل رائے کا پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو جانا بھی قابل نظر انداز واقعات نہیں ہیں۔ کیوں کہ اسی کے راست اثرات کی وجہ سے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 18 نشستوں کا فائدہ پہنچا اور بی جے پی کا بنگال میں سنہرا دور شروع ہوا۔ اب بھی ترنمول کانگریس کے دیگر لیڈروں کا بی جے پی میں شامل ہو جانے سے جس سنگین صورت حال کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ شوبھیندو ادھیکاری دراصل نندی گرام تحریک کے روح رواں رہ چکے تھے جس کی بنا پر جنگل محل علاقے میں ترنمول پارٹی نے اپنا سکہ جمایا تھا۔ بنگال کے اس خطے میں کم و بیش 60 اسمبلی حلقوں میں ادھیکاری خاندان کا اثر و رسوخ ہے۔ شوبھیندو ادھیکاری کا اپنے خاندان سمیت بی جے پی میں شامل ہو جانے کے بعد یہ علاقہ ترنمول کانگریس سے نکل کر بی جے پی کے دائرے اثر میں جانے والا ہے۔ یہی وہ ترنمول کانگریس کے اندر کی صورت حال کی سنگینی ہے جس میں شوبھیندو ادھیکاری سے لے کر جتیندر تیواری تک اگر بی جے پی میں شامل ہو جائیں تو مشرقی برنداون سے لے کر مغربی برنداون تک کا علاقہ ترنمول کانگریس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
اس کے علاوہ اس مرتبہ مغربی بنگال کے مسلمانوں میں بھی ممتا بنرجی سے عقیدت اور بے غرض والی تائید، بے زاری میں بدل چکی ہے۔
ممتا بنرجی بھی مسلمانوں کے اندر اپنے خط اعتماد میں دراڈ کو محسوس کر چکی ہیں جب ہی وہ مسلمانوں کا دوبارہ اعتماد حاصل کرنے کے لیے اسد الدین کے خلاف وہی بی جے پی والے حربے آزمائے جا رہی ہیں۔ اسد الدین اویسی کے خلاف بے بنیاد الزامات اور مفروضات پر مشتمل بیانات کا سہارا لے رہی ہیں۔ اب جب کہ اسدالدین اویسی کے مطابق بنگال میں صرف پارٹی کی کمیٹی بنائی گئی اور انتخابات میں حصہ لینے کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا ہے تو ٹھوس دلائل کے بغیر اسد الدین اویسی کو خریدا ہوا باہر کا آدمی یا ٹیم بی قرار دینا صحت مند سیاست کا حصہ نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مغربی بنگال کی اس ستم رسیدہ صورت حال میں فُرفُرہ شریف کے متولیوں کی جانب سے بھی ایک نئی پارٹی کے اعلان کی توقع کی جا رہی ہے۔ دراصل فُرفُرہ شریف کے متولیوں کو سب سے پہلے کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ممتا بنرجی نے بھی ان لوگوں سے ملاقات کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنگال کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر اسد الدین اویسی کو روکنے کے لیے ایک نئی مسلم پارٹی کا قیام عمل لاتے ہوئے مسلمانوں کے ووٹوں کو بے عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں ممتا بنرجی کو چاہیے کہ وہ ریاست میں بی جے پی کو روکنے کے لیے اول جلول تقریریں کرنے اور بے بنیاد بیانات دینے کے بجائے ریاست میں سیکولر پارٹیوں سے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں جن میں اے آئی ایم آئی ایم بھی شامل ہو تاکہ ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ ٹل سکے۔
ادھر تمل ناڈو کے مشہور و معروف اداکار رجنی کانت نے 31 دسمبر کو نئی سیاسی پارٹی ”رجنی مکلا منڈرم“ کے آغاز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں ان پارٹی شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے ذات پات، نسل پرستی کے مغائر، ایمانداری و شفافیت پر مبنی اور بدعنوانی سے پاک سیاست کا آغاز کرے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ رجنی کانت نے پریس کانفرنس میں بھی ان کی فلموں والے کرداروں کا رخ اختیار کیا ہے۔ کیوں کہ پارٹی کے نام کے اعلان سے لے کر انتخابی نشان کی تشہیر کے لیے جس طرح وہ اپنے فلمی کرداروں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے وڈیوز لانچ کررہے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ عوام میں اپنی فلموں والی امیج کی بے پناہ مقبولیت اور عوام کے ذہنوں میں موجود ان سے جذباتی وابستگی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں جس میں تبدیلی کے خواب دکھانا، جذباتی جملے بازیاں اور وعدوں کی نئی کھیپ والی وہی گھسی پٹی سیاست کے علاوہ ابھی تک کچھ نیا نظر نہیں آیا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ رجنی کانت ٹھوس مسائل پر اپنی پارٹی کے اعلان کے بجائے اپنی اداکاری والی شہرت کی تشہیر کو اہمیت دے رہے ہیں۔ مبصرین کی رائے میں تمل ناڈو میں عوام کی جانب سے بی جے پی کو کئی بار مسترد کر دیے جانے کے بعد نسبتاً بی جے پی کے قریب سمجھے جانے والے رجنی کانت کی اس پارٹی کی پشت پر یہی زعفرانی پارٹی ہے۔
تمل ناڈوکے سیاسی میدان میں ایک اور مشہور اداکار کمل ہاسن بھی برسرِ پیکار ہیں جو وقتاً فوقتاً ملکی اور مقامی مسائل پر بے باک طریقے سے آواز اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کمل ہاسن نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن ضرور لڑیں گے۔ انہوں نے نہیں بتایا کہ وہ کس نشست سے الیکشن لڑیں گے۔ تمل ناڈو کے سیاسی حلقوں میں یہ بھی آواز گونج رہی ہے کہ بہار میں اچھی کارکردگی کے بعد اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کمل ہاسن کی پارٹی مککل ندھی مایایم کے ساتھ ہاتھ ملاسکتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم اور ایم این ایم ایک ساتھ 25 نشستوں پر لڑ سکتے ہیں۔ کمل ہاسن اور اسد الدین اویسی کے درمیان اس ضمن میں مذاکرات کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ ان کے درمیان جنوری میں ملاقات بھی طئے ہو چکی ہے۔
یوں تو اتر پردیش میں مجوزہ اسمبلی انتخابات2022میں ہونے والے ہیں لیکن بی جے پی کے خلاف اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ یہاں بھی اسد الدین اویسی نے سوہیل دیو بھارتی سماج پارٹی کے قومی صدر اوم پرکاش راج بھر سے ملاقات کرتے ہوئے ’’بھاگیہ داری سنکلپ مورچہ‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ جب کہ ہندوستان بھر میں تعلیم یافتہ اور عوام کا ایک بڑا طبقہ ہنوز ان کے خلاف شکوک وشبہات میں مبتلا ہے بلکہ ان کی تائید اور مخالفت میں بٹا ہوا نظر آتا ہے کہ آیا وہ واقعی مسلمانوں کے جائز مقام کی بحالی میں کوشاں ہیں یا پھر اپنی اور اپنی پارٹی کی امیج روشن کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی یہ تشویش بھی باقی ہے کہ اسد الدین اویسی کے اس کاز کا فائدہ کہیں کوئی اور تو حاصل نہیں کر رہا ہے یا ان کی وجہ سے واقعی ووٹوں کا کٹاو تو نہیں ہو رہا ہے۔ یہاں اسد الدین اویسی بھی ایک پرجوش حمایتیوں کی لہر کا شکار نظر آتے ہیں۔ دراصل ان حالات میں مسلمان ووٹرز کو بی جے پی کے مسلم مخالف پروپیگنڈے میں اے آئی ایم آئی ایم ہی واحد متبادل حل نظر آتا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ چند سیٹیں جیت کر ملت کی کونسی خدمات انجام دی جا سکتی ہیں جب کہ یہ وقت متحد ہو کر ظالم عناصر کو شکست دینے کا متقاضی ہے۔
***
تمل ناڈوکے سیاسی میدان میں ایک اور مشہور اداکار کمل ہاسن بھی برسرِ پیکار ہیں جو وقتاً فوقتاً ملکی اور مقامی مسائل پر بے باک طریقے سے آواز اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کمل ہاسن نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن ضرور لڑیں گے۔ انہوں نے نہیں بتایا کہ وہ کس نشست سے الیکشن لڑیں گے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21