وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

عبدالرشید ندوی

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگوں میں کچھ اللہ والے ہیں۔ یہی حضرات اللہ کے دوست اور اس کے خاص الخاص بندے ہیں۔
تشریح: اس حدیث شریف میں حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو یہ بتایا کہ دنیا میں بسنے والے انسانوں میں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں۔ جب صحابہ نے یہ سنا تو ان کے پاکیزہ دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ ان خوش قسمتوں کی صفت معلوم کریں تاکہ ان کی نورانی فہرست میں شامل ہوں۔ یہ مربی اعظم حضرت محمدﷺ کی تربیت کا نرالا انداز تھا کہ دلوں میں ذوق و شوق، جوش و ولولہ پیدا فرمادیتے ہیں اور لوگ سراپا اشتیاق ہوجاتے۔ صحابہ کرامؓ کے لیے اس سے بڑھ کر جذبہ و شوق کو مہمیز کرنے والی بات کیا ہوسکتی تھی کہ ہم جیسے انسان اللہ کے ولی اور دوست بن سکتے ہیں۔ اس دولت کے ہاتھ آنے کے بعد پھر ہمیں کیا چاہیے اور ہم اللہ والے بن جائیں، اس کی محبت و رضا ہم کو نصیب ہو جائے۔ حضور اکرمﷺ نے اتنی عظیم الشان نعمت کو حاصل کرنے کے لیے کتنا آسان نسخہ بیان فرمایا کہ قرآن والے بن جاو، پھر تم اللہ والے بن جاو گے، اللہ کا قرب مل جائے گا۔ لسان نبوت کی بلاغت پر قربان جائیے جبکہ دریا کو کوزہ میں بھردیا۔ قرآن والے کہلانے کے وہی مستحق ہیں جن کو قرآن کریم سے والہانہ تعلق و شغف ہو، اس کے ہر حکم پر ہزار جان سے نثار ہوجاتے ہوں۔ اس کی تلاوت، اس کے معانی میں تدبر کرنا اور اس کے بحر میں غواصی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہو، اس کی تعلیم و تبلیغ اور دنیا میں اس کو عام کرنے کی دھن انہیں لگی ہو، جب لوگ کسی کو عطر والا اور پھول والا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کا ان چیزوں سے گہرا تعلق ہے۔ یہی اس کا پیشہ ہے، جب کسی خوش نصیب کا اسی طرح کا تعلق قرآن کریم سے ہوجائے اور جیسا کہ حضورﷺ کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ وہ اس طرح قرآن کے رنگ میں رنگ جائے تو پھر اللہ ایسے بندہ سے محبت فرماتا ہے۔ اسے اپنے در سے قریب کرلیتا ہے، دنیا و آخرت کی سرفرازی و سربلندی سے نوازتا ہے اور وہ شخص دنیا کے انسانوں میں افضل ترین فرد ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاریؒ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور اس کو سکھائے‘‘۔
’’قرآن والوں‘‘ کا حقیقی مصداق صحابہ کرام اور پھر ان کے متبعین تھے، جب انہوں نے قرآن کو سینے سے لگایا اور قرآن والے ہوگئے تو اللہ ان کا ہوگیا اور پوری دنیا ان کی ہوگئی۔ اور آج جب کہ ہم نے قرآن چھوڑدیا، اس کے حقوق سے لاپروائی کی۔ اس کی بے حرمتی خود کی اور بے حرمتی کو گوارا کیا، طاقوں میں سجاکر رکھ دیا، یا چند موقعوں کے لیے خاص کرلیا تو اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ہم سے ہٹ گئی۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمادیا تھا ’’اس کتاب کے ذریعہ کچھ لوگوں کو سرفرازی و بلندی عطا عطا فرمائے گا اور کچھ لوگوں کو اس سے غفلت و لاپروائی کی وجہ سے ذلیل فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021