وبا کے دوران ائمہ مساجد کی زبوں حالی

معاشی اعتبار سے مستحکم ائمہ مساجد، قوم کی رہبری کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں

ابوفہد، دلی

 

نماز پڑھانا ویسے تو کوئی خاص ذمہ داری کا کام نہیں ہے، کیونکہ نماز تو اپنی بھی پڑھنی ہوتی ہے۔اب اگر کوئی عالم دین مقتدی بن کر کھڑا ہونے کے بجائے خود امام بن کر کھڑا ہو جائے تو اس صورت میں اس پر بھلا کونسی بھاری ذمہ داری آن پڑی؟ جتنا وقت، جتنا اہتمام اور جتنی محنت اس کو اپنی نماز پڑھنے میں صرف کرنی ہوتی ہے تقریباً اتنا ہی وقت اسے نماز پڑھانے کے لیے بھی دینا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے امامت کوئی بڑی ذمہ داری والا کام نہیں نظر آتا۔ مگر وقت کی پابندی اور ایک ہی مقام پر دن رات میں کم از کم پانچ دفعہ حاضر رہنے کے اعتبار سے اور پھر اس لحاظ سے کہ ایک شخص کو ہزاروں نمازیوں کے نخرے برداشت کرنے ہوتے ہیں اور بطور خاص ان کے جو اس کے محسنین کی فہرست میں آتے ہیں، جو اس کے لیے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرتے ہیں اور کھانے میں نمک کے برابر تنخواہ دینے کے لیے تگ ودو کرتے ہیں۔ اگر وہ تگ ودو نہ کریں تو امام کو نمک کے برابر تنخواہ تو کیا محض نمک بھی نہ مل سکے۔ اگر ان تمام حوالوں کے ساتھ امام کی ذمہ داری کو دیکھیں تو یہ اپنے آپ میں بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
پنج وقتہ نمازوں کی امامت کے لیے بمشکل تمام تیس چالیس منٹ ہی درکار ہوتے ہیں۔ کیونکہ امامت صرف فرض نمازوں کی کرائی جاتی ہے اور پانچوں فرض نمازوں کی امامت چالیس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لے سکتی، خواہ وہ کتنے ہی سکون واطمینان کے ساتھ ہی کیوں نہ ادا کی جائیں۔ اس اعتبار سے چوبیس گھنٹوں میں چالیس منٹ کے علاوہ باقی سارے وقتوں میں امام کو فرصت ہی فرصت ہے تاہم اتنی ساری فرصت اور فراغت کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ امام کبھی فرصت میں نہیں رہتا۔
بعض چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے فرصت ضرور مل سکتی ہے مگر کسی بھی بڑے کام کے لیے فرصت نہیں مل سکتی۔ مدرسے میں پڑھانے اور ٹیوشن کرنے کا وقت بے شک مل سکتا ہے مگر کاروبار کرنے کا وقت نہیں مل سکتا، کاروبار کے نام پر بھی بیشک مسجد سے ملحق چھوٹی موٹی دوکان ضرور چلا ئی جاسکتی ہے مگر کوئی بھی بڑا کاروبار کرنا امامت کے فرائض نبھانے کے ساتھ ساتھ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ امام دو نمازوں کے درمیانی وقت میں اتنی دور بھی نہیں جاسکتا جہاں سے وہ دوسری نماز کے وقت تک واپس نہ لوٹ سکے اور ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا جسے ’’جماعت‘‘ کے وقت روکا نہ جاسکے یا ختم نہ کیا جا سکے۔ کوئی بھی کاروباری اپنے کام کے سلسلے میں ہر ماہ بلکہ ہر ہفتے کئی کئی دنوں کے لیے گھر سے دور رہ سکتا ہے، مگر ایک امام ایسا نہیں کرسکتا۔ جب آپ ان پہلؤوں پر غور کریں گے تو آپ کو امامت کے فرائض کی مشکلات کا صحیح علم ہو سکے گا۔
اگر آپ امام نہیں ہیں تو آپ کو یہ سہولت حاصل ہے کہ نماز کے طویل وقت میں آپ کبھی بھی اور کہیں بھی نماز ادا کر سکتے ہیں، گھر میں بھی اور آفس میں بھی، روڈ کے بازو بھی اور کھیت پر بھی۔ مگر کیا ایک امام بھی ایسا کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بس اسی وجہ سے یہ ذمہ داری اور بھی سخت ہو جاتی ہے۔
دوسری اہم بات جو امام اور امامت سے متعلق ہے وہ مختلف الخیال اور مختلف المسالک نمازیوں کی زود رنج طبیعت سے ٹکراؤ ہے۔ امام خواہ کتنا بھی قابل اور سلیقہ شعار کیوں نہ ہو اہل محلہ میں کوئی نہ کوئی اس کا مخالف ہوتا ہی ہے۔ اور اگر کسی کو اس کی ذات اور کردار سے شکایت نہ بھی ہو تو بھی اس کے مسلک اور عقائد سے پریشانی ضرور ہوتی ہے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ امام انتظامیہ کمیٹی اور با اثرنمازیوں کی اپنی چپقلش اور تکرار کا شکار ہو جاتا ہے اور نتیجہ میں اسے ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جاتا ہے۔
مذکورہ تمام باتوں کی بنیاد محض سنی سنائی افواہوں پر نہیں ہے بلکہ اماموں کی آپ بیتی اور روداد ہے۔ اور ان کی زندگی، ان کے مسائل اور ان کے معاشرتی اسٹیٹس کا بہت قریب سے کیا گیا راقم السطور کا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے۔
ایک بڑا سوال تو یہ بھی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی نوکریاں ہیں ان میں سے بیشتر اتنی آمدنی والی ضرور ہوتی ہیں کہ ایک نارمل اور سادہ سی زندگی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے کفایت کر جاتی ہیں مگر امام کی ذمہ داری ایسی کیوں نہیں ہوسکتی کہ اسے زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے لئےادھر ادھر بھٹکتے پھرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال جائز ہو جاتا ہے کہ امام کی تنخواہ بڑھانے کے بجائے اس کو امامت کے ساتھ دوسرے کام کرنے کی ترغیب کیوں دلائی جاتی ہے؟ امام کو کم وظیفہ دے کر اسے کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائز ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے دوسری جگہ بھی کام کرے؟ محض وظیفہ کی تخفیف اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ دیگر چھوٹے موٹے کام کرے۔ پھر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مقتدی یہ شکایت بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ امام صاحب کا علم پختہ نہیں ہے۔ ایک طرف آپ اپنے امام کو علم میں رسوخ پیدا کرنے کے مواقع نہیں
دیتے اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ اس کے بیان میں عالمانہ شان کی کمی ہے۔
وظیفہ اس مضمون میں اساسی حیثیت سے اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ یہی ایک عمل ٹھیک کر دینے کی وجہ سے یعنی امام کا وظیفہ امامت اتنا بڑھا دینے سے کہ اس کی زندگی کی واجبی ضروریات کو کفایت کر جائے، اتنی بڑی تبدیلی رونما ہوجائے گی کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ ذرا غور کریں! جب امامت کا وظیفہ بھی خاطر خواہ ہو جائے گا تو کون ایسا مسلمان ہوگا جو اپنے بچوں کو اس پیشے سے منسلک کرنے کی کوشش نہیں کرے گا یا تمنا نہیں کرے گا۔ جب لوگ بہت ہی معمولی ملازمت پانے کے لیے بھی تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں، بچوں سے طرح طرح کے امتحانات دلواتے ہیں، ٹریننگ دلواتے ہیں، ان کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں حتیٰ کہ بیس پچیس ہزار کی جاب پانے کے لیے بھی دوڑ دھوپ کرتے ہیں تو اگر کسی مسلمان کے بچے کو یہی پچیس تیس ہزار روپے دینی خدمت کے عوض مل جائیں تو بھلا کونسا مسلمان ہوگا جو یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے بچے دینی خدمات میں لگیں۔ اس میں قلب ونظر کی پاکیزگی بھی ہے، پیسہ بھی ہے اور عزت بھی۔ ہر مسلمان یہی چاہے گا کہ اس کا بچہ بینک میں ملازم یا منیجر کی کرسی پر نہ بیٹھ کر مسجد کے مصلے پر آ جائے۔
پھر جب ایسا ہوگا تو اس پر ایک اور اچھی چیز متفرع ہوگی، وہ یہ کہ مسلم قوم کے زیادہ سے زیادہ بچے علم میں رسوخ پیدا کریں گے پھر مسجد کی انتظامیہ کے پاس یہ موقع بھی ہوگا کہ وہ اچھے سے اچھے اور بہتر سے بہتر امام کا انتخاب کرسکے گی۔ پھر یہ شکوہ بھی خود بخود رفع ہو جائے گا کہ امام صاحب کو علم دین میں رسوخ حاصل نہیں۔ مزید ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ قوم کے خوشحال گھرانوں کے بچے بھی امامت کے پیشے سے وابستہ ہونے کی کوشش کریں گے اور جب ایسے افراد امام کے پیشے سے منسلک ہوں گے تو امام کی حیثیت ان کا وقار کہیں زیادہ بلند ہوگا، وہ اپنے محلے میں کوئی بھی سماجی کام لے کر چلیں گے تو جو لوگ نماز میں ان کی اقتدا کرتے ہیں وہی سب لوگ سماجی اور فلاحی کاموں میں بھی ان کی اقتدا کرنا پسند کریں گے۔ کیونکہ پھر اہل محلہ کے پاس یہ غرہ نہیں ہوگا کہ ہم تو ذی حیثیت ہیں، جدید تعلیم یافتہ ہیں اور محلے کے شرفاء میں شمار ہوتے ہیں تو غریب امام کے پیچھے کیوں چلیں۔ تو جب امام بھی انہی کی طرح ذی حیثیت اور صاحب علم ہوگا تو ان کے اس غرہ کی تان خود بخود ٹوٹ جائے گی بلکہ اس صورت میں محلے کے ذی ثروت لوگ مسجد کے باہر والے کاموں میں بھی امام کی اقتدا کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھیں گے۔ اس طرح صرف ایک چیز یعنی تنخواہ کے اضافے سے کتنے سارے اضافے خود بخود پنپتے اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔
سال دو ہزار بیس میں پوری دنیا کرونا کی جان لیوا وبا سے متاثر رہی۔ اس سال بے شمار اہل علم دنیا سے جا چکے اور اقتصادی اعتبار سے بھی بے شمار لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ لاک ڈاؤن اور بیماری کا بہت بڑا اثر علمائے دین اور ائمہ مساجد پر بھی پڑا، کئی ائمہ مساجد میں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں رک گئیں اور کئی ائمہ کو ذمہ داری سے فارغ کر دیا گیا حالانکہ ان کی تنخواہیں معمولی تھیں مگر محلے کے لوگ تین چار ہزار کی تنخواہ کا بھی انتظام نہیں کرسکے۔ یہ خبریں قوم کی بے حسی کو آشکار کرتی ہیں۔
دیہات، قصبات اور بعض چھوٹے شہروں کی چھوٹی مساجد کا سروے کرنے سے کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ائمہ مساجد کی صورت حال کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
***

دنیا میں جتنی بھی نوکریاں ہیں ان میں سے بیشتر اتنی آمدنی والی ضرور ہوتی ہیں کہ ایک نارمل اور سادہ سی زندگی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے کفایت کر جاتی ہیں مگر امام کی ذمہ داری ایسی کیوں نہیں ہوسکتی کہ اسے زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے لئےادھر ادھر بھٹکتے پھرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال جائز ہو جاتا ہے کہ امام کی تنخواہ بڑھانے کے بجائے اس کو امامت کے ساتھ دوسرے کام کرنے کی ترغیب کیوں دلائی جاتی ہے؟ امام کو کم وظیفہ دے کر اسے کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائز ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے دوسری جگہ بھی کام کرے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021